• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 2015کی بات ہے ، دہلی کی جامعہ ملی اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبا نے خواتین کے زیر استعمال ’’سینیٹری پیڈز ‘ ‘ یونیورسٹی کی دیواروں پر چسپاں کر دئیے ، اس حرکت کا مقصد جنس کی بنیاد پر عورت کے ساتھ متعصب رویہ رکھنے پر ’’احتجاج ‘ ‘ کرنا تھا ۔ ٹھیک ایک سال بعد یہی احتجاج لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کی طالبات نے گزشتہ دنوں کیا ، انہوں نے خواتین کے مخصوص ایام میں استعمال ہونے والے پیڈز کو اپنے ادارے کی دیواروں پر ٹانگ دیا اور اس پر مختلف قسم کے جملے لکھ دئیے کہ ’’خون میں کوئی گندگی نہیں…میں اس سے شرمندگی محسوس نہیں کرتی …! ‘ ‘ وغیر ہ وغیرہ ۔بظاہر ان طالبات کا مقصد عوام کو یہ ’ ’ شعور ‘ ‘ دینا تھاکہ خواتین کے مخصوص ایام کے ساتھ نفرت اور شرمندگی کا تصور غلط ہے ، ایک نارمل خاتون کی زندگی میں یہ ایک نارمل بات ہے جس میں نہ صرف اسے کسی قسم کی شرم یا جھجک محسوس نہیں کرنی چاہئے بلکہ مرد حضرات کو بھی اسے ’’گندی بات ‘ ‘ کہہ کر منہ نہیں پھیرنا چاہیے ۔ ’’ہم جب یہ پیڈ خریدنے جاتی ہیں تو انہیں خاکی لفافوں میں ڈال کر دیا جاتا ہے ، ان کے بارے میں سرگوشیوں میں یوں بات کی جاتی ہے جیسے یہ کوئی غلیظ راز ہو ، اور چونکہ اس پر کھل کر بات نہیں کی جاتی اس لئے بہت سی خواتین کوبیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں کیونکہ انہیں ان باتوں کا علم ہی نہیں ہو پاتا جو اس سے جڑی ہیں ۔ ‘ ‘
خدا جانتا ہے کہ مجھ ایسے شخص نے بھی یہ باتیں کس قدر کوفت کے ساتھ اپنے کالم میں لکھی ہیں ، میں کسی حد تک روشن خیال ضرور ہوں مگر ایسی روشنی جس سے آنکھیں ہی چندھیا جائیں مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتی۔مجھے نہیں پتہ کہ اس احتجاج کا خیال کسی لڑکی کو کیوں آیا ، اسے اپنی زندگی میں ایسی کیا مشکل پیش آگئی جس کی وجہ سے تنگ آکر اس نے آزادی نسواں کے اظہار کا یہ انوکھا طریقہ دریافت کیا۔ ہم سب اسی معاشرے میں رہتے ہیں ، اس میں ہزار خرابیاں سہی مگر یہ آج تک نہیں سنا کہ خواتین کے مخصوص ایام کی بنا پر انہیں کسی نے تشدد کا نشانہ بنایا ہو، ان پر آوازیں کسی ہوں ، کالج میں کسی نے ان کی تضحیک کی ہو، دکان پر اپنی ضرورت کی چیزیں خریدتے ہوئے انہیں کسی نے معنی خیز نظروں سے دیکھا ہو۔ دکاندار نظریں نیچی کرکے ان کی مطلوبہ چیز خاکی لفافے میں ڈال کر ان کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں ، اس احتجاج کے بعد البتہ یہ نتیجہ نکلنا چاہیے کہ اب اگر کوئی خاتون اپنی ضرورت کی چیز خریدنے جائے تو دکان دار آواز لگائے کہ بھئی سلمیٰ بی بی آ گئی ہیں ، ان کے لئے فلاں برینڈ کا پیڈ لانا، انہیں یہی سوٹ کرتا ہے ، یہ لیجئے میڈم ، استعمال کرکے بتائیے گا، آرام ملا ! یونیورسٹی میں اس احتجاج کے بعدبھی اصولاً یہی ہونا چاہئے کہ پروفیسر صاحب حاضری لگائیں اور جواب میں آواز آئے کہ سر ،شکیلہ آج…کی وجہ سے نہیں آ سکی اور پھر تمام لڑکے اس کی دوستوں سے پوچھیں کہ پچھلی ماہ تو یہ تاریخ نہیں تھی ، اس مرتبہ کوئی پرابلم ہو گئی ہے ، خدا خیر کرے، چلو اسے کسی ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں ! میں اب تک مخمصے میں ہوں کہ آخر اس احتجاج سے کیا حاصل کرنا مقصود تھا کیونکہ ہر طبقہ اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرتا ہے ، مثلا مزدور احتجاج کرتے ہیں کہ ان کی اجرت میں اضافہ کیا جائے ، خواتین گھریلو تشدد کے خلاف احتجاج کرتی ہیں ، کلرک اپنی کم تنخواہوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں ، مگر یہ احتجاج کس لئے تھا؟کیا اس کا مقصد محض یہ اجاگر کرنا تھا کہ خواتین کے مخصوص ایام باعث شرمندگی نہیں ہوتے اورخواتین کو اس بارے میں کھل کر بات کرنی چاہئے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو معاف کیجئے گا یہ دلیل نہایت بودی ہے ، کیونکہ ہماری زندگیوں میں ایسی لا تعداد باتیں ہیں جو حقیقت ہیں ، جن میں ہمارا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا مگر ہم ان کے بارے میں چوراہے میں تو کیا اپنے دوستوں میں بھی بات نہیں کرتے۔ خود ہماری پیدائش کا عمل ایسی ہی ایک بات ہے ، یہ ایک قدرتی عمل ہے ، باعث شرم بھی نہیں تو کیا اب ہر کوئی اس عمل کی جزئیات لکھ کر یونیورسٹی کی دیوار پر ٹانگ دے اور کہے کہ یہ ایک حقیقت تو ہے اسے چھپایا کیوں جائے ۔
احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ہے مگر یہاں بات اس قدر سادہ نہیں ۔ دراصل ہم مغرب زدہ لوگ ہیں ، انہی کے ہاں سے مستعار لی ہوئی تراکیب استعمال کرتے ہیں ، جس قسم کی تحریکیں وہاں چلتی ہیں ہم یہ سوچے بغیر انہیں جپھا ڈال لیتے ہیں کہ اس کی ہمارے معاشرے میں کتنی مناسبت ہے ! آزادی اظہار سے لے کر آزادی نسواں تک ، جتنے تصورات ہیں اگر ہم ان کی تشریح مغرب کے مطابق اپنانے کی کوشش کریں گے تو نتیجہ چارلی ہیبڈو جیسے بیہودہ خاکوں اور اس قسم کے بے سروپا احتجاج کی شکل میں برآمد ہوگا ۔میں آزادی اظہار کے خلاف ہوں اور نہ آزادی نسواں کے ، میں ان تصورات کی اس مغربی تشریح کے خلاف ہوںاور خود کو اس بات کا پابند نہیں سمجھتا۔ آزادی اظہار ہونی چاہیے مگر یہ طے کرنے کا حق مغرب نے کیسے لے لیا کہ اس آزادی کی کوئی حدود نہیں ہو سکتیں، چاہے وہ مسلمانوں کی محبوبﷺ ترین ہستی کی تضحیک ہی کیوں نہ ہو؟ میں ایسی آزادی اظہار کو نہیں مانتا۔ اسی طرح میں آزادی نسواں کے بھی حق میں ہوں مگر اس تصور کی وہ تشریح ماننے کا پابند نہیں جو مغرب ہمارے سر منڈھنا چاہتا ہے، یہ کیسی تشریح ہے جس کے تحت عورت کی آزادی کا سب سے بڑا چمپئن بھی امریکہ اور عورت کے ننگے پن کا سب سے بڑا سوداگر بھی امریکہ، واہ۔ عورت اگر ٹینس کھیلے تو اس کے لئے لازم کہ اسکرٹ اس قدر چھوٹی ہو کہ ٹانگیں برہنہ رہیں (ایک زمانے میں پی ٹی وی پر ویمبلڈن دکھانے سے اشتہارات کی بھرمار اسی وجہ سے ہوئی تھی) جبکہ مرد شارٹس پہن کر کھیل سکتا ہے، بیچ والی وال میں خواتین کے لئے بکنی پہننا لازم ، دفاتر میں بھی عام طور پر خواتین کا لباس اسکرٹ ہوتا ہے جس میں ٹانگیں نظر آئیں، اسکولوں کے بیشتر یونیفارم کا بھی یہی حال ہے، کیا یہ آزادی نسواں کی شرائط ہیں؟ کچھ عرصہ پہلے ایک بھارتی اخبار نے اداکارہ دیپیکا پڈوکون کے فگر کے بارے میں پھبتی کسی تو جواب میں دیپیکا نے ٹویٹ کیا کہ وہ ایک عورت ہے اور اس کا فگر ہے، آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ دیپیکا کا جواب ایک حد تک تو درست تھا مگر میڈم جب آپ بڑی اسکرین پر، رسالوں کے سرورق پر، اخبارات کے صفحات پر اور ویب سائٹس پر نیم پرہنہ تصاویر خود اپنی رضامندی سے دیں گی اور ہر ممکنہ پوز میں دیں گی تو لوگ اس پر ہر قسم کا تبصرہ بھی کریں گے، یہ نہیں ہو سکتا کہ تصاویر اترواتے وقت آپ کپڑے اتار دیں اور جب لوگ آپ کےفگر کے بارے میں رائے دیں تو آپ آزادی نسواں کا لبادہ اوڑھ لیں!
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مغرب کے وہ شعار اپنانے کو تیار نہیں جن کے بل بوتے پر انہوں نے ترقی کی جیسے محنت، ایمانداری، تنقیدی شعور کی حوصلہ افزائی، سوال اٹھانے کی آزادی اور قانون کی پاسداری۔ ہمیں دیواروں پر پیڈ ٹانگنے کی آزادی کا تو پتہ ہے مگر یہ نہیں پتہ کہ مغرب میں ان کی ایک یونیورسٹی کتنے ایسے پی ایچ ڈی پیدا کرتی ہے جن کے مقالے عالمی سطح پر تسلیم کئے جاتے ہیں اور یہی ہماری ناکامی کی وجہ ہے۔ طالبات کے اس انوکھے احتجاج پر کافی دوستوں نے کالم لکھے جن میں سے ایک کالم ہمارے دوست گل نوخیز اختر کا بھی تھا جس کا اختتام مجھے بہت اچھا لگا، لکھتے ہیں ’’جن طالبات نے احتجاج کیا انہیں یہ ضرور بتانا چاہئے کہ اگر یونیورسٹی کے لڑکے بھی ایسا احتجاج کرنا چاہیں تو وہ دیواروں پر کیا چسپاں کریں!‘‘
تازہ ترین