بابا غلمان شاہ، عمر 95 سال

December 03, 2021

بابا غلمان شاہ، عمر95 سال، میرا لنگوٹیا دوست! آپ حیران تو ہوئے ہوں گے مگر میرے دوستوں میں ہر عمر اور ہر مکتب فکر کے لوگ شامل ہیں۔ دینداربھی، لادین بھی، مختلف سیاسی جماعتوں کے ہم خیال بھی۔ اور ایرے غیرے نتھو خیرے بھی! بابا غلمان شاہ بھی انہی میں سے ایک تھا، ہم سب ایک دوسرے کے مرتبے یا عمر کو خاطر میں لائے بغیر جناب آپ کی بجائے ’’تم‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔ گپ شپ کے دوران کبھی سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ایک دوسرے پر جملے کستے رہتے ہیں اور کوئی اس کا برا نہیں مانتا۔ اگر ہماری محفل میں کوئی چھوئی موئی سا شخص غلطی سے شامل ہو جائے تو چند دنوں بعد وہ خود ہمیں چھوڑ جاتا ہے یا ہم اسے منہ لگانا بند کردیتے ہیں۔

بابا غلمان شاہ دوستوں کی محفل کی جان تھا۔ آتے ہی کوئی ’’شُرلی‘‘ چھیڑ دیتاہے اور پھر سب اس کے ’’مصرعے‘‘ پر گرہیں باندھنے میں لگ جاتے ہیں۔ ایک دن آتے ہی کہنے لگا تم میں سے جنت میں کون کون جانا چاہتا ہے، ہم سب نے ہاں میں جواب دیا، غلمان شاہ بولا ’’وہاں حورو غلمان تمہیں ملیں گے؟‘‘ ہم سب نے کہا ’’ان شاء اللہ‘‘ اس پر غلمان شاہ نے اپنی لمبی سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’تم سب کے لئے فی الحال یہ غلمان حاضر ہے،باقی رہیں حوریں، وہ تو جنت میں ہوتی ہیں اور جیسی تمہاری کرتوتیں ہیں تم میں کوئی ایک بھی جنت میں جانے والا نہیں‘‘ اس پر غلمان شاہ کو کافی ٹھاپیں پڑیں۔

غلمان شاہ کے پوتوں اور پوتیوں کی شادیاں بھی ہو چکی ہیںاور آگے ان کی اولادیں بھی ہیں، غلمان شاہ دوستوں کو مخاطب کرکے کہتا رہتا تھا کہ تم لوگ مجھے کچھ سمجھتے ہی نہیں، حالانکہ میں اگر الیکشن لڑوں تو صرف میرے گھر کے ووٹ مخالف کو ہرانے کے لئے کافی ہیں۔ ایک دن میں نے اسے کہا ’’یار غلمان تم ایک دفعہ الیکشن میں کھڑے ہو کر اپنی یہ خواہش بھی پوری کرہی لو‘‘ بولا ’’تم لوگ مجھے ووٹ دو گے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ کیوں نہیں، مگر کتنے پیسے دو گے؟‘‘ اس نے کہا ’’جتنے مانگو گے‘‘ اس پر ہم سب حیران ہوئے کہ جانتے تھےبابے کا گزارہ صرف پنشن پر ہے اور اس کی طوالتِ عمر دیکھ کر اس کا محکمہ کئی بار سوچ چکا ہے کہ پنشن صرف ستر سال کی عمر تک ملنی چاہیے مگر غلمان شاہ نے ہمیں زیادہ دیر تک حیران رکھنے کی بجائے پریشانی میں مبتلا کرنا زیادہ بہتر سمجھا اور کہا ’’میں کسی تگڑے مخالف امیدوار کے حق میں بیٹھ جائوںگا اور اس کے لئے منہ مانگی قیمت وصول کروں گا‘‘۔ میں نے غصے سے بابا غلمان شاہ کی طرف دیکھا اور کہا ’’تمہیں اس ضمیر فروشی پر شرم محسوس نہیں ہوگی؟‘‘ بولا ’’کیسی شرم؟ خود تم نے ایک بار لکھا تھا کہ ضمیرانسان کو گناہ سے نہیں روکتا، صرف گناہ کا مزا کرکرا کرتا ہے‘‘ میں نے جواب دیا ’’اگر تمہارے یہ عزائم ہیں تو لڑو الیکشن، ہم تمہارے حلقے میں تانگے پر لائوڈ اسپیکر سے یہ اعلان کریں گے کہ لوگو اسے ووٹ نہ دینا اور جو اس کے ساتھ سودا بازی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ بھی یہ غلطی نہ کرے کیونکہ اس کی عمر 95 سال ہے اور یہ بونس پر جی رہا ہے، پتہ نہیں کب اللہ کو پیارا ہو جائے اور یوں یہ کسی کے کام نہ آ سکے!‘‘ اس پر غلمان شاہ ناراض ہوگیا، اس کی ناراضی کی واحد وجہ اس کی عمراور اس کی فوتیدگی کا بیان تھا۔ کہنے لگا ’’میں اٹھ کر جا رہا ہوں اور آئندہ کبھی آپ لوگوں کی محفل میں نہیں آئوں گا۔ یہ محفل اس لئے منفرد تھی کہ اس میں امیر غریب، مشہور، گمنام اور چھوٹے بڑےسب برابر تھے مگر تم نے آج اس اصول کو توڑا اور اس کے ساتھ میری اس بات کو سنجیدگی سے لیا کہ میں الیکشن میں کھڑا ہوں گا اور پھر مخالف امیدوار سے سودا بازی کروں گا۔ مجھے افسوس ہے کہ اس غیرسنجیدہ محفل کے دوستوں نے میرے کردار سے واقفیت کے باوجود مجھے گھٹیا لوگوں کی صف میں کھڑا کردیا‘‘۔بس اس کے بعد ہم نے بابا غلمان کو منانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا، جب اس کی ناراضی رفع نہ ہوئی تو ایک دوست نے آگے بڑھ کر غلمان شاہ کی بغل میں گدگدیاں شروع کر دیں جس پر بابا غلمان دہرا، تہرا ہو کر ہنسنے لگا اور یوںبات آئی گئی ہوئی۔

غلمان شاہ ایک بڑے مرتبے کا بیورو کریٹ تھا، مگر اس وقت بھی اس کا رویہ ہر کسی کے ساتھ دوستانہ ہو تا تھا، ہر سائل کے ساتھ فری ہو جاتا تھا، ہر ایک کا تفصیلی دکھ سننے میں لگا رہتا اور مظلوموں کی داد رسی کرتا۔ اسے بیورو کریٹ کے کوٹے میں پلاٹ کی آفر بھی ہوئی مگر اس نے ٹھکرا دی۔ میں نے گزشتہ روز غلمان شاہ سے پوچھا ’’یار اپنی طویل العمری کا راز تو بتائو؟‘‘ اس پر وہ ہنسا اور بولا ’’طویل العمری ؟ آر یو کریزی، میں تو ابھی صرف 95 برس کا ہوں‘‘ میں نے کہا ’’یار بات کو مذاق میں نہ ٹالو، آج اپنی لمبی عمر کا راز بتا ہی دو‘‘۔ یہ سن کر اس نے بھرپور قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں آدم کی اولاد ہوں اور تم نے بھی سنا ہوگا کہ ماضی میں آدم زادوں کی عمریں اتنی طویل ہوتی تھیں کہ میری موجودہ عمر کے لوگ بچوں میں شمار ہوتے تھے۔ لہٰذا تمہیں ابھی کئی سو سال مجھے بھگتنا پڑے گا‘‘۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک بار پھر بھرپور قہقہہ لگایا۔ اس پر مجھے غصہ آگیا کیونکہ اگر کوئی مذاق کو کچی لسی کی طرح پھیلاتا جائے تو وہ مذاق نہیں رہتا۔ سو میں نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا ’’بندے دا پتر بن اور مجھے بتا کہ تم کن اصولوں پر عمل کرتے رہے، جس کی وجہ سے اس عمر تک پہنچے، مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور میں نے دیکھا کہ اس کی گردن ایک طرف کو لڑھک گئی تھی۔ یہ آدم زاد صرف 95 برس کی عمر میں ہم سے جدا ہوگیا تھا۔