دنیا اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آگئی

October 24, 2021

تحریر: قاری عبدالرشید۔۔۔اولڈھم
چار سو کفر و شرک کا اندھیرا چھایا ہوا تھا، ظلم و جبر نے اپنے منحوس پنجے معاشرے میں گاڑ رکھے تھے، خاندان اور پورا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، انسانیت زوال اور انحطاط کی طرف سرک رہی تھی، ماں، بہن اور بیٹی کے رشتوں کو پامال کیا جا رہا تھا، بیت اللہ میں 360 بت رکھ کر اپنی بگڑی کو سنوارنے کیلئے قدم بوسی کی جاتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ضلالت و گمراہی میں بھٹکے ہوئوں کیلئے ہدایت کی منور راہیں کھولنے کا فیصلہ کیا اور ربیع الاوّل ماہ مبارک میں اپنی رحمتوں کی لامتناہی وسعتوں کیساتھ اپنے پیارے محبوبﷺ کو دنیا میں بھیجا پھر انسانی تہذیب کے قرینے تبدیل ہو گئے، گھپ اندھیروں کے بطن سے روشنی نے اڑان بھری اور آناً فاناً پورے عالم میں نورہدایت جگمگانے لگا، شکستہ حال اور لاچار لوگوں کو سہارا ملا ،یتیموں کا اکیلا پن ختم ہوا، وہ پیارا نام محمدﷺ جس کی برکتیں لامتناہی جس کے ذکر کی رفعتیں بے کنار ہیں ،بے حد و بےانتہا درود و سلام ہوں اس مکرم و محترم ہھستی پر جس کا امتی ہونا ہمارے لئے خوش قسمتی کی نشانی ہے، یہی ہمارا توشہ آخرت ہے یہی ہمارے پاس جنت کی کلید ہے۔آپﷺ کی ولادت با سعادت کی تاریخ ۔8 ہو یا 9، ہو کہ 12 ربیع الاوّل کا دن اپنے اندر محبت، شفقت ،رحم دلی اور اخوت کا ایسا جذبہ لے کر آتا ہے کہ بغض عداوت، شکوک و شبہات اور واہموں کے سارے بادل آنکھ جھپکتے ہی چھڑ جاتے ہیں،رسولﷺکے اسوۂ حسنہ اور آپ ﷺکی تعلیمات پر عمل کرنے سے جھونپڑیوں میں رہنے والوں نے نصف دنیا پر حکومت کی، رسولﷺکی آمد سے کفر والحاد کے شبستانوں میں زلزلہ بپا ہوا، قیصر و کسریٰ کے محلات لرز اٹھے، اندھیری راتوں کے ٹکڑوں کی طرح چھائے سیاہ فتنے زائل ہو گئے، رحمت دوعالمﷺ کی آمد سے پوری فضا اس قدر معطر ہوئی کہ عرب و عجم جگمگا اٹھا۔ کسی شاعر نے اسے یوں بیان کیا ہے۔
حضورﷺ آئے تو سر آفرینش پا گئی دنیا
اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آگئی دنیا
بجھے چہروں کا زنگ اترا ستے چہروں پہ نورآیا
حضورﷺ آئے تو انسانوں کو جینے کا شعور آیا
وہ شعور جو حضور ﷺ نےتقسیم کیا،صحابہ کرامؓ نے وصول کیا تعلیمات محمدیہ ﷺکو اپنایا اپنی زندگیوں کو تبدیل کیااور حقیقت میں کام کے مسلمان بن کر رسول ﷺ کی نبوت و رسالت کے پیغام کو چہار دانگ عالم میں پہنچا گئے،آج جب ہم اپنی حالت کو دیکھتے ہیں تو تعداد میں بھی زیادہ ،وسائل بھی اعلیٰ مال و دولت کی بھی کوئی کمی نہیں،دنیا کے نقشے پر درجنوں اسلامی ممالک بھی موجود ، لیکن اسلام کے ماننے والے مسلمانوں کی عزت و عظمت اقوام عالم میں کیا ہے،یہ ہر کوئی جانتا ہے،دن بدن ہماری عظمت رفتہ کا ایسا حال کیوں ہے،اس کی کئی وجوہات ہیں،اگر ہم غور کریں تو ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امت نے تعلیمات اسلام اور اسوۂ رسولﷺکو اپنی زندگیوں میں اپنانے کی بجائے محض منانے تک محدود کر رکھا ہے،اعلان نبوت سے پہلے آپﷺ کیا کام کرتے تھے،پہلی وحی کے بعد غار حرا سے جب گھر تشریف لائے تو ام المومنین سیدہ خدیجہؓ نے آپﷺ کو تسلی دے کر حضور ﷺ کی جن اوصاف حمیدہ کو بیان فرمایا،ان پر غور تو کیا جائے،ان کو مجمع عام میں مسلمانوں کو سنایا تو جائے،غیر مسلم اقوام کو بتایا تو جائے کہ ہمارے آقاﷺ اعلان نبوت سے قبل مکہ کے لوگوں کے ساتھ کیسے پیش آتے تھے،کالم میں وہ حدیث نقل کی جارہی ہے تاکہ ہم سب پڑھیں اور اپنے پیارے نبیﷺکی ان اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں ، ہم کو یحییٰ بن بکیر نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ہم کو لیث نے خبر دی، لیث عقیل سے روایت کرتے ہیں۔ عقیل ابن شہاب سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا، آپﷺ خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا پھر من جانب قدرت آپﷺتنہائی پسند ہو گئے اور آپﷺ نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت اور یاد الٰہی و ذکر و فکر میں مشغول رہتے، جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لئے ہوئے وہاں رہتے توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے اور کچھ توشہ ہمراہ لے کر پھر وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے، یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپﷺپر حق منکشف ہو گیا اور آپﷺ غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے کہ اچانک جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمدﷺ! پڑھو، آپﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، آپﷺ فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے، پس یہی آیتیں آپﷺ جبرائیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپﷺکا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔ آپﷺخدیجہؓ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو۔ انہوں نے آپﷺ کو کمبل اوڑھا دیا۔ جب آپﷺ کا ڈر جاتا رہا تو آپﷺ نے اپنی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے، آپﷺ کی اہلیہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺکی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ اللہ کی قسم! آپﷺ کو اللہ کبھی نقصان نہیں پہنچنے دے گا،1۔آپﷺ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں 2۔آپ ﷺ تو کنبہ پرور ہیں،3۔ بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، 4۔مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں،5 مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں۔6۔اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ رکھنے والا کوئی نقصان نہیں پا سکتا ۔ پھر مزید تسلی کے لئےسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے، چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپﷺکے حالات بیان کئے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے (محمد ﷺ ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجیئے وہ بولے کہ بھتیجے آپﷺ نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کی تفصیل سناؤ۔ چنانچہ آپﷺ نے اول تا آخر پورا واقعہ سنایا جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس (معزز راز دان فرشتہ) ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش، میں آپﷺ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپﷺ کی قوم آپﷺ کو اس شہر سے نکال دے گی۔رسول ﷺ نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو مکہ سے نکال دیں گے (حالانکہ میں تو ان مکہ والوں میں صادق و امین و مقبول ہوں) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے مگر جو شخص بھی آپ ﷺکی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں، اگر مجھے آپﷺکی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپﷺ کی پوری پوری مدد کروں گا مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی تو یہ چھ اوصاف حسنہ ہیں، ہم مسلمان مجموعی طور پر دیکھیں اور غور کریں کہ ہمارےعمل میں ان چھ میں سے کتنے ہیں؟۔