’’یہ بند کر دو، وہ بند کر دو اور لازمی نالازمی‘‘

December 03, 2021

گزشتہ بدھ کی شام وقت کی کمی کے سبب’’ رپورٹ کارڈ‘‘ کا ایک سوال ڈراپ ہو گیا لیکن مجھے مسلسل ہانٹ کر رہا ہے ۔ اس سوال کا تعلق سندھ بار کونسل کے سیکرٹری پر قاتلانہ حملہ اور ڈی سی ، اے سی کو سزا دینے پر وکلاء کے سیشن جج پر تشدد وغیرہ اور لاء اینڈ آرڈر کی بگڑتی عمومی صورتحال سے تھا۔ سوال بہت اہم تھا لیکن آج جمعرات کی صبح تک میں یہی سوچ رہا ہوں کہ یہ سب کچھ تو ہمارے ہاں معمولات میں شامل ہے ۔ برسوں پہلے منوبھائی نے اپنی ایک انتہائی خوبصورت پنجابی نظم میں کہا تھا کہ اس معاشرے میں میٹھے سے مٹھاس اور کھٹے سے کھٹاس رخصت ہو چکی ہے اور ’’سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں ہے ‘‘ والی صورتحال ہے۔ یہ پورا نظام کسی زخمی، نڈھال، کانپتی، لرزتی ڈاچی کی مانند ہے جو قدم کہیں رکھتی ہے اور پڑتا کہیں ہے ۔ خدا جانے کب کون سا تنکا اس اونٹنی کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو۔

’’نے باگ ہاتھ میں ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ کس پہاڑی سلسلہ کی ڈھلان پر چلتی گاڑی کی بریکیں فیل ہو جائیں تو گاڑی اور اس کی سواریوں کے انجام بارے اندازہ لگانے کیلئے جینئس ہونا ضروری نہیں، کامن سینس ہی کافی ہے۔ اگر میں یہ عرض کروں کہ اس معاشرہ میں ہر باڑھ اپنے اپنے کھیت کو کھا رہی ہے اور ہر چوکیدار اپنے ہی گھر میں نقب لگا چکا ہے یا لگا رہا ہے تو کیا یہ غلط ہو گا؟ہم کر کیا رہے ہیں ؟ کیا کسی کے قول اور فعل میں کوئی اثر تاثیر باقی رہ گئی ہے ؟ کس کی ساکھ اور کریڈیبلیٹی میں بدبو دار چھید نہیں ہیں ؟ جب سے ہوش سنبھالا اپنی مسجدوں میں کشمیر تا فلسطین کی آزادی اور اپنے ملک کی مضبوطی اور خوشحالی کی دعائیں سن رہا ہوں جنہیں شرف قبولیت تو کیا عطا ہونا تھا، صورتحال بد سے بدتر اور بدترین ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ آپ مایوسی پھیلا رہے ہیں تو یہ جواب اس سے بھی کئی گنا آسان ہے کہ مرے حضور! جھوٹ پھیلانے سے تو مایوسی پھیلانا بہرحال بہتر ہے ۔یہ کہنا کہ ’’مایوسی گناہ ہے ‘‘ تو ذرا باریک بینی سے غور فرمائیں تو معلوم ہو گا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا حکم ہے اور اللہ کی رحمت کچھ فرائض اور ذمہ داریوں کے ساتھ مشروط ہے بصورت دیگر غزوہ احد میں نافرمانی کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ۔

جسے دیکھو ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں مار مار کر ہلکان ہو رہا ہے لیکن حاصل وصول صفر بھی نہیں کیونکہ صفر کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ وعظ، بھاشن، پندونصائح، ہدایات وفرمودات، تجزیوں، تبصروں، تبلیغ کا سیلاب ہے لیکن خستگی اور سڑاند کا گراف بلند سے بلند تر۔نہ نگہہ بلند، نہ سخن دلنواز نہ جاں پر سوز کیونکہ اقبال کے مزار پر پھولوں کی چادریں چڑھانا اور سلامیاں دینا کافی ہوتا تو اب تک کچھ نہ کچھ تو ہوا ہوتا ۔ہمارے سیاست دان، صحافی، دانشور، علماء فضلا، وکلاء سبھی لیڈرز اور کریم آف دی سوسائٹی ہیں تو واقعی ہیں یا ہم ایک ہی وقت میں مختلف سرابوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔میں ہر روز کالموں کا ’’کوہ گراں‘‘ سر کرتا ہوں جن میں سے کچھ قابل ذکر بھی ہوتے ہیں لیکن نتیجہ ؟

اسی طرح سیاست دانوں کی تقریروں اور بیانوں کو دیکھ لیں وہی جگتیں، جملے بازیاں، پوائنٹ سکورنگ، بلیم گیم، اپنے اپنے لیڈروں کی چاپلوسی، چمچہ گیری، اینگلنگ، جھوٹ، کھوکھلا پن، سطحیت اور روحانی رہنمائوں نے تو دنیا ہی الٹ دی ہے ۔ایسے ایسے نان ایشور کو ایشوز بنا دیا جن کا حقیقی پیغام سے دور پار کا بھی کوئی رشتہ نہیں ’’ یہ بند کردو، وہ بند کر دو ‘‘ ...’’یہ پابندی لگا دو، وہ پابندی لگا دو، ’’یہ لازمی کر دو وہ لازمی قرار دے دو‘‘ حالانکہ پوری دنیا سامنے پڑی ہے کہ کن چیزوں کی موجودگی یا غیر موجودگی میں قومیں معزز اور مضبوط ہوتی ہیں اور کن کی پرکاہ جتنی اہمیت بھی نہیں لیکن بے رحم زمینی حقائق سے آنکھیں چراتے ہوئے منافقت پر مصر ہیں کہ جہالت کی منڈی میں یہی سکہ رائج الوقت ہے ۔’’بند کرنا کھولنا‘‘، ’’لازمی نہ لازمی‘‘ قیادت نہیں مداری پن ہے ۔ اصل چیلنج کی طرف آتے نہیں کہ ان کے بس کی بات ہی نہیں ۔ اسلامی گورننس کے دو بنیادی اہداف ہوتے ہیں یعنی مسلمان معاشرہ میں طاقت اور دولت یوں منصفانہ انداز میں گردش کرے جیسے ایک صحت مند انسانی جسم میں خون سر تا پا منصفانہ طور پر گردش کرتا ہے ۔ یہ ہے وہ چیلنج، وہ حکمت عملی جو قیصروکسریٰ پر حاوی کرتی ہے ورنہ لباس کی کانٹ چھانٹ تو درزیوں کا کام ہے ۔ حلال و حرام کو بھی ایسا چکر دیا کہ اصل حرام وحلال کی تمیز ہی مٹ گئی ۔ساری زندگی ’’کیا کھاتا پیتا یا پہنتا ہے‘‘ تک سکڑ کر رہ گئی اور نتیجہ یہ کہ 22-24کروڑ انسانوں کا ملک IMFنامی ایک سنڈی کے سامنے دم سادھے سہما سکڑا پڑا ہے اور اس صورتحال میں بھی ہم یہ سمجھنے سوچنے سے قاصر ہیں کہ سوچ اپروچ میں بنیادی ترین تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔اپنے اعمال و اقوال و افعال دیکھتا ہوں تو تاتاریوں کے حملہ سے پہلے کا ’’نیویارک‘‘ یعنی بغداد یاد آتا ہے جس کے دجلہ کا پانی کبھی خون سے سرخ اور کبھی راکھ سے سیاہ ہوا ۔ راوی تو شکر ہے پہلے ہی سوکھ چکا اس لئے اس کے پانیوں کی سرخی اور سیاہی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن یہ بات طے کہ اگر مزید وقت یونہی برباد کیا گیا تو زوال و انحطاط کا یہ سفر ریورس کرنا بھی ممکن نہ ہو گا۔

اور اب آخر پہ یہ خبر

’’ہارورڈ(نیٹ نیوز) یہ پودا ہے نہ جانور نہ انسان بلکہ ایک زندہ روبوٹ ہے جو اب اپنی نسل بڑھا سکتا ہے جسے زینوبوٹ کا نام دیا گیا ہے۔اس کی تیاری میں پنجے والے افریقی مینڈک ( زیٹوپس لیوس) کے خلیات کو بطور خام مال استعمال کیا گیا ہے۔زینوبوٹ کی چوڑائی ایک ملی میٹر سے تھوڑی کم ہے‘‘۔

اور یہاں پہلا میڈیکل کالج اور پرنٹنگ پریس بند کرانے کے بعد بھی قرار نہیں آیا ....’’یہ بند کر دو، وہ بند کر دو‘‘ سے لیکر ’’لازمی نالازمی تک‘‘ اک طلسم ہوشربا ہے جو ہوش میں آنے ہی نہیں دے رہا۔ہم ریلیکسڈ نہیں، ٹینس ترین ہجوم ہیں جس میں سانپ سرسرا رہے ہیں، ہم نارمل نہیں ابنارمل معاشرہ ہیں جس کے مستقبل کے آگے سوالیہ نشان آبادی کی طرح بڑھتے جا رہے ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس اپس رائے دیں 00923004647998 )