• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ یہ فلمی کہانی ہے اور نہ ہی اس میں فوٹو شاپ یا ایڈوب پریمئیر کی مدد سے کوئی اسپیشل ایفیکٹس استعمال کئے گئے ہیں۔ یہ ہماری ٹیم کی دن رات کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ سامنے چیئرمین انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ ڈاکٹر عمر سیف بیٹھے تھے۔ ان کا بیانیہ کچھ یوں تھا۔ بطور سربراہ

پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ یعنی پی آئی ٹی بی جوائن کرنے کے بعد اعلیٰ سطحی میٹنگ میں طے کیا گیا کہ پنجاب کے نظا م تعلیم اور نظام اسکول دونوں کو نہ صرف ٹھیک کرنا ہے بلکہ اسے درست راستے پر بھی گامزن کرنا ہے۔ بظاہر یہ محض ون لائنر تھالیکن بقول شاعر ترمیم کے ساتھ ایک اور طوفان کا سامنا تھا جب میں پہلےطوفان سے نکلا۔مشکل پسندی کے دعوئوں کابرملااظہار چڑیل کی مانند سامنے آن کھڑا ہوا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ زندگی کا ہر نیا مرحلہ کرکٹ مقابلوں میں پہلے میچ کی مانند ہوتا ہے ہاتھ پیر پھول رہے ہوتے ہیں نفسیاتی شکست وریخت کا عمل جاری وساری ہوتا ہے۔ناکامی کا ڈر جن بن کرسر پر سوار ہوتاہے۔یہ دقت طلب منصوبہ پی آئی ٹی بی کو مکمل کرنا طے پایا تھا۔اپنی ٹیم کے سامنے یہ پہاڑ جیسا ٹاسک رکھا تو انھوں نے اسے انتہائی سنجیدگی سے لیا۔کامیابی تک پہنچنےکا عزم پورا کرنے کیلئے ناکامی کو وجوہات کا جاننا اشد ضروری ہوتا ہے۔ ٹیم نے اس کیلئے پیرامیٹرزطے کرنے کیلئے سائنسی بنیادوں پرسرچ اور ریسرچ ٹولز کی مدد لی۔یہ محض لفاظی نہیں کہ ایک ٹیبل اسٹوری تیار کرلی جائے اور اس کی پریزنٹیشن دے دی جائی۔یہ منصوبہ واقعی آئی ٹی اور تعلیمی ماہرین کی شدید جدوجہد کا طالب تھا۔ہمیں کہا گیا تھا کہ پہلے پنجاب کے تعلیمی نظام کو اسکین کریںاسے نہ صرف درست کرنا ہے بلکہ اسکی درست سمت بھی متعین کرنی ہے اگر یہ کامیاب ہوجائے تواس نظام کو پورے پاکستان میں بھی متعارف کروانا ہے۔ صرف پنجاب کےاعداد وشمار اکٹھے کئے تو دانتوں تلے پسینہ آگیا۔ پنجاب میں پبلک سیکٹر میںنظام تعلیم متعدد پیچیدہ مسائل میں گھرا ہوا پایا۔کئی دہائیوں میں اس حال کو پہنچنے والے نظام کو مطلوبہ سطح پر لانابچوں کا کھیل نہ تھاکیونکہ مسائل پیچیدہ حد تک گنجلک تھے۔کہیں ایک سرا تو کہیں دوسرا سرا نہیں مل پارہاتھا۔ایک طرف گھوسٹ اسکول خزانے کو چاٹ رہے تھے تو دوسری طرف بوگس انرولمنٹ اعدادوشمارکا گھن لگا ہوا تھا۔ شہری اسکولوں میں بالعموم اور دیہی اسکولوں میں بالخصوص غیر حاضر رہنے والے اساتذہ پورے نظام کیلئے سم قاتل تھے جنھیں اسکول حاضر ہونےاورپڑھانے پر لگانا تھا۔ بوگس انرولمنٹ کا دروازہ بھی بند کرنا تھا۔جو بچے اساتذہ کی مار،بے جا سختی یا معاشی مسائل کے باعث اسکولوں سے باہر تھے ان کا بھی بندوبست کرنا تھا۔ بالکل ویسی صورتحال کا سامنا تھاجیسے پرانی گاڑی کا انجن برائے اوورہالنگ کھلتا ہے تو کئی کام نکل آتے ہیںاور ان سب کو ٹھیک کرنا ضروری ہوتا ورنہ انجن کھولنے اور اوورہالنگ کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ صوبہ پنجاب کو پاکستان کا دل قراردیا جاتاہے۔ طاقتوردل دھڑکے گا تو ملک پاکستان کی رگوں میں توانائی سے بھرپور خون دوڑے گا، تو خوبصورتی کی لالی ہر شہر کے چہروں سے عیاں ہوگی یہ سوچ ہمارےا ذہان میں ہمہ وقت گردش کرتی رہتی ہے۔ صرف پنجاب کی ہی بات کریں تو یہاں پبلک سیکٹر میں 52ہزار سرکاری اسکولوں میں چار لاکھ اساتذہ ایک کروڑ بیس لاکھ بچوںکو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔2014میں جب حکومت پنجاب کی ہدایات کے بعد منصوبہ بحالی نظام تعلیم شروع کیا گیاتوپنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے اسکولوں کی باقائدہ مانیٹرنگ، انرو لمنٹ اور اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔وضع کردہ یہ نظام کمپیوٹرٹیبلٹس پر کام کرتا ہے۔13 سو مانیٹرنگ آفیسرز ماہانہ اسکولوں کا وزٹ کرکے وہاں موجود سہولتوں،اساتذہ اور اسٹوڈنٹس کی حاضری بارے رپورٹ مع رجسٹروں اورعدم سہولیات کی تصاویر فائل کرتے ہیں۔ ڈیٹا جیو ٹیگ ہےیعنی سسٹم اسی وقت ڈیٹا قبول کرے گا جب مانیٹرنگ آفیسر اسکول کی حدود میں ہوگا۔گزشتہ چار سالوں میںسسٹم میں 19 لاکھ رپورٹس اپ لوڈ کی گئیں۔الف اعلان نےہمارے ڈیٹا کو آزادانہ کی جانے والی تشخیص کے ساتھ 93فیصدقابل بھروسہ قرار دیا ہے۔احتساب کی غرض سےہمارا سارا ڈیٹا پبلک ہےجو ویب سائٹopen.punjab.gov.pk/schoolsپر دستیاب ہے۔ سابقہ سالوں کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔مانیٹرنگ آفیسر ہر اسکول وزٹ پراسٹوڈنٹس سے ٹیبلٹ پرخود کار طریقے سے ظاہر ہونے والےکوئز کے سات سے دس ایم سی کیو سوالات کے جوابات طلب کرتا ہے۔یہ اسٹوڈنٹس پرفارمنس چیکنگ ہے۔ابھی ہمارا فوکس گریڈ تھری کے اسٹوڈنٹس کی کارکردگی پر ہے جن کےابھی تک 35 ملین ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔چیلنج تو یہ ہے کہ کس طرح تدریسی عمل کو بہترین کیا جاسکے۔ اس مقصد کیلئے ہم گریڈ 6 تا 12 کیلئے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ زکی کتابوں کو ڈیجیٹلائز کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیںجس میںمختلف کتابوں کی آن لائن 13 ہزار ویڈیو لیکچرز، 21سو منٹ کے آڈیو لیکچرزاور 18سو اینی میشنز،گیمز اور ایسیسمنٹ دستیاب ہیںجن سے بچہ کسی بھی وقت مدد لے سکتا ہے۔معیاری اور یکساں تعلیم دینے کیلئے دو سالوں میں ڈیجیٹل مواد کلاس رومز تک پہنچا دیا ہے۔ ریاضی اور سائنس کے اساتذہ کو ٹیبلٹ اورکلاس رومز میں ایل سی ڈی لگوا دی ہیں۔ 60 اسکولوں میںکی جانے والی ایک سالہ اسٹڈی کا نتیجہ یہ ہے کہا سٹوڈنٹس کے ریاضی کے اسکورز ایک سو بیس فیصد، سائنس کے باون فیصدبڑھ گئے۔جن اسکولوں میں ای لرن متعارف کروایا گیا وہاں ٹیسٹوں کے نتائج 74 فیصد بڑھ گئے۔پروجیکٹ کاسٹ فی اسٹوڈنٹ 75 روپے سے کم رہی۔ یہ نظام 800 مز یداسکولوں میںمتعارف کروایا دیا گیا ہےجس سے نہ صرف تدریسی معیار نہ صرف یکساں بلکہ معیاری بھی ہوگا۔یہ ہےاس خاموش انقلاب کی محض ایک جھلک جو پی آئی ٹی بی کی منظم ٹیم برپا کررہی ہے۔ ٹیم پی آئی ٹی بی اس کے علاوہ بھی کئی سو منصوبوں پر کامیابی سےعمل پیرا ہےجس کا ذکر پھر کبھی سہی۔

تازہ ترین