حقیقی جمہوری ریاست پر عوام کی بالا دستی کا تصور

December 03, 2021

مورخین آج کھل کر اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان میں ریاست پر عوام کی بالادستی کا تصورتقریباً ماند پڑ چکا ہے جبکہ ان چوہتر سالوں میں صرف تین حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی اورکوئی بھی وزیر اعظم اس اعزاز کا مستحق نہیں ٹھہرا کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرتا۔اس کشمکش کا ایک منظر ہم 16دسمبر 1971کو بھی دیکھ چکے ہیں جب پاکستان بنانے والا اکثریتی صوبہ عالمی نقشے سے غائب ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ ایک وزیر اعظم کو موت کی سزا ہوئی اور دو وزرائے اعظم نااہل قرار پائے اور ایک سابق وزیر اعظم کو سیا ست سے ہٹانے کیلئے جنرل ایوب خان نے ایبڈو کا سہارا لے کر نااہل قرار دے دیا۔سونے پر سہاگہ کہ جن لوگوں نے ملک توڑا وہ پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفنائے گئے۔نو آبادیاتی دور سے ملنے والے وراثتی سرداروں ، جاگیر داروں، سویلین اور ملٹری بیوروکریسی نے آہستہ آہستہ حکمرانی اپنے نام کر لی اور یوں 74 برسوں میں اشرافیہ اور طالع آزمائوں نے آئین و سویلین بالادستی کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے سماج سے عوامی حاکمیت کا تصور ہی ختم کر دیا جس کی وجہ سے آج پاکستان کے ننانوے فیصد عوام نہ صرف مہنگائی کے شدید ترین دبائو میں ہیں بلکہ تعلیم اور انصاف کے حصول کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ بلوچستان کا صوبہ سب سے زیادہ بحران کا شکار ہے جہاں تعلیم عملی طور پر معطل ہے ، طالب علم اپنے لاپتہ ساتھیوں کیلئے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں، گوادر شہر میں ماہی گیروں کے احتجاج کی وجہ سے زندگی معطل ہے لیکن برسر اقتدار طبقات کے پاس انکی داد رسی کا کوئی منصوبہ نہیں اور بقول علی احمد کرد جو سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر رہے ہیں ، یہ ملک عوام کی مٹھی سے ایسے رس رہا ہے جیسے ریت کی بوری سے ریت رس رہی ہوتی ہے۔

پچھلے دنوں لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ججوں، قانون ، سیاست اور اقتصادیات کے ماہرین نے اپنے مقالے پڑھتے ہوئے ریاست کے بنیادی تضادات کو بیان کیا۔ علی احمد کرد نے اس کانفرنس کے ایک سیشن جسکا عنوان ’’انسانی حقوق کے تحفظ میں عدلیہ کا کردار‘‘میں مقالہ پیش کرتے ہوئے اس عنوان پرہی شدید تنقید کی اور کہا کہ یہ عنوان عاصمہ جہانگیر کی جدوجہد سے مطابقت نہیں رکھتا۔انہوں نے دانشوروں کو بھی اس تنزلی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آج دانشوروں کا کوئی ایسا طبقہ نہیں ہے جو عوام کے مسائل کی آبیاری کر سکے۔

علی احمد کرد نے اپنی تقریر میں عاصمہ جہانگیر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستانی سماج کے ان تمام اداروں اور طالع آزمائوں کو ایکسپوز کرنے کی روش کو جاری رکھتے ہوئے پاکستان میں سویلین و ملٹری بیوروکریسی اورنام نہاد دانشوروں کو موردالزام ٹھہرایا جو اس ریاست سے مراعات حاصل کرتے ہوئے عوام کی امنگوں پر پورا نہیں اترتے ۔ اس کانفرنس سے ماہرین نے خطاب کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ پاکستان کو ایک فلاحی اور جمہوری ریاست کے طور پر اس وقت تک آگے نہیں بڑھایا جا سکتا جب تک قائد اعظم کی 1948کی کوئٹہ اسٹاف کالج کی تقریر کو اس کی روح کے مطابق پاکستان میں نافذ نہیں کیا جاتا جس سے نہ صرف ریاستی اداروں کے سامنے عوام کو برابری کے حقوق حاصل ہوں گے بلکہ اس سے جمہوریت، آئین اور سویلین سپرمیسی کی راہ ہموار ہوگی۔ماہرین کا خیال تھا کہ جمہوریت کے ثمرات اس وقت تک عام لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے جب تک قومی سلامتی کے بیانیے کومکمل طور پرفلاحی ریاست کے بیانیے میں تبدیل نہیں کیا جاتا۔آج پاکستان میں بہت سارے سیاست دان ، ادیب ، وکیل اور دانشور موجود ہیں جو عاصمہ جہانگیر اور علی احمد کرد کی سوچ کا ادراک تو رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ وہ واحد بیانیہ ہے جو پاکستان کو اس بھنور سے نکال سکتا ہے لیکن وہ اس بے باکی کے جذبے سے محروم ہیں جو صرف اسی وقت ہی حاصل ہو سکتا ہے جب آپ اپنے آپ کو سماج کے کل پر قربان کر سکتے ہوں اور استحصالی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں ظالم کہنے کی ہمت رکھتے ہوں۔

پاکستان میں آج ایک طبقے کی طرف سے عاصمہ جہانگیر کانفرنس پر تنقید بھی کی جا رہی ہے لیکن بقول علامہ اقبال ’’ہے کبھی جاں اورکبھی تسلیم جاں ہے زندگی‘‘ یعنی زندگی تو سبھی گزار جاتے ہیں لیکن اصل زندگی صرف انہی کو نصیب ہوتی ہے جو ظلم و استبداد کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان کوتسلیم کرواتے ہیں ۔ علی احمد کرد نے اپنی تقریر میں اسی استبدادکو عاصمہ جہانگیر کی روایتوں کے مطابق بے باکی سے بیان کیا ہے۔ اگر پاکستان کو اکیسویں صدی میں ایک جمہوری خوشحال ، امن پسند اور فلاحی سماج کی شکل میں پروان چڑھنا ہے تویہی وہ واحد راستہ ہے جس سے پاکستان میں سماجی تنزلی کا راستہ روکا جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے ہمارے سیاست دانوں کوسقراط جیسی سوچ کا حامل ہونا ہوگا جس کی ایک واضح مثال علی احمد کرد ہیں۔ ایسے دانشور کبھی مرا نہیں کرتے

ورنہ سقراط مر گیا ہوتا

اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں