اضافی بجلی، نصف ملین صارفین محروم

December 04, 2021

کیا یہ بات محض اتفاق ہے کہ پاکستان ماہانہ اوسطاً 15ہزار میگا واٹ اضافی بجلی پیدا کرتا ہے،یہ تک کہا جاتا ہے کہ بجلی پیداکرنے والی کمپنیوں سے بجلی سرے سے لی ہی نہ جائے تو بھی معاہدوں کے تحت کمپنیوں کی پیداواری گنجائش کے مطابق وافر ادائیگیاں جاری رہتی ہیں مگر ایک طرف شہروں میں بجلی غائب ہونے کے واقعات بڑی حد تک معمول کا حصہ ہیں۔ دوسری جانب نصف ملین درخواستیں زیر التوا ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق بجلی کے نئے کنکشن کے لئے تقریباً چار لاکھ 85ہزار درخواستیں تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے پاس پڑی منتظر ہیں کہ صارفین کو بجلی کی سہولت دی جائے۔ وزارت توانائی کے اعداد و شمار کے بموجب موسم گرما کے مہینوں میں زیادہ مانگ کےدوران بھی پاکستان میں اوسطاً 10ہزار میگا واٹ اضافی بجلی دستیاب ہوتی ہے۔موسم سرما میں بجلی کی طلب کم ہونے کے باعث دستیاب بجلی کی مقدار دگنی ہو جاتی ہے۔ جبکہ یہ ناقابل تردید حقیقت، اپنی جگہ موجود ہے کہ سردیاں ہوں یا گرمیاں، بجلی کے صارفین کو لوڈ شیڈنگ، تعطل، فنی خرابی، (یاجوبھی نام دیاجائے ) کے باعث آئے روز برقی بندش کے چھوٹے بڑے وقفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دوسرا گردشی قرضے کا تیزی سے بڑھناقومی معیشت کو نگلتا جا رہا ہے اور لائن لاسز، ایڈجسٹمنٹ چارجز سمیت ایک اور گوشوارہ صارفین کے لئے سوہان روح بنتا جا رہا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ نئے کنکشنوں کے اجرامیں تاخیر، سرکلر قرضوں کی صورتحال کےحوالے سے فون یا ٹیکسٹ میسج کے ذریعے جواب حاصل کرنے کی کوششیں بھی رائیگاں جا رہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے قومی ڈھانچے کا ہر حصہ تطہیر طلب ہے جس کے سلسلے میں سب سے پہلے بین الاقوامی پانچ اداروں سے معاہدوں میں احتیاط کے تمام پہلوئوں کاجائزہ لینا ہو گا۔ ساتھ ہی اندرون ملک معاملات میں میرٹ کو سیاسی مفادات پر فوقیت دینے کی روش اپنانا ہوگی۔