خون بھی انصاف مانگتا ہے

December 03, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

پچھلے کالم پر مجھے اہالیانِ سری نگر کی جانب سے کچھ محبت نامے موصول ہوئے۔ اس پر میں ان کا تہہِ دل سے مشکور ہوں اور اب سلسلہ وہیں سے جوڑ رہا ہوں جہاں سے ٹوٹا تھا۔

18اکتوبر 1947کو شیخ عبداللہ نے آل انڈیا اسٹیٹ پیپلز کانفرنس دہلی میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد الحاقِ ہندوستان کی راہ ہموار کرنا تھا۔ 20اکتوبر 1947کو کشمیری رہنمائوں کے ایک وفد نے پاکستان میں خاص طور پر خیبر پختونخوا کے رہنمائوں سے ملاقات کرکے ڈوگرہ اور ہندوستانی مظالم سے نجات حاصل کرنے کے لیے مدد مانگی۔ 21اور 22اکتوبر 1947کو ریاست جموں و کشمیر کے کئی علاقوں کو مجاہدین نے ڈوگرہ فوج سے آزاد کرا لیا۔ دومیل مظفر آباد میں تعینات ڈوگرہ فوج کے مسلمان افسروں نے بغاوت کرکے دریائے جہلم کے پل کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ 22اکتوبر کو مظفر آباد کے زعما کی درخواست پر خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات سے مجاہدین جدوجہد آزادی میں حصہ لینے کے لئے مظفر آباد میں داخل ہوئے۔ 24اکتوبر 1947کو آزاد کشمیر میں عارضی حکومت سردار محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں جنجال ہل پلندری میں قائم کردی گئی جس کا بنیادی مقصد ریاست جموں و کشمیر کے مقبوضہ حصے کو آزاد کروانا تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کے آزاد ہونے والے علاقوں کی آزادی میں جہاں قبائلی علاقہ جات سے آنے والے مجاہدین کا کردار ہے وہاں چند اور بڑے نامور کردار فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ غازی ملت سردار ابراہیم خان اور مجاہدِ اول سردار عبدالقیوم خان کی سیاسی و عسکری جدوجہد کے بغیر آزادی کا باب مکمل نہیں ہوتا۔ یہاں اگر کیپٹن حسین شہید کا تذکرہ نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی۔ اس مرد مجاہدنے اپنی پنشن اور تمام جمع پونجی آزادی کے راستے پر خرچ کردی۔ 42ہزار کا اسلحہ مسلمان مجاہدین کو دیا۔ شہید کیپٹننے وہ کردار ادا کیا جو بڑے بڑے نہ کر سکے۔ ہندوستان نے جب یہ دیکھا کہ ڈوگرہ فوج کوہر محاذ پر شکست ہو رہی ہے اور ڈوگرہ فوج پر مزید انحصار کیا گیا تو پوری ریاست جموں و کشمیر ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس لئے ہندوستان نے 27اکتوبر 1947کو دعویٰ کیا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیا ہے۔ اس جعلی معاہدے کی آڑ میں ہندوستان نے کشمیر میں اسی روز اپنی فوجیں اتار کر ریاست کے ایک حصے پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ یہ بات واضح رہے کہ ایسٹرلیمب اور کئی دوسرے مورخین نے ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی دستاویز کو جعلی قرار دیا ہے۔ جواہر لعل نہرو اس سازش میں پوری طرح شریک تھے۔

27اکتوبر 1947کو پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے جنرل گریسی کو حکم دیا کہ کشمیر میں فوجیں بھیجی جائیں لیکن اس نے انکار کردیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس سازش کے پس پردہ انگریز بھی تھے کیونکہ ابھی افواج کا کنٹرول انگریز کمانڈروں کے پاس تھا جنہوں نے ہندوستان کا جعلی معاہدہ تو مان لیا مگر قائد اعظم کی بات نہ مانی۔ یہ بڑے تلخ حقائق ہیں۔ جنرل گریسی کے جواب کے بعد قائد اعظم کیا کرتے؟ انہوں نے اسی دن وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کی قیادت میں کشمیر لبریشن کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی میں وزیر خزانہ غلام محمد، کرنل اکبر خان اور آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد ابراہیم خان شامل تھے۔اس مرحلے پر یکم نومبر کاتاریخی دن آگیا یکم نومبر 1947کو گلگت بلتستان کے شہریوں نے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کرلی مگر اس دوران جہاں زور چل سکتا تھا وہاںسازشی عناصر نے چلایا۔ اکتوبر کا پورا مہینہ اور نومبر کا پہلا ہفتہ کشمیری مسلمانوں پر بہت ظلم وستم ہوا۔ ڈوگرہ فوج، آر ایس ایس، اکالی دل اور ہندوستانی فوج نے جموں میں ڈھائی لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اس ظلم وستم کی وجہ سے ہزاروں خاندان سیالکوٹ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس طرح مسلم اکثریتی جموں کو مسلم اقلیتی جموں بنا دیاگیا۔

مکاری کی اگلی داستان بڑی عجیب ہے۔ یکم جنوری 1948کو ہندوستان نے اقوام متحدہ کا رخ کیا۔ سلامتی کونسل نے کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کا کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان بنایا۔ اقوام متحدہ نے ہندوستان کے الحاق کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کوتسلیم کیا۔ 5جنوری 1948کو دونوں ملکوں کی رضا مندی سے کمیشن نے قرار داد منظور کی، اس میں واضح طور پر کہاگیا کہ ...’’ ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کا فیصلہ غیر جانبدار اور منصفانہ رائے شماری کے جمہوری طریقہ کے مطابق کیا جائے گا...‘‘۔مکرو فریب میں پلے ہوئے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور دیگر ہندوستانی رہنمائوں نے اس مرحلے پر موقف اختیار کیا کہ ...’’ہندوستان کے ساتھ کشمیر کا الحاق مشروط اور عارضی ہے، کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری سے کیا جائے گا...‘‘۔

اقوام متحدہ کی قرارداد اور ہندوستانی قیادت کے موقف کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے لوگ ریفرنڈم کا انتظار کرنے لگے کہ کب رائے شماری ہو، اس مقصد کے لئے کشمیری عوام پُرامن آواز بلند کرتے رہے مگر ہندوستانی قیادت کے دل میں شروع ہی سے میل تھا ورنہ یہ کام تو موتی لعل نہرو کا بیٹا ہندوستانی وزیراعظم جواہر لعل نہرو بڑی آسانی سے کرسکتا تھا، واضح رہے کہ جواہر لعل نہروپندرہ برس تک ہندوستان کا وزیراعظم رہا، بعد میں اس کی بیٹی اندرا گاندھی اور نواسہ راجیو گاندھی بھی وزیراعظم رہے مگر ہندوستانی قیادت کشمیریوں کے سلسلے میں مخلص ہی نہیں تھی کہ بقول غالب؎

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

(جاری ہے)