• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معروف امریکی ادارہ پیو (PEW ) ریسرچ سینٹر کے ایک تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستانیوں کی واضع اکثریت یعنی 78 فیصد کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک میں قرآنی تعلیمات کے مطابق بنائے گئے قوانین کا مکمل طور پر اطلاق چاہتے ہیں۔ اس سروے کے مطابق 16 فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی اصولوں کے مطابق قوانین بنائے جائیں لیکن وہ اس سلسلے میں کچھ نرم رویہ رکھتے ہیں۔ ان کے برعکس پاکستان میں صرف دو فیصد ایسے افراد ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہونا چاہیے۔ سروے جو ایک امریکی ادارے نے کیا اُس نے ایک بارپھر ثابت کر دیا کہ پاکستان میں بسنے والے اس ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے خواہاں ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلامی نظام کی مخالفت کرنے والے ہمارے تجزیہ نگاروںاور میڈیا پر کنٹرول کرنے والے سیکولر اور لبرل طبقہ کا تعلق اُس دو فیصد طبقہ سے ہے جس نے میڈیا کے ذریعے پاکستان کو اس کی اسلامی اساس سے جدا کر کے سیکولر اسٹیٹ بنانے کا ذمہ اپنے سر لیا ہوا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو جان بوجھ کر اسلام کی بات کرنے والوں کو میڈیا میں نہ صرف ٹارگٹ کرتا ہے بلکہ پوری کوشش کرتا ہے کہ ایسی آوازوں کو مکمل طور پر دبا دیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی مجھے بتائے کہ پیو کے اس سروے کاہمارے ٹی وی چینلز نے کیوں بلیک آئوٹ کیا؟ پاکستان کے اسلامی نظریہ کو کچلنے کا کوئی موقع ہویابے شرمی بے حیائی اور مغرب کی گندگی کو پھیلانے کا ذریعے، اس پر تو ایک دوسرے پر مقابلہ لینے کی دوڑ میں سب برابر ہوتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کو بٹھا کر بار بار پوچھا جاتا ہے کہ ریاست اور اسلام کو جدا کیوں نہ کیا جائے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سیکولرازم اور لبرل ازم کے علاوہ پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں۔ جو کوئی بے شرمی، بے حیائی کے خلاف بات کرے اُسے دقیانوسی اور شدت پسندی سے جوڑا جاتا ہے۔ ٹی وی چینلز کو دیکھیں تو جو دکھایا جاتا ہے اور جو سنوایا جاتا ہے اُس کے مطابق تو پاکستان کو ایک مغربی طرز کی ریاست ہونا چاہیے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہو اور جہاں ہر کسی کو سب کچھ کرنے کی آزادی ہو۔ اس مائنڈ سیٹ کا میڈیا پیو کے اس سروے کو کیوں چلائے گا؟ کس منہ سے بے ہودہ فیشن شوز، فحش اشتہارات و ڈرامے دیکھانے والے یہ خبر چلا سکتے ہیں کہ پاکستان کی ایک بہت بڑی اکثریت اسلامی قوانین کا مکمل اطلاق چاہتے ہیں۔ لیکن دو فیصد والوں نے 98 فیصد کی سوچ کو میڈیا کے ذریعے دبا دیا۔ دو فیصد والوں کی آواز کو اتنا نمایاں کر دیا گیاکہ ہمارے وزیر اعظم صاحب تک سمجھ بیٹھے کہ پاکستانی عوام اسلامی نظام کہ نہیں بلکہ لبرل ازم کے حامی ہیں۔ اس سروے کی رپورٹ کسی ایک آدھ اخبار میں ہی پڑھنے کو ملی۔ میں نے اس رپورٹ کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا اور کوشش کی کہ میڈیا کو کنٹرول کرنے والے لبرل چیمپئینز کو شرم دلوائوں کہ کم از کم اس سروے کی خبر ٹی وی چینلز پر چلا دیں لیکن ایسا نہ ہوا۔ صحافتی اقدار کے لحاظ سے بھی اس خبر کو ٹی وی چینلز کو چلانا چاہیے تھا لیکن ایسے معاملات میں صحافتی اصول بھی بھولا دیئے جاتے ہیں۔ اپریل 2013 میں بھی پیو ریسرچ سینٹر نے ایک سروے جاری کیا تھا جس کے مطابق 84 فیصد پاکستانی ملک میں شرعی قوانین کے نفاذ کے حامی ہیں۔ اُس وقت بھی اس سروے رپورٹ کو عمومی طور پر ہمارا میڈیا پی گیا تھا۔ جنوری 2014 میں پیو ریسرچ سینٹر کے ایک اور سروے کے مطابق پاکستان کی صرف دو فیصد خواتین گھر سے باہر نکلتے وقت بغیر سر پر ڈوپٹہ لینے کو مناسب سمجھتی ہیں۔ 98 فیصد پاکستانی خواتین گھر سے نکلتے وقت کسی نہ کسی حد تک پردہ کا خیال رکھنا چاہتی ہیں۔ سروے کے مطابق ان میں تین فیصد خواتین افغان برقعہ پہن کر باہر نکلنا چاہتی ہیں، 32 فیصد وہ برقعہ پہننا چاہتی ہیںجس میں صرف آنکھیں نظر آتی ہیں، 31 فیصد وہ برقعہ پہننا چاہتی ہیں جس میں صرف چہرہ نظر آئے، 24 فیصد سر پر اسکارف پہن کر گھر سے باہر نکلنا چاہتی ہیں جبکہ آٹھ فیصد خواتین سر پر ڈوپٹہ اوڑھ کر باہر نکلنا چاہتی ہیں۔ یہ سروے بھی ہمارے ٹی وی چینلز کے بڑوں کو ناساز گزرا اس لیے اس رپورٹ کو بھی عمومی طور پر بلیک آئوٹ کیا گیاتھا۔ ان دیسی لبرلز کی یہ ناسازی اور ناگواری تو ضروری تھی کیوں کہ ٹی وی چینلز کی تو کوشش ہے کہ پردہ چاہے برقعہ، چادر، ڈوپٹہ کی صورت میں ہو اُسے ختم کیا جائے اور روشن خیالی، ترقی اور حقوق نسواں کے نام پر عورت کو بے لباس کیا جائے۔
تازہ ترین