سوال تو اچھے ہوتے ہیں

December 03, 2021

بڑے مولانا صاحب کی قیادت میں پی ڈی ایم ”پی پاں“ ہو گئی۔ بلاول بھٹو سندھ حکومت بچانے میں مصروف ہو گئے۔ تحریک انصاف نے لاہور کے ضمنی انتخاب کا میدان خالی چھوڑ دیا، مرشد کی کنڈلی میں 90لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ ایڈوانس میں بک ہو گئے اور عوام بےچارے سڑکوں پر خوار۔ ایسے میں زبان زدِ عام سوالات کی ایک بھیڑ ہے۔ ہر کوئی راہ چلتے پوچھتا ہے سر جی! اب کیا ہوگا؟ کون اس ملک کو بچائے، چلائے گا؟ کس طرح یہ مہنگائی ختم ہوگی؟ کیسے زندگی میں سکون آئے گا؟ پھر پوچھتے ہیں کہ یہ جو دھڑا دھڑ ڈھکے چھپے قرضے لیے جارہے ہیں، یہ کون چکائے گا؟ سوال کرتے ہیں آخر یہ اتنا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ کس منصوبے پر یہ بھاری رقوم خرچ ہو رہی ہیں؟ غریب کی حالت کیوں نہیں بدل رہی؟ ٹیکس پر ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ پٹرول، بجلی، گیس، پانی کی قیمتیں بےدریغ، بلاناغہ بڑھ رہی ہیں۔ حکومت نے برآمدات کے نئے ریکارڈ تو قائم کر دیے، کسان کی خوش حالی کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے پھر یہ خشک سالی کیوں؟ خوش حالی ہمارے دروازے پر کیوں نہیں آتی؟ بڑا معصومانہ سا ایک اور سوال پوچھتے ہیں کہ موٹرویز، قومی شاہراہوں پر جگہ جگہ ٹیکس وصول کرنے والے ٹول پلازے، جو روزانہ کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں، آخر یہ پیسہ کس کی جیب میں جارہا ہے؟ اتنی بڑی رقم سے تو روزانہ ایک نئی سڑک بنائی جا سکتی ہے۔ کوئی اس رقم کا حاصل وصول ہمارے سامنے بھی آنا چاہئے کہ عوام کی جیبوں پر نت نئے انداز میں ڈاکے پر ڈاکہ مارا جارہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں؟ کوئی تو جواب دے کہ یہ جو خزانے بھرنے کے دعوؤں کے باوجود ایک روپیہ بھی کسی ترقیاتی منصوبے پر خرچ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ایوانِ صدر، وزیراعظم ہاؤس سے وزارتوں تک کفایت شعاری سے جو رقم بچ رہی ہے، وہ کہاں استعمال کی جارہی ہے؟ نیب نے اگراربوں کھربوں روپے وصول کیے ہیں تو کہاں ہے یہ پیسہ؟ چیئرمین نیب کا صرف یہ کہہ دینا کہ حساب کتاب کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے، ہر چیز شفافیت سے چل رہی ہے اور کھربوں روپے کی ریکوری کے بارے میں یہ جواب دینا کہ نیب نے گوادر میں اربوں روپے کی زمین واگزار کرائی تو کیا ہم مطمئن ہو جائیں کہ جو کیش ریکوری کے دعوے کیے گئے تھے وہ خزانے گوادر میں دفن ہیں۔ لوگ اب ان حیلوں بہانوں سے تنگ آچکے ہیں۔ سبز باغ میں آگ کا ایک ایسا لاوا ابل رہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹے گا تو سب کو بھسم کر دے گا۔ لوگوں کی زبانوں پر بڑے سخت سوال ابھر رہے ہیں۔ اداروں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ صاف الفاظ میں کہا جائے تو لوگ مایوسی کے سمندر میں غرق ہو چکے ہیں۔ سوال واضح طور پر موجودہ نظام کو مسلط کرنے والوں سے کئے جارہے ہیں۔ ہر محفل میں ایک ہی موضوع زیر بحث ہے کہ یہ جانیں یا وہ۔ ریاست کی رٹ سرنڈر ہو چکی ہے۔ عدل و انصاف کے دہرے نظام پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک بڑی عمارت کی لیز بحال کرنے اور کراچی میں نسلہ ٹاور گرائے جانے کے حکم پر بےگھر ہونے والے بےیار و مددگار متاثرین سوال کررہے ہیں کہ آخر ان کا قصور کیا ہے کہ انہیں ایک حکم پر بےگھر کر دیا گیا اور معاوضے کی ادائیگی پر تاریخ پر تاریخ دے دی گئی؟ سوال یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ اس غیرقانونی رہائشی ٹاور کو بنانے والے نجی مالکان اور انہیں اجازت دینے والے سرکاری حکام آزاد کیوں ہیں؟ اگر آدھے سے زیادہ کراچی کی سرکاری قبضہ شدہ زمینوں پر ناجائز تعمیرات ہیں تو انہیں گرانے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا؟ کچھ انصاف پنجاب میں بھی کیجئے جہاں تاریخی عمارتوں، مغلیہ دور کے مزارات، مندروں اور ریلوے کی زمینوں پر قبضہ کرکے رہائشی و کاروباری عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ اس حوالے سے بہت زیادہ تفصیل درکار ہو تو محترم واصف ناگی صاحب کی تحریروں سے رہنمائی لے کر از خود نوٹس لیں اور لاہور کے تاریخی ورثے کو بحال کرائیں۔ انصاف دینا ہے تو ان لاپتہ افراد کے خاندانوں کو دیجئے جو دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ سوال تو اچھے ہوتے ہیں۔ اسی سے اصلاح کا پہلو نکلتا ہے۔ سوال پر بُرا نہ منائیں، اصلاح کی طرف آئیں، انتقام نہ لیں، عاصمہ جہانگیر کی یاد میں کانفرنس کے دوران علی احمد کرد نے اگر کچھ تلخ سوالات کرہی دیے ہیں تو اپنے عمل سے ثابت کیجئے کہ سوال پوچھنے والا غلط ہے۔ اگر سوال ٹھیک ہے تو اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ انصاف کیجئے۔ اوپر سے نیچے تک بلاامتیاز انصاف کیجئے۔ حکومتیں بنانے گرانے کے چکر میں ہماری معیشت لیکو لیک ہوگئی۔ ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ ہو یا رانا شمیم کا حلفیہ بیان، ایک بار انہیں عدالت میں طلب کرکے کچھ سوال تو پوچھ لیں کہ سچا کون اور جھوٹا کون؟ فیصلہ ہو جائے گا، جو بھی مجرم ثابت ہو اسے سزا سنائیں، ڈر کس بات کا؟ عوام کو قصے، کہانیاں سنانے والے بچہ جمہوروں سے نجات دلائیں۔ اگر ایک ”سزا یافتہ مفرور“ اسی کانفرنس میں کچھ گلے شکوے کررہا ہے توغور کیجئے کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی۔ آپ بھی ہمارے ہیں اور وہ بھی۔ ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ ہمیں غدار بھی خالص نہیں ملتے، محب وطن تو دُور کی بات ہے جنہیں آپ پچھلے ماہ ملک دشمن، دہشت گرد، بھارتی فنڈنگ حاصل کرکے انتہا پسندی پھیلانے والا قرار دے رہے تھے آج اُنہی کو محب وطن قرار دے کر پھولوں کے ہار پہنا رہے ہیں اور شادیانے بجائے جا رہے ہیں کہ وہ مستقبل کی انتخابی سیاست میں آپ کے نئے اتحادی بن کر مخالفین کا توڑ نکالیں گے تو پھر سوال تو اٹھیں گے اور ان کے جوابات بھی دینا پڑیں گے ۔ ایسا نہ ہو آج جو گرہیں ہاتھ سے لگائی جارہی ہیں کل وہ دانتوں سے کھولنی پڑیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)