وحشت و درندگی کا شرمناک مظاہرہ

December 05, 2021

سیالکوٹ میں ایک بے قابو ہجوم نے وحشت و درندگی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے ایک غیرملکی فیکٹری منیجر کو سنگ دلانہ تشدد کرکے جس طرح قتل کیا، کسی بھی حوالے سے اس کا کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ جواز بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اِس روح فرسا واردات کی تفصیلات محض ٹی وی چینلوں اور اخبارات ہی کے ذریعے ہی سے دنیا تک نہیں پہنچیں بلکہ یہ ہولناک اور شرمناک مناظر وڈیو کلپس کی صورت میں پوری دنیا میں گردش کررہے ہیں اور ہمیں ایک ایسی قوم کی حیثیت سے متعارف کروا رہے ہیں جس میں مذہبی جنونیوں پر کوئی روک ٹوک نہیں اور وہ قانون کے خوف سے بالاتر ہوکر کسی عدالتی کارروائی اور تحقیقات کے تکلف میں پڑے بغیر جسے چاہیں توہینِ مذہب کا محض الزام لگا کر موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اسپورٹس گارمنٹ کی نجی فیکٹری کے غیرمسلم سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا پر فیکٹری ورکرز نے مذہبی پوسٹر اتارنے کا الزام لگا کر حملہ کیا اور بدترین تشدد کرکے ہلاک کردیا جبکہ جمع ہو جانے والے تماشائی اس بہیمانہ کارروائی کو روکنے کے بجائے اس کی وڈیو بنانے میں مشغول رہے۔ پولیس اہلکار پہلے تو موقع پر پہنچے ہی دیر سے، پھر مشتعل ہجوم دیکھ کر مزید پولیس اہلکار بلوائے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، پریانتھا کمارا قتل ہو چکا تھا اور اس کی لاش جلائی جا چکی تھی، خاموش تماشائی بنے رہنے کا جواز پولیس نے یہ پیش کیا ہے کہ ہجوم بےقابو تھا، لوگ بہت تھے اور مشتعل تھے۔ ریسکیو 1122والے بھی کچھ نہ کر سکے اور کہا کہ ہم وردی میں تھے، ممکن ہی نہ تھا کہ مشتعل لوگوں میں گھس کر پٹنے والے شخص کو بچانے کے لیے کوئی مداخلت کرتے، جب پولیس نے ہجوم کو نہیں روکا تو ہم کہاں سے ریسکیو کرتے؟ فیکٹری کے مالک کا کہنا ہے کہ پریانتھا کمارا کے حوالے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی تھی، جب اس معاملے کی اطلاع ملی تب تک پریانتھا کمارا ہجوم کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ پولیس کو تقریباً صبح پونے گیارہ بجے اطلاع دی تھی، جب پولیس پہنچی تو نفری کم تھی، پولیس کی مزید نفری پہنچنے سے پہلے پریانتھا ہلاک ہو چکا تھا۔ فیکٹری مالک نے بتایا کہ پریانتھا کمارا نے 2013میں بطور جی ایم پروڈکشن جوائن کیا تھا، پریانتھا کمارا محنتی اور ایماندار پروڈکشن منیجر تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور کے مطابق سی سی ٹی وی کی مدد سے ملزمان کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ متعدد ملزمان کو گرفتار کرلیا، انکوائری 48گھنٹے میں مکمل کی جائے گی، پولیس کی لاپرواہی ثابت ہوئی تو کارروائی کی جائے گی، جو لوگ ملوث ہوں گے انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ وزیراعظم، وزیر داخلہ، آرمی چیف اور تمام سیاسی و دینی جماعتوں کے رہنماؤں اور علمائے کرام نے اس دل خراش سانحے پر شدید رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے اس کی فوری تحقیقات اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم ملک میں توہین مذہب کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، ایسے واقعات بارہا سامنے آچکے ہیں اور دنیا میں پاکستان ہی نہیں امن و آشتی کے علم بردار دین اسلام کے بھی غلط تعارف کا سبب بن رہے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایسے واقعات کی مستقل روک تھام کے لیے ایک طرف قانون کی عمل داری ہر سطح پر یقینی بنائی جائے اور دوسری طرف تمام دینی جماعتیں اور تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام مساجد کے منبروں اور ذرائع ابلاغ سے اس حقیقت سے عوام کو بتمام و کمال آگاہ کریں کہ محض دنیاوی قانون ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کی روسے بھی مجرم کو سزا دینا عدالتوں کا کام ہے اور اس ضابطے کی خلاف ورزی کرنے والے دنیا کی عدالت ہی میں نہیں روز حشر اللہ کی عدالت میں بھی فساد فی الارض کے مجرم کی حیثیت سے سخت سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔