برآمدات میں اضافہ کیسے ہو؟

December 04, 2021

(گزشتہ سےپیوستہ)

پیداوار اور معاشی فعالیت بڑھانے کا ایک اور ذریعہ برآمدی مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبہ میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔ پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کابہاؤ پڑوسی ممالک کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ٹیلی کام، بینکنگ، تیل اور گیس وغیرہ میں اس کے امکانات موجود ہیں۔ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ برآمدات میں اضافے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے بہاؤ کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ پاکستان میں برآمدی شعبہ اس حوالے سے تہی داماں ہے۔ اس نے عالمی سپلائی چینز، ٹیکنالوجی، مہارت، ڈیزائن، برانڈنگ، ذہنی سرمایے، مارکیٹنگ نیٹ ورک اور انتظامی امور میں جدت حاصل کرنے کا اچھا موقع گنوا دیا۔ چین اور ویت نام نے برآمدی مینوفیکچرنگ میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی موجودگی سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں سے وابستہ غیر ملکی افراد ملکی فرموں پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ ملکی کمپنیاں ان کے بہترین طریقے، جیسا کہ پیداواری تکنیک، مہارت اور مارکیٹنگ کی جدت اپناتی ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی فرمیں کلیدی عہدوں کے لیے ان ملٹی نیشنل کمپنیوں سے منیجرز اور ایگزیکٹوز حاصل کرتی ہیں۔ پاکستان میں ایک اچھی مثال موجود ہے کیوں کہ اس کے سرکردہ بینکوں کے زیادہ تر چیف ایگزیکٹوز ملٹی نیشنل بینکوں میں خدمات سرانجام دینے کا تجربہ رکھتے تھے۔ اسی طرح زیادہ تر غیر مالیاتی کارپوریٹس کی سربراہی وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے پہلے ملٹی نیشنل کمپنیوں اوران سے وابستہ مقامی اداروں میں کام کیا ہو۔ مہارت اور ہنرکے اس اثاثے کو مزید وسعت دینے اور اس میں نیا خون شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ مقامی ادویہ ساز کمپنیوں کی ترقی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مثبت اثرات دیکھنے میں آئے ہیں۔ یہ مقامی فرمیں اگر تحقیق، ترقی اور اختراع میں سرمایہ کاری کریں اور ایف ڈی اے یا یورپی ایجنسی سے سرٹیفکیٹ حاصل کرلیںتو ان کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں خاطرخواہ حصہ ہوگا۔ حکومت قیمتوں کے تعین میں ریگولیٹری رکاوٹوں کو دور کرے تاکہ سب کو یکساں مواقع حاصل ہوسکیں۔

ورلڈ بینک کی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں برآمدات کرنے والی غیر ملکی فرمیں ملکی برآمد کرنے والی فرموں کے مقابلے میں 66 فیصد زیادہ پیداوار دیتی ہیں۔ نیز جن فرموں کو ملٹی نیشنل کمپنیاں حاصل کرلیتی ہیں، ان کی پیداواری صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ پاکستانی کمپنیوں کے لیے سبق ہے کہ اگر مکمل طور پر نہیں تو کم از کم جزوی طور پر کثیر ملکی کمپنیوں کی کارکردگی کا معیار حاصل کیا جائے۔

پاک چین اقتصادی راہ داری کے دوسرے مرحلے کے تحت صنعتی یونٹس کے قیام کے لیے گوادر، رشکئی، فیصل آباد، دھابیجی میں خصوصی اقتصادی زونز تعمیر و ترقی کے مراحل میں ہیں۔ چینی کمپنیاں جنہیں مزدوری کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا سامنا ہے، وہ ویت نام، کمبوڈیا، لاؤس وغیرہ میں منتقل ہو رہی ہیں۔ نئی بندرگاہ تک رسائی، دستیاب مراعات، قریبی سیاسی تعلقات کی وجہ سے چینی پاکستان میں ان خصوصی اقتصادی زونز کا انتخاب کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ ہم اپنی فعالیت کو ان کی رفتار سے ہم آہنگ رکھیں۔ چین کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کے تحت پاکستان کی 83 فیصد عالمی برآمدات آزاد ہوجائیں گی۔ اس طرح پاکستانی مصنوعات پر صفر ڈیوٹی اور کم ٹرانسپورٹ لاگت انھیں دوسرے ذرائع کے مقابلے میں چینی منڈیوں میں مسابقت کے قابل بنا دے گی۔ چینی درآمدات کا ایک فیصد مارکیٹ شیئر ہماری کل برآمدات میں 20 بلین ڈالر کا اضافہ کرسکتا ہے۔ پاکستان میں تیار ہونے والی چینی کمپنیوں کی برآمدی اشیا پاکستان کے لیے چینی مارکیٹوں سے بھی آگے کے مواقع کھولیں گی۔

پاکستان میں ہم رعایت، چھوٹ اور ٹیرف کی بلند شرحوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ اپنی اشیاء اور خدمات کو برآمد کرنے والی فرمیں ہمارے ہاں بہت کم آتی ہیں۔1990 کی دہائی سے شعبہ جاتی ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔جغرافیائی مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ تحفظ کی مؤثر شرح (ERP) کے تازہ ترین تخمینے دستیاب نہیں ہیں لیکن PIDE کے ایک سابق مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں ان شرحوں میں کمی واقع ہوئی تھی۔ لیکن پچھلے پانچ برسوں میں اضافی کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹی کے متعارف ہونے سے ERPs میں اضافہ ہوا ہے۔ اوسط ٹیرف کی شرح اور ٹیرف لائنوں کی تعداد کو بھی معقول بنایا گیا تھا لیکن ان میں بھی گزشتہ دہائی میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔

لوہے اور فولاد کی صنعت ایک اہم مثال ہے جہاں درآمدی محصولات زیادہ ہیں حالانکہ توانائی سمیت 90 فیصد ان پٹ درآمد کیے جاتے ہیں۔مقامی مصنوعات تیار کرنے والوں کو ذیلی صنعتوں کی نسبت تحفظ حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ کنسٹرکشن، کنزیومر الیکٹرانکس، انجینئرنگ کا سامان۔ اعلیٰ سطح کے تحفظ کے باوجود آٹو گریڈ اسٹیل مقامی طور پر تیار نہیں کیا جاتا۔ اسی وجہ سے درآمد شدہ پرزوں کو تبدیل کرکے اُسی معیار کے آٹو پارٹس نہیں بنائے جا سکتے۔ یہی حال ادویہ سازی کی صنعت کا ہے جہاں بھارت اور چین سے اجزادرآمد کیے جاتے ہیں۔ سن رائز شعبوں میں مصنوعات تیار کرنے والی صنعتوں کے لیے اپنی پیداوار کو بڑھانا، فی کس لاگت کو کم کرنا اور علاقائی اور عالمی منڈیوں میں مسابقت کرنا مشکل ہو گا۔ وہ عالمی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ بلند ٹیرف کی وجہ سے ان کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ جامد ان پٹ اور آئوٹ پٹ کا تناسب مارکیٹ کی تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی حرکیات میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ نیشنل ٹیرف کمیشن کو ٹیرف کے تعین کی ذمہ داری دی گئی کیونکہ ایف بی آر زیادہ سے زیادہ ریونیو اکٹھا کرنے میں مصروف تھا، کچھ مصنوعات کے خام مال پر اضافی اور ریگولیٹری ڈیوٹی ہٹا کر کچھ اچھا کام کرنا شروع کر دیا۔ تاہم، یہ کافی نہیں۔ انھیں اگلے چند سال کے لیے فیز آؤٹ ٹائم ٹیبل کا اعلان کرکے اوسط ٹیرف کی شرح کو پاکستان کے حریفوں کی سطح پر لانے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا تاکہ کمپنیاں ایڈجسٹمنٹ کرسکیں۔ اقتصادی ترقی کے لیے ہائی ٹیک اشیا، ضروری خام مال، مشینری اور آلات کی درآمدات ضروری ہیں۔ بلاشبہ، زرعی مصنوعات جہاں ہمیں تقابلی فائدہ حاصل ہے، کی ملکی پیداوار کو ترجیح دینی چاہیے۔ آزاد تجارت چین اور ہندوستان جیسی بڑی منڈیوں میں معاشی نمو کے امکانات روشن کرسکتی ہے۔

(جاری ہے)