صوبائی وزراء کے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں پر اپوزیشن کا واویلہ

November 11, 2021

جوں جوں عام انتخابات کے لئے وقت کم وہوتا جارہا ہے تو ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آتی جارہی ہے مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اجتماعات اور جلسے وجلسوں کا سلسلہ جاری ہے اس وقت صوبے میں حکمران جماعت تحریک انصاف ٗ عوامی نیشنل پارٹی ٗمسلم لیگ ( ن) ٗجماعت اسلامی ٗقومی وطن پارٹی ٗپیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کردی ہیں تاہم کافی عرصہ بعد خیبر پختونخوا میں پاکستان مسلم لیگ ( ن) ایک بار پھر منظم ہورہی ہے۔

بالخصوص پارٹی کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام کی طرف سے صوبے کے کونے کونے میں سیاسی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے مسلم لیگ ( ن) خیبر پختونخوا میں سیاسی طورپر اتنی مضبوط نہیں تاہم امیر مقام کو صوبائی صدر بنانے کے بعد ایسا نظر آرہا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن) کی سیاسی سرگرمیاں اسی طرح جاری رہیں اور دیگر جماعتوں سے شمولیتوں کا سلسلہ جاری رہا اور موزوں امیدواروں کو سامنے لایا گیا تو آنیوالے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ( ن ) سرپرائز دے سکتی ہے تاہم صوبائی قیادت کے ساتھ ساتھ مرکزی قیادت کوخیبر پختونخوا کی طرف بھرپور توجہ دینی ہوگی کیونکہ ماضی میں جب بھی مسلم لیگ ( ن ) مرکز میں برسراقتدار رہی تو خیبر پختونخوا وفاق کی بے خی کا شکار رہا اور مسلم لیگ ( ن ) کے برسراقتدار ٹولے نے اس وقت صرف چند لوگوں کی طرف توجہ دی حقیقی لیگی کارکنوں و رہنمائوں کو سائیڈ لائن کیا گیا۔

جس کی وجہ سے پارٹی میں مایوسی پھیلی جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا میں کمزور وکٹ پر چلی گئی اب ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی صدر امیر مقام کو ایسے لوگوں کو آگے لانا چاہیے جن کی جڑیں عوام میں ہوں اور وہ حقیقی معنوں میں عوامی لیڈر ہوں اس کے لئے مسلم لیگ ( ن) قیادت کو ہزارہ ڈویژن کی طرف بھی بھرپور توجہ دینی ہوگی کیونکہ ہزارہ مسلم لیگ ( ن) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن صوبے میں قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہزارہ میں بھی مسلم لیگ( ن ) کی وہ پوزیشن نہیں رہی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔

اس میں مرکزی و صوبائی قیادت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ( ن ) ہزارہ کے وہ قائدین بھی برابر کے شریک ہیں جو ماضی میں کئی بار اقتدار میں رہے لیکن پارٹی کو نہ صرف صوبے بلکہ ہزارہ میں منظم نہ کرسکے نچلی سطح پرمسلم لیگ ( ن )کے کارکن موجود ہیں لیکن ماضی کے حالات کی وجہ سے وہ کافی مایوس ہوکر کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں تاہم امیر مقام کو جب سے صوبائی صدر بنایا گیا ہے وہ پارٹی کو نچلی سطح پر منظم کرنے کیلئے دن رات کوشاں ہیں لیکن امیر مقام کو نئے لوگوں کو شامل کرنے سے پہلے سابق مسلم لیگی قائدین و کارکنوں کو منظم کرکے ان میں ایک نیا جذبہ وولولہ پیدا کرنا ہوگا اور ان کی مایوسی کا خاتمہ کرکے انہیں قیادت پر اعتماد بحال کروانے کے حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔

مسلم لیگ ( ن ) کے صوبے میں وزیر اعلی کے ساتھ گورنر بھی رہے لیکن انکی صوبے کے ساتھ ساتھ پارٹی اور کارکنوں کے حوالے سے کارکردگی کے حوالے سے کارکن نالاں ہیں اور وہ کارکنوں اور پارٹی کو منظم کرنے کے حوالے سے بنیادی کردا ر ادا نہیں کرسکے اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی صدر امیر مقام پارٹی کارکنوں کو منظم کرنے اور ناراض کارکنوں و عہدیداروں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے میں کس حدتک کامیاب ہوتے ہیں ۔

اگست 2019 میں بلدیاتی انتخابات کا دورانیہ پورا ہوا ہے لیکن دو سال گزرنے کے باوجود حکومت عوام کو بلدیاتی نظام کے تحت اپنے نمائندے منتخب کروانے کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے موجودہ حکومت ایک غیر مقبول بلدیاتی نظام لاکر خود بھی کنفیوژن کا شکار ہے اور عوام کو بھی پریشان کرنے کے چکر میں ہے حکمران جماعت کا نچلی سطح پر غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانے کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے۔

کیا جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانے میں حکومت اپنی شکست سے خوفزدہ ہے؟ موجودہ حکومت خود بلدیاتی انتخابات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔مسلط حکمرانوں کے پاس کوئی عوامی مینڈیٹ نہیں اور عوام کو مقامی سطح پر اپنے نمائندوں کے انتخاب میں تاخیری حربوں کا استعمال حکمران جماعت کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے حکومت کی جانب سے سرکاری وسائل اور اختیار کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے خلاف ہر فورم پر ڈٹ کر مخالفت کی جائیگی۔

پوزیشن جماعتوں نے بلدیاتی الیکشن کے شیڈول کے اعلان کے بعد بھی خیبر پختونخوا میں وزیر اعلی اور صوبائی وزراء کے جلسوں اور ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کو الیکشن قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن کو فوری طور پر نوٹس لیکر الیکشن قوانین کی دھجیاں بکھیرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

جماعت اسلامی نے دیگر سیاسی جماعتوں پر سبقت لیکر تحصیل امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے بھی مرحلہ وار تحصیل امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیاگیاجبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی تحصیل امیدواروں کے ناموں کو فائنل کردیا گیا ہے۔

اس حوالے سے سیاسی جماعتوں میں تحصیل ناظم کے انتخابات کے حوالے سے گٹھ جوڑ کیلئے بھی رابطے شروع ہوگئے ہیں پی ڈی ایم نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے اور ریلیاں نکالی گئیں اور پی ڈی ایم کی قیادت کی طرف سے چاروں صوبوں میں مہنگائی مارچ کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جبکہ چاروں صوبوں میں مہنگائی مارچ کے بعد اسلام آباد لانگ مارچ کا فیصلہ کیا جائیگا۔