پہلی پرفارمنس کبھی فراموش نہیں کرسکتا

November 16, 2021

وہی فن کار شوبزنس میں طویل فنی سفر کام یابی سے طے کرتے ہیں، جنہیں اپنے کام سے عشق ہوتا ہے۔ میٹھی اور سُریلی آواز سماعتوںمیں رس گھولتی ہے۔ بہت کم گلوکار ایسے ہیں، جنہوںنے ہر قسم کی گائیکی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہو۔ سدا بہار اور منجھے ہوئے گلوکار، سجاد علی کو کون نہیں جانتا۔ وہ، پاکستانی موسیقی کے نہایت مقبول گائیک ہیں۔ قدرت نے انہیں خُوب صورت رسیلی، جادو بھری آواز سے مالا مال کیا ہے۔ وہ گزشتہ 40برس سے شعبہ موسیقی کی مختلف اصناف میں نام پیدا کررہے ہیں۔

سجاد علی نے کم عمر ہی سے گانا شروع کردیا تھا۔ اب تک ان کے درجنوں آڈیو البم ریلیز ہوکر مقبولیت کی سند حاصل کرچکے ہیں۔ ان کا پہلا البم 1979میں ریلیز ہوا ۔ بعدازاں ان کے کئی آڈیو البم ریلیز ہوئے اور بہت مقبول ہوئے۔ جن میں گولڈز ازناٹ اولڈز، بے بیا، چیف صاحب، موڈی، ایک اور لواسٹوی، سوہنی لگدی، سنڈریلا، تیری یاد، کوئی تو بات ہے، رنگین اور بارش وغیرہ شامل ہیں۔ سجاد علی کو ٹیلی ویژن کے مشہور پروگرام ’’ سلور جوبلی‘‘ سے ملک گیر شہرت حاصل ہوئی ۔

انہوںنے نہ صرف موسیقی کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا بلکہ بہ حیثیت ہدایت کار، پروڈیوسر اور نغمہ نگاربھی اپنے جوہر دکھائے۔ انہوںنے چار فلموںمیں موسیقی بھی دی ، جن میں ایک اور لواسٹوری، لولیٹر، مجھے چا ند چاہیے اور جیو اور شعیب منصور کی سپرہٹ فلم ’’بول‘‘ شامل ہیں، جب کہ دو فلموںکی ڈائریکشن بھی دی۔ دو تین فلموں میں بہ حیثیت اداکار سامنے آئے۔ ’’ایک لواسٹوری‘‘ میں انہیں ہیرو کے روپ میں بے حد پسند کیا گیا۔ ان کے گائےہوئے گیت، ہر ظلم تیرا یاد ہے، اور بارش نے زبردست مقبولیت حاصل کی، بارش کی وڈیو میں اداکارہ ریما نے طویل عرصے بعد کام کیا۔

سجاد علی کا تعلق فن کار گھرانے سے ہے۔ والدہ ریڈیو پاکستان سے منسلک رہیں، جب کہ ان کے والد ساجن، اداکار اور کرکٹر رہے۔ ان کے دو بھائی وقار علی اور لکی علی موسیقی کی دنیا میں اپنی منفرد پہنچان رکھتے ہیں۔ سجاد علی گزشتہ چھ سات برس سے دبئی میں رہائش پذیر ہیں۔ تاہم وہ شوز اور کنسرٹ کے لیے پاکستان آتے جاتےہیں۔ اب ان کا وقت لاہور میں زیادہ گزرتا ہے، گزشتہ دنوںوہ پاکستان آئے تو ہم نے ان سے مختصر بات چیت کی، جس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔

اپنی صاحبزادی کے ہمراہ گیت پیش کرتے ہوئے

س: گائیکی کا سفر کب شروع کیا؟

ج: میں نے چھ سات برس کی عمر سے گانا شروع کیا۔ تایا نے مجھے پہلی بار گانے کے لیے کہا تھا، اس وقت میری پرفارمنس کے بعد انہوںنے کہا تھا کہ یہ لڑکا موسیقی کی دنیا میں بہت آگے تک جائے گا، پھر وقت نے اسے سچ کر دکھایا۔

س: گائیکی کے شعبے میںملک گیر پہچان کب ملی؟

ج: پاکستان ٹیلی ویژن کا مشہور پروگرام ’’ سلور جوبلی‘‘ میں میری پرفارمنس کا دن مجھے تاحیات یاد رہے گا۔ 26 نومبر 1983 کی بات ہے۔ میںنے دو گیت ’’لاگی رے لگن یہ دل میں‘‘ اور بانوری چکوری کرے دُنیا سے چوری‘‘ گائے تو ملک بھر میںان گیتوں کے چرچے ہونے لگے۔ اس کے بعد میں نے میلوڈی سونگ گائے، لیکن مجھے پاپ گانوںکا بہت شوق تھا۔ 1993 میں’’ بے بیا‘‘ البم ریلیز ریلیز کیا۔

درحقیقت بات یہ ہے کہ میںموسیقی کو الگ الگ خانوںمیں تقسیم کرنے کے حق میں نہیںہوں۔ میںپاکستان کا شاید یہ پہلا گائیک ہوںجو کلاسیکل سے پاپ گائیکی کی جانب جانب آیا۔ ابتداء میںمجھ پر سنجیدہ گائیک کی چھاپ لگادی گئی تھی۔

اس کے باوجود بھی میں نے ہر طرحکے گانے گائے اور بچے بوڑھے، جو ان سب کے لیے کچھ نیا کام کرتا رہا۔ اس سے قبل بھی میرے پاپ موسیقی پرمشتمل البم ریلیز ہوچکے تھے، لیکن ’’بے بیا‘‘ سب سے زیادہ مقبول ہوا۔ مجھے میوزک کمپنی والے اکثر کہتے تھے کہ آپ صرف میلوڈی اور فلمی گیت گاتے رہیں۔ پاپ موسیقی کی طرف نہ آئیں، مجھے ان کی یہ بات بری لگتی تھی۔ میرے خیال میں اوریجنل گانے والا ہر طرح کے گیت، غزل، کلاسیکل اور نیم کلاسیکل گائیکی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔

س: آپ موسیقار ،نغمہ نگار اور گائیک ہیں، نئے گانے ترتیب دیتے وقت کن باتوںکو سامنے رکھتے ہیں؟

ج: مجھے ابتداء اس سے کچھ نیا کام کرنے کی عادت ہے۔ روٹین کام نہیںکرنا چاہتا۔ ’’لاری اڈا‘‘ جیسا گانا اب مجھ سے نہیں گایاجاتا۔ اب میرے گانوںمیں ایک خاص مقصد ہوتا ہے۔ میں اپنے سننے والوں کے لیے موضوع تلاش کرتا رہتا ہوں۔ موسیقی اور آرٹ کا مقصد لوگوںکو شعور دینا اور معاشرتی ناہمواریوں کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔

میوزک کے حوالےسے میں آج کل کی دوڑ میں شامل ہونا نہیں چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے گانے وقفے وقفے سے ریلیز ہوتےہیں۔ اپنے گانوںکو نیارنگ اور دل کش بنانے کے لیے ریسرچ اور مطالعہ کرتا ہوں۔ گھر میں ایک کتب لائبریری بنائی ہوئی ہے۔ جس میں مختلف موضوعات پر سیکڑوں کتابیں موجود ہیں۔ موسیقی میرا کام ہے‘ لیکن میں زیادہ تر مذہبی کتابیں پڑھتا ہوں۔ تاریخاسلام میرا پسندیدہ مضمون ہے۔ تاریخ اسلام‘ جو مسلمانوں کے روشن اور قابل فخر کارناموں سے بھری پڑی ہے۔

س: دبئی میںکیسی زندگی گزررہی ہے، کراچی اور لاہور یاد آتاہے؟

ج: میںنے دبئی میں رہنے کا فیصلہ کراچی کے امن وامان کی صورت حال کی وجہ سے نہیںکیا تھا، بلکہ اپنے بچوںکے مستقبل کی خاطر کیا، یوںاپنے پیاروں اور چاہنےوالوںکو چھوڑ کر دیار غیر گیا۔ میری خواہش ہے کہ میرے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے پاکستان کا نام روشن کریں۔ میری دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ دبئی میں پرسکون زندگی گزار رہا ہوں۔ کراچی اور لاہور کے دوستوںکو بہت یاد کرتا ہوں۔

لیکن اکثر وبیشتر تو ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، کیوں کہ شوز کے سلسلے میں کبھی کراچی، کبھی لاہور اور اسلام آباد جاتا رہتا ہوں۔ دنیا بھر میں پاکستان ہی میری پہچان ہے۔ موسیقی میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اس سے رشتہ کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔ دبئی میں مقیم بھارت اور پاکستان کے نوجوانوںکو موسیقی کی تربیت دیتا رہا ہوں۔ میری اکیڈمی کا رسپانس اچھا ملا۔ میرے کئی شاگرد موسیقی میں نام پیدا کررہے ہیں۔ موسیقی ایک ہنر ہے، علم ہے اور اسے سیکھے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ علاوہ ازیں امریکا کی مختلف ریاستوں میں بھی شوز کے لیے جاتا ہوں۔ جہاں بڑے پیمانے پر منعقدہ کنسرٹ میں پرفارم کرتا ہوںبرطانیہ اور لندن وغیرہ بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔

س: بھارت جاکر ایک گانے کا وڈیو بنایا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ کوئی وڈیو وہاں نہیں بنایا؟

ج: میوزک کے بارے میں میری سوچ بہت آگے تک کام کرتی ہے۔ میںنے بہت پہلے اندازہ کر لیا تھا۔ میوزک کس طرف جارہا ہے۔ میں اس زمانے میں بھارت میں اپنے مقبول گیت ’’ سوہنی لگدی‘‘ کا وڈیو بناکر آیا تھا،جب دونوںممالک کی سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے۔

اب تو حالات بہت بدل گئے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ بھارت جاکر گانے کا وڈیو بنانا میری غلطی تھی۔ اس لیے دوبارہ اس کام کے لیے وہاںنہیں گیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ بھارت کے پاس اچھا پاپ میوزک نہیں ہے۔ وہ صرف فلمی موسیقی پر چل رہے ہیں۔

س: فلم بنانے کا خیال کیوں ذہن میں آیا؟

ج: میںفلم کے ذریعے گانوں کے وڈیو بنانے کا تجربہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لہذا میں نے بہ حیثیت پروڈیوسر اور ڈائریکٹر’’ ایک اور لواسٹوری‘‘ فلم بنائی، جس کی کاسٹ میںمیرے علاوہ اداکارہ نرما، سائرہ، سلیم شیخ اور بہروز سبزواری شامل تھے۔ میرے تین گانوںکے علاوہ شہزاد رائے کا گیت ’’ تیرا کنگنا جب‘‘ بھی شامل تھے۔

فلم کے حوالے سے میرا تجربہ بہت کام یاب ثابت ہوا۔ لوگوںنے سنیما گھروںکی طرف رخ کیا۔ یہ فلم 1998 میں ریلیز کی گئی، جس کی کام یابی نے ثابت کیا کہ اگر موسیقی کو سامنے رکھتے ہوئے فلم بنائی جائے تو لوگ سنیما گھروںکا رُخکریں گے۔ اب تو نئے اور جدید سنیما گھر بن گئے ہیں۔ اچھی اور معیاری فلم بنائی جائیں تو ضرور کام یاب ہوں گی۔ جیسے شعیب منصور نے ’’خدا کے لیے‘‘ اور ’’بول‘‘ بنائی تھی۔ فلموں میں عمدہ موسیقی کی اشد ضرورت ہے۔ میری اصل شناخت موسیقی ہے۔ میری ساری توجہ اس پر ہی رہتی ہے۔ میں نے پرستاروں کی محبت میں اداکاری شروع کی تھی۔

س: پاکستان میں اب میوزیکل کنسرٹ بہت کم ہونے لگے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟

ج: ایک زمانہ تھا’ جب کراچی میںبہ یک وقت کئی میوزیکل پروگرام ہوتے تھے۔ ایک فن کار کئی شوز میں پرفارم کرتا تھا۔ اب کمرشل پروگرام تو بالکل بند ہوگئے ہیں۔ کوئی ایک دو بڑے کمرشل پروگرام ہوجاتے ہیں ۔ ملک کی امن وامان کی صورت حال بہتر ہوئی تو کورونا نے سب کچھ روک دیا۔

س: آپ کے پسندیدہ گلوکار کون سے ہیں؟

ج: میںتمام سُریلے گلوکاروں کو پُوری دل چسپی سے سُنتا ہوںاور ان کے کام کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ مہدی حسن، ملکہ ترنم نور جہاں اور بڑے غلام علی کے گائے ہوئے گیت اور غزلیں شوق سے سنتا ہوں۔ کسی ایک پسندیدہ گلوکار کانام لینا مشکل ہے۔

س: دنیا بھر میں شہرت حاصل کی، کیسا لگتا ہے یہ سب کچھ؟

ج: مجھے تو کم عمر میں ہی میںبے پناہ شہرت مل گئی تھی۔ میںجہاں جاتا تھا تو سب پیارے سے ملتے تھے، میں نے کبھی خود پر شہرت کا نشہ غالب نہیںہونے دیا۔ یہ سُریلی آواز اور لوگوںکی محبتیں، سب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں۔

س: موسیقی کے علاوہ کیا مشاغل ہیں؟

ج: جیسا کہ میرے والد کرکٹر تھے۔ ان کی وجہ سے مجھے بھی کرکٹ کا بے حد شوق ہے۔ ٹیلی ویژن پر پاکستان کے میچز شوق سے دیکھتا ہوں اور بہت لطف اندوز ہوتا ہوں۔ پاکستان کی ٹیم اب بہتر ہوگئی ہے۔

س: ہمارے پاکستانی معاشرے میں فن کاروں کی کتنی قدر کی جاتی ہے؟

ج: بہت زیادہ قدر کی جاتی ہے، اب وقت بدل گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں کی لڑکیاں اور لڑکے شوبزنس کی طرف آرہے ہیں۔ ایک زمانا میں جب ہم کہیں جاتے تھے، تو ہم سے سوال کرتے تھے کہ آپ کیا کام کرتے ہیں، جواب میںہم کہتے تھے ، گانے گاتے ہیں۔

ان کا پھر یہی سوال ہوتا تھا کہ گانے گاتے ہو۔ مگر کام کیا کرتے ہو۔ جواب میںہم خاموش ہوجاتے۔ میری بیٹی نے کوک اسٹوڈیو کے گایا، اس کی آواز کو بے حد سراہا گیا۔