کمال اتاترک کو آواز نہ دیں!

December 05, 2021

میں رات بھر جاگتا رہا ہوں، جب ذرا آنکھ لگنے لگتی، سیالکوٹ فیکٹری کے سری لنکن منیجر کی جان لیوا وڈیو کے مختلف مناظر آنکھوں کے سامنے آجاتے۔ ایک پردیسی کو ڈنڈوں سے مارا جا رہا ہے، پھر اس کی لاش پر بھی ڈنڈے برسائے جا رہے ہیں، پھر اسے سڑک پر گھسیٹا جا رہا ہے اور آخر میں اس لاش کو آگ لگا دی جاتی ہے اور قاتل راکھ بنی ہوئی اس لاش کے ساتھ سیلفی بنا رہے ہیں!

اِن مناظر نے صرف مجھے ہی نہیں بلکہ ہر سچے پاکستانی، مسلمان بلکہ دردِ دل رکھنے والے انسان کو بےچین اور بےقرار کر دیا ہے مگر یہ سانحہ کسی ایک دن کی پیداوار نہیں، بلکہ ہم برس ہا برس سے مذہبی انتہا پسندی کو خود ہوا دیتے چلے آ رہے ہیں اور اِن نام نہاد مذہبی تنظیموں کو اپنے مقاصد کیلئے تیار کرتے اور پھر انہیں استعمال بھی کرتے آئے ہیں۔ اِن دنوں آپ فیس بک پر چلے جائیں، آپ کو جعلی ملائوں اور پیروں کے ایسے ایسے ’’ملغوظات‘‘ اور مناظر دیکھنے کو ملیں گے کہ حقیقتِ حال جاننے والے سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے مگر افسوس کہ ان کی پکڑ کرنے والا کوئی نہیں۔ اب پاکستان میں افراد نہیں، مافیاز بسے اور پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر پیشے کے لوگ یک جان دو قالب ہیں۔ ان پر ذرا سی آنچ آئے وہ سب اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ہر قاعدے قانون کو پائوں تلے روندتے چلے جاتے ہیں۔ حکومتیں ان کا بازو مروڑنے کی بجائے ان کے ساتھ مذاکرات کرتی ہیں جس کے نتیجے میں ان کے سات خون معاف ہو جاتے ہیں اور وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ معاشرے میں فساد پھیلانا شروع کر دیتی ہیں۔

کیا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان سے سچی محبت کرنے والے عوام جو کروڑوں کی تعداد میں ہیں، ان لوگوں کے حوصلے پست کرنے کیلئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں۔ اسلحے سے نہیں، بارود سے نہیں بلکہ پُرامن مظاہروں سے! اگر سری لنکن مقتول پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور سے صرف پچاس پچاس ہزار پاکستانی سڑکوں پر آ جائیں اور ان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کریں تو ان ظالموں کے حوصلے پست ہو جائیں گے۔ نیز دنیا بھر کو یہ پیغام بھی جائے گا کہ سو دو سو لوگوں کے علاوہ باقی پوری پاکستانی قوم ایک مہذب قوم ہے۔ کیا مختلف حوالوں سے مظاہرے کرنے والی این جی اوز چلانے والے اس ظلم کے خلاف بھی بھرپور مظاہروں کا اہتمام کریں گے؟ پاکستانی عوام کے دوسرے طبقوں سے بھی میری گزارش ہے کہ اس سنگین واردات پر گھر بیٹھے آنسو بہانے کی بجائے میدان میں نکلیں اور دنیا پر ثابت کریں کہ ہم ایک مہذب قوم ہیں اور ہمارا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں جو پوری دنیا میں پاکستان اور اسلام کو بدنام کر رہے ہیں!

یہ سطور لکھتے ہوئے میری نظر ایک پوسٹ پر پڑی ہے جو ایک دردِ دل رکھنے والے پاکستانی علی اصغر صاحب کی تحریر پر مشتمل ہے، یہ تحریر آپ کی نذر کرنے سے پہلے ویب سائٹ پر پرویز رشید صاحب کا یہ بیان بھی پڑھ لیں جو رلا دینے والا ہے ’’ڈینگی موت بن کے آیا آپ (سری لنکا) زندگی بن کے آئے۔ ہم اندھے ہوں، آپ (سری لنکا) آنکھیں عطیہ کریں، آپ کرکٹ کھیلنے آئیں، ہم موت بن جائیں، آپ ہماری صنعت (سیالکوٹ فیکٹری) چلانے آئیں، ہم لاش بھی نہیں راکھ واپس کریں۔ میں اپنے ہم وطنوں کو سمجھانے میں ناکام ہوا ہوں۔ سری لنکا میں آپ کا مجرم ہوں‘‘۔ ایک بات میں بھی کہنا چاہتا ہوں اور وہ نام نہاد مذہبی تنظیموں سے ہے کہ کمال اتاترک نے ترکی کا اقتدار سنبھالنے کے بعد مذہبی تنظیموں کے ساتھ ایک حد تک مذہب کو بھی بین کر دیا تھا کہ اس وقت ترک بھی انہی حالات سے دوچار تھے جن حالات سے ہم آج دوچار ہیں لہٰذا کسی کمال اتاترک کے آنے سے پہلے آپ ٹھیک ہو جائیں اور اب آخر میں علی اصغر صاحب کی چشم کشا تحریر:

آج کے افسوس ناک واقعہ کے بعد ایک تصویر بہت وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مقتول کی لاش جل رہی ہے اور ایک شخص اس کے ساتھ سیلفی لے رہا ہے اور اس کے چہرے پر طمانیت واضح نظر آرہی ہے۔ واقعہ میں ملوث افراد کا جب میڈیا والوں نے انٹرویو لیا تو وہ دھڑلے سے مان رہے ہیں کہ انہوں نے ایک گستاخ کو واصلِ جہنم کیا ہے۔ مقتول پر تشدد کرنے کی اور جلانے کی کئی وڈیوز دیکھ چکا ہوں جس میں مارنے والے رسول اللہؐ کے نعرے لگا رہے ہیں، نعرۂ تکبیر بھی بلند کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اکسٹھ ہجری سے آج تک مسلمان بدلے نہیں۔ بطور مسلمان اور پاکستانی میں آج کے واقعہ پر بہت افسردہ اور شرمندہ ہوں۔ معافی سے مقتول کے ورثاء کے زخم بھریں گے تو نہیں لیکن پوری پاکستانی قوم کو سری لنکن قوم سے معافی مانگنی چاہیے خصوصاً مقتول کی ماں سے جس نے نا جانے کتنی مشقت سے بیٹے کو پالا ہوگا اور پڑھا لکھا کر پردیس اس لیے بھیجا کہ گھر کے حالات اچھے ہو جائیں۔ یکم تاریخ کے بعد ماں بیوی اور بچے تنخواہ کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ آج اس فیملی پر کیا گزر رہی ہوگی جس نے اپنے گھر کے کفیل کو جلتے دیکھا۔