منی بجٹ کی تیاریاں

December 05, 2021

حکومت کو اِس وقت تنخواہوں، غیر ملکی قرضوں کی اقساط کی ادائیگی، زرمبادلہ کے ذخائر میں میں ہونے والی کمی روکنے، گردشی قرضوں سمیت بہت سے ایسے چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط پوری کرکے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ ان میں بہت سی مدوں میں ٹیکس استثنیٰ واپس لینا اور حالیہ ٹیکس سلیبوں پر نظرثانی شامل ہے۔ آئی ایم ایف کے اس مطالبے پر وزارت خزانہ نے منی بجٹ کو حتمی شکل دیدی ہے جس کا عندیہ مشیر خزانہ شوکت ترین گزشتہ دنوں دے چکے ہیں۔ کہاجارہا ہے کہ یہ اقدام وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2021-22کیلئے پیش کئے گئے ترقیاتی بجٹ کے بعض اہداف واپس لینے میں کردار ادا کرے گا۔ جن معاملات کو حتمی شکل دی گئی ہے ان میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے دو کھرب اور حکومت کے عمومی اخراجات میں 50ارب روپے کی کمی شامل ہے۔ دوسری جانب ٹیکس استثنیٰ واپس لینے سےحکومت کو 350ارب روپے حاصل ہوں گے جبکہ آئی ایم ایف اس ضمن میں سات کھرب روپے کے ٹیکس اقدامات کا خواہاں ہے۔ سردست منی بجٹ میں اشیائے خوردونوش ، کھاد اور کیڑے مار ادویات پر استثنیٰ برقرار رہے گا۔ ایک تشویشناک امر یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پراویڈنٹ فنڈ پر ٹیکس بڑھانے اور تنخواہوں کے سلیبوں پر نظرثانی کرنے اور انہیں بڑھانے کا مطالبہ کر رکھا ہےلیکن حکومت نے فی الوقت اس تجویز کو ایک طرف کر دیا ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق بل کو بغور جائزے کے بعد وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا حکومتی دعوئوں کے مطابق متذکرہ بل درآمد اور غیر درآمد شدہ پُرتعیش اشیا اور اعلی سطحی خدمات تک محدود ہے تاہم یہ خیال رہے کہ یہ سارے راستے بالآخر مہنگائی اور دیگر مشکلات کی شکل میں عوام الناس تک جاتے ہیں جن کی کمر ان حالات نے پہلے ہی توڑ رکھی ہے اور وہ مزیدکسی افتاد کے متحمل نہیں۔