گلوبل گیٹ وے منصوبہ

December 08, 2021

یورپی یونین کی چیئرمین ارسلاوان نے حال ہی میں یونین کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین اور امریکہ نے مشترکہ طور پر گلوبل گیٹ وے کا منصوبہ تیار کیا ہے، تاہم اس منصوبے کو آخری شکل دی جا رہی ہے اور بہت جلد تمام منصوبہ عوام کے سامنے آ جائے گا۔ ارسلاوان نے مزید کہا کہ مجوزہ منصوبہ چین کے ون روڈ ون بیلٹ کے جواب میں ہے۔ ہم اس منصوبے کے تحت چین کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔

یورپی یونین اور امریکا دُنیا کے غریب اور ترقّی پذیر ممالک کو کم اَز کم شرح سود پر نہ صرف قرضےبلکہ جدید ٹیکنالوجی بھی فراہم کرے گا تاکہ ترقّی پذیر ممالک انفرا اسٹرکچر تعمیر کرسکیں اور ملک کو ترقّی سے ہمکنار کر سکیں۔ ارسلاوان کا کہنا تھا کہ درحقیقت چین جن شرائط اور معاہدوں کے تحت ترقّی پذیر ممالک کو قرضے فراہم کر رہا ہے اس میں اوّل شرح سود زیادہ ہے، دوم معاہدہ کی رُو سے قرض لینے والا ملک چینی ماہرین اور چینی افرادی قوت استعمال کر کے اپنا پروجیکٹ مکمل کرائے گا۔

کیا یہ چین کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے اور ترقی پذیر ممالک کو چھتری فراہم کرے گا؟

اس طرح چین دوطرفہ طور پر ترقّی پذیر ممالک کا استحصال کر رہا ہے بلکہ ان کو اپنے زیرِاثر لا کر ان کی خارجہ پالیسی بھی بدلنے کی کوششیں کر رہا ہے، یوں چین جو قرضے دے رہا ہے اس کا بڑا حصہ چینی ماہرین اور چینی مزدوروں کی تنخواہوں میں واپس چین چلا جاتا ہے اس پر ستم یہ کہ مقروض ملک سود کے دبائو کے زیراثر آ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قرض واپس کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔

اس حوالے سے پہلی مثال سری لنکا کی سامنے آئی جسے قرضہ بروقت اَدا نہ کرنے کی صورت میں اپنا بہت کچھ چین کو دینا پڑا۔ اسی طرح افریقہ جس کے ممالک اسی پھیر میں آ گئے ہیں اور قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ،چین کا ان پر دبائو بڑھ رہا ہے، لہٰذا ایسے میں یورپی یونین اور امریکہ نے غریب ممالک کو بہت تیزی سے جو چینی قرضوں کے جال میں پھنس رہے ہیں انہیں متبادل راستہ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔

یورپی مبصرین کا کہنا ہے کہ 2012ء میں چین نے ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ تیار کرنا شروع کر دیا تھا یہ چین کے پُرانے سلک رُوٹ کا نیا ایڈیشن ہے۔ ایک سال بعد 2013ء میں چین نے ترقّی پذیر ممالک سے رابطے شروع کئے۔ ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی ممالک میں اکثر نے اس منصوبہ میں دلچسپی ظاہر کی اور پھر چین سے قرضوں کے معاہدے شروع ہوئے، مگر یہ بات بھی سامنے آئی کہ معاہدوں میں بعض سخت شرائط بھی ڈالی جاتی رہیں، بیش تر معاہدوں کو خفیہ رکھا گیا لیکن تاحال بعض ممالک کے عوام ان معاہدوں کی شرائط اور مندرجات سے نابلد ہیں۔

دُنیا کے غریب ترقّی پذیر عوام اگر مزید معاشی مسائل اور معاشرتی سیاسی مسائل کے شکار ہونے لگے تو عالمی معیشت، سیاست اور معاشرت شدید خطرات سے دوچار ہو سکتی اور مکمل طور پر چین کے زیراثر آ سکتی ہیں۔ ان نازک حالات میں ضروری تھا کہ چین کے ون روڈ ون بیلٹ یک طرفہ منصوبہ کا توڑ کیا جا سکے اور عوام کو کوئی متبادل راستہ بھی فراہم کیا جا سکے۔ اس لئے یورپی یونین اور امریکہ نے OBOR منصوبہ کے متبادل کے طور پر گلوبل گیٹ وے منصوبہ کا اعلان کر دیا۔ اس کی تمام تفصیلات جلد دُنیا کے سامنے آ جائیں گی۔ یورپی یونین کی چیئرپرسن ارسلاوان نے ابتدائی خاکہ عوام کے سامنے پیش کر دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یورپی یونین اور امریکا گلوبل گیٹ وے منصوبہ کی ابتدا تقریباً 255 بلین ڈالر سے شروع کریں گے۔ یورپی یونین امریکہ وغیرہ جدید دُنیا کی ضرورتوں، عوام کی خواہشات اور ضروریات کا زیادہ ادراک رکھتے ہیں۔ ان قوتوں نے دُنیا میں کیا کچھ نہیں کیا، اس کو دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے مگر اب یورپ اور امریکہ کو احساس ہو چلا ہے کہ چینی قرضوں کی بڑی طویل پالیسی کی وجہ سے کس کس کا کتنا نقصان ہوتا ہے اس سے قطع نظر تمام فائدے چین کو حاصل ہوں گے۔ درحقیقت یہی خوف یورپی ملکوں اور امریکہ کو یکجا کر رہا ہے بلین ڈالرز کے منصوبے کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور مزید کھل کر سامنے آئیں گے کیونکہ یہ ان کی معاشی بقاء کا بھی مسئلہ ہے۔

اس وقت بلاشبہ دُنیا کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ کرّۂ اَرض کا تحفظ ہے۔ تمام ماہرین سائنسدانوں نے اس حوالے سے اپنی دوٹوک رائے دے رکھی ہے کہ آلودگی کی سطح کو کم سے کم کرو، قدرتی ماحول کو تحفظ فراہم کرو اور طرز زندگی میں کچھ تبدیلیاں پیدا کرو، تا کہ کرّۂ اَرض کی تیزی سے بگڑتی صورت حال کو سنبھالا دیا جا سکے۔ اس ضمن میں تمام ماہرین کی رائے میں دُنیا کا نمبر ون مسئلہ قدرتی ماحول اس لئے ہے کہ اس کا پہلا بڑا جُڑا مسئلہ دُنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے۔

آبادی بڑھ رہی ہے، قدرتی وسائل کم پڑتے جا رہے ہیں، معاشروں میں غربت، ناداری بڑھ رہی ہے، وبائی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے اور اگر ایسے میں غریب ممالک قرضوں تلے دَب کر سانس بھی نہ لےسکیں تو پھر کیا صورت حال ہوگی۔ یہ سب سے اہم نکتہ ہے۔ اس لئے مغربی ممالک ترقّی پذیر ممالک کا اعتماد بحال کرنا چاہتے ہیں کہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ جتنی چادر ہے اتنے ہی پیر پھیلائو۔ عام حالات میں دُنیا دیکھتی رہی ہے کہ بینکوں سے قرضے لینے والے زیادہ تر بڑے مسائل کا شکار ہوئے۔ ماضی بعید میں بینکوں، مہاجنوں سے قرضے لینے والے اس پر عیش کرنے والے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے۔

درحقیقت ترقّی پذیر ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور دُوسرا صلاحیت کا فقدان ہے۔ جن ملکوں نے نو آبادیاتی نظام سے چھٹکارا پانے کے بعد ادھوری آزادی سہی اس سے فائدہ اُٹھانے اور اپنے قدم جمانے کے بجائے عیش و عشرت کرّو فر میں اُلجھتے چلے گئے۔ ملک قرضوں سود اور پھر قرضے سود تلے دبتے چلے گئے۔

آج چین ترقّی پذیر ممالک کی اشرافیہ اور ان کے بیش تر رہنمائوں کی نفسانی خواہشات کو کیش کر رہا ہے تو چین کے نقطہ نظر سے کیا غلط ہے۔ یہ چین سے زیادہ ہمارے سوچنے کا مسئلہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشروں کو تقسیم دَر تقسیم کر دیا۔ تعلیم، صحت عامہ، شہری سہولتوں اور اعتدال پسندی کے بجائے فروعی مسائل میں اُلجھا دیا، طاقتور اور عزت دو، صلاحیت، لیاقت اور دیانت یہ محض اچھے اچھے الفاظ کے محض خوشنما غبارے ہیں۔ جب لوگ اس تختی کو پڑھ کر عملی دُنیا میں قدم رکھیں گے تو دل دہلانے والے واقعات جنم لیتے رہیں گے۔

دُنیا کے تمام اہم مذاہب، دانشوروں اور رہنمائوں نے سادگی، اعتدال پسندی، ایک دُوسرے کے مذہب، مسلک، زبان، نسل اور ثقافت کا احترام کروکا پرچار کیا ،مگر آج صورت حال اس کےبرعکس نظر آتی ہے۔

امریکہ نے حال ہی میں اس پر تشویش ظاہر کی ہے کہ ہواوے کمپنی اب پانچویں جنریشن ٹیکنالوجی مارکیٹ میں متعارف کرانے جا رہی ہے ان حالات میں چین اپنے ون روڈ ون بیلٹ منصوبے کو مزید تیزی سے آگے بڑھائے گا۔ ہواوے کی ففتھ جنریشن ٹیکنالوجی خاصی آگے کی چیز ہے۔ مارکیٹ کا اُصول ہے کہ نئی چیز نیا ماڈل آتے ہیں پُرانی چیز پُرانا ماڈل اسٹور ہو جاتا ہے۔

آج کی دُنیا کی تیز رفتار ترقّی کی بنیاد معیاری تعلیم اور تحقیق ہے۔ مغربی دُنیا میں نئے نئے اعلیٰ تعلیم کے ادارے، تحقیقی ادارے، علم اور آگہی فراہم کرنے والی تنظیمیں شب و روز کام کر رہی ہیں، مزید ادارے قائم ہو رہے ہیں، علم کی نئی نئی جہتیں دریافت ہو رہی ہیں۔ نئے نئے نظریات اور مقالاجات سامنے آ رہے ہی۔ ہر دن ایک انکشاف اور ہر دن ایک ایجاد انسانیت کے ورثے کا عظیم مبصربن رہے ہیں۔ اب جبکہ یورپ امریکہ گلوبل گیٹ وے منصوبے پر کام کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں تو اس سے اُمید ہے ترقّی پذیر ممالک کو کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل ہوگا۔ اس پر بھی غور کریں۔

عالمی میڈیا میں یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ دُنیا تقسیم ہونے جا رہی ہے، دُنیا تقسیم ہو رہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ دُنیا دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اس حوالے سے جن لوگوں کو تھوڑا بہت ابہام ہے وہ جلد دُور ہو جائے گا۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ دُنیا کی سب سے بڑی آبادی ہے، بڑی عسکری طاقت ہے، معاشی میدان میں لگ بھگ امریکہ کے ساتھ دوڑ رہا ہے قومی اعتبار سے متحد اور مستحکم ہے۔ چین کے سیاسی یا نظریاتی زیراثر مماک میں شمالی کوریا، افغانستان، ایران، پاکستان سمیت دو درجن سے زائد افریقی، ایشیائی اور لاطینی امریکی ممالک چین کے اتحادی بن سکتے ہیں۔

دُوسری طرف امریکہ کے حامی اتحادی سیاسی زیراثر ممالک میں جاپان، جنوبی کوریا، بھارت، یورپی یونین کے زیادہ ممالک کینیڈا وغیرہ اتحادی بن کر اُبھر سکتے ہیں۔ اب بھی زیادہ تر امریکہ کے ہی زیرِاثر ہیں۔ تیسری جانب وہ محوری ہوں جو چین یا امریکہ کے ساتھ اتحادی نہیں بن پائیں گے اور اس تمام کھڑاک سے اپنا دامن بچانے کی سعی کریں گے۔ مگر آج کی دُنیا میں غیرجانبدار ہونا محض ایک محاورہ بن کر رہ گیا ہے۔

اصل مسئلہ روس کا ہے، بڑی طاقت ہے، بڑا ملک ہے اور چین سے زیادہ قریب ہے مگر آئندہ عالمی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے امکان ہے کہ روس اپنا وزن چین کے پلڑے میں ڈالے گا یا پھر غیرجانبداری کا اعلان بھی کر سکتا ہے کہ آخری رائونڈ میں فیصلہ کیا جائے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی روس کو مائل کر سکتی ہے۔ گزشتہ تین چار دہائیوں میں ایسے مواقع آئے جس میں عالمی حالات میں روس اپنا کلیدی کردار ادا کر سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا، اگر کہیں کچھ کیا وہ بھی کارآمد نہیں ہو سکا۔ روس کو اپنی سیاسی پالیسی میں نمایاں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

چین کی ون روڈ ون بیلٹ پالیسی کو اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو بہت سی گرہیں کھلتی جائیں گی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ امریکہ نے دُنیا میں اپنا سیاسی، معاشی اور ثقافتی اثر کیسے بڑھایا اپنی نمایاں جگہ کیسے حاصل کی اس کا جواب یہ سامنے آتا ہے کہ امریکن کلچر نے دُنیا میں امریکہ کی نمایاں جگہ بنائی، جینز، ہالی ووڈ کی فلمیں، میوزک، کھلی منڈی کی معیشت، جدید میڈیا نے امریکہ کی شناخت بنائی۔ برطانیہ نے اپنی جگہ انگریزی کی وجہ سے حاصل کی یوں بھی برطانیہ دو ڈھائی برس تک دُنیا کے بڑے حصے پر قابض رہا مگر انگریزی برطانیہ کی رُوح ہے۔

باقی اَدب، کلچر، ڈرامہ یہ اضافی ہیں۔ فرانس نے اپنی نمایاں حیثیت اپنی زبان، نزاکت، نفاست، فیشن، جدّت، تنوع کی وجہ سے نمایاں جگہ حاصل کی۔ اَدب ، شاعری، فنون لطیفہ یہ فرانس کی عظیم ثقافتی خصوصیات ہیں۔ روس کی زبان، ثقافت، معیشت اس کی سرحدوں تک محدود رہیں۔ وہ عالمی سطح پر سپرپاور بنا پھر ڈھیر ہوگیا۔ اس کی نمایاں جگہ نہیں بن سکی ہاں بڑی طاقت ضرور ہے۔ ہتھیاروں کی تجارت خوب ہے۔ اب مسئلہ چین کا آیا کہ دُنیا میں سب بڑے ممالک بڑی طاقتیں اپنی اپنی نمایاں شناخت بنا چکیں اپنی اپنی جگہ بھی حاصل کرلی ایسے میں عالمی سطح پر وہ اپنی جگہ کیسے بنائے۔

غور کیجئے چین نے اپنی آبادی، غیرملکی سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی منڈیوں میں اپنا اَرزاں مال پھیلا کر منڈیوں میں سستے سامان کے ذریعے نمایاں جگہ بنا لی بلکہ دُوسروں کی نیندیں حرام کر دیں۔ ہر مال ملے گا چائنا کا۔ اور پھر ون روڈ ون بیلٹ سلک رُوٹ کا نیا ایڈیشن آ گیا۔ دُنیا میں اس کی وجہ سے کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ مغربی ممالک دُنیا کو کئی عشروں سے صارفین کے سماج میں بدلنے کی کوششیں کر رہے تھے اور انہیں آدھی سے زیادہ کامیابی حاصل ہو چکی تھی اور دُنیا صارفین کے نیم سماج میں زندہ تھی۔

مگر چین کی تیز رفتاری اور منڈیوں پر چھا جانے کی کامیاب پالیسی نے دُنیا کو مکمل طور پر صارفین کے سماج میں بدل دیا ہے اور اپنی سب سے نمایاں جگہ بنا لی ہے۔ یہ داستان برطانیہ، امریکہ، فرانس، روس سے گزر کر چین کے کیمپ میں آ گئی، مگر داستان ختم نہیں، ایک ملک اور ہے جو بے چین ہے کہ میں بھی بڑا ملک ہوں، قدیم ہوں، اکنامی بھی بڑھ رہی ہے مجھے بھی نمایاں جگہ حاصل کرنی ہوگی۔ تب اس ملک کے سیاسی پنڈت سر جوڑ کر بیٹھ گئے خاصی سوچ بچار کے بعد انہوں نے کہا کہ بھارت کی قدیم روایات اور ثقافت میں یوگا کو ایک نمایاں حیثیت حاصل رہی۔

بھارت دُنیا میں یوگا کو متعارف کرا کر اپنی جگہ بنا سکتا ہے۔ یہ بات اس حد تک دُرست ہے کہ گزشتہ دس بیس برسوں میں یوگا مقبول ہوا ہے، مگر یہ نئی بات نہیں ہے۔ مغربی ملکوں میں ایک طویل عرصے سے یوگا متعارف ہے۔ اگر بھارت یوگا کے ذریعے نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہے اب یوگا سکھانے، ورزش کرانے کے بہت سے ادارے دُنیا بھر میں کھل چکے ہیں۔ اگر پھر بھی بھارت دُنیا میں نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتا ہے تو کچھ نیا کرے، نئی چیز متعارف کرائے۔ اس طرح ون روڈ ون بیلٹ چین کے لئے صرف معاشی طور پر ہی مفید ترین نہیں ہے بلکہ سیاسی اور ثقافتی طور پر بھی چین کے لئے بہت زیادہ مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مقابلے میں گلوبل گیٹ وے منصوبہ لے کر آئے ہیں۔

یورپی یونین اور امریکا نے چین پر ماحولیات اور آلودگی میں کمی کے مسئلے پر بھی دبائو رکھا ہوا ہے۔ یورپی یونین کی چیئرپرسن ارسلا وان نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ یورپی یونین کے ستائیس اراکین اگر قدرتی کوئلہ تیل کے استعمال میں کمی کریں، رفتہ رفتہ آلودگی میں کمی کر کے مطلوبہ سطح حاصل کرلیں تو پھر کیا ہوگا،کیونکہ چین قدرتی کوئلہ سے بجلی بنانے کے مزید کارخانے تعمیر کرنے جا رہا ہے چین میں بجلی کی کمی شروع ہو چکی ہے اس طرح ہماری محنت سرمایہ سب رائیگاں جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بھارتی وزیراعظم نے اپنے امریکا کے دورے اور اقوام متحدہ کے اجلاس میں واضح طور پر کہا کہ بھارت متبادل انرجی پر کام شروع کر چکا ہے مگر آئندہ تیس برس تک ہم قدرتی کوئلہ پر ہی انحصار کرتے رہیں گے۔ تب چین یورپی یونین کی پابندیاں کیوں قبول کرے گا۔ اس کے علاوہ یورپی یونین کے لئے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ یونین کے چند ممالک چین کے ساتھ بیش تر معاہدے کر بیٹھے ہیں وہ چین کے خلاف یا پابندیوں میں شریک نہیں ہو سکتے۔

اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ آج کی دُنیا واقعی ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ ہر ملک کسی نہ کسی دوسرے ملک کا محتاج ہے، اس پر اس کا انحصارہے۔ تجارت، سیاست، ثقافت دیگر معاملات ایک دُوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں چینی سفارت کار امریکا اور بھارت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ چین کے ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ کا حصہ بن جائیں اور فائدہ اُٹھائیں۔

یورپی یونین کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ گلوبل گیٹ وے ترقّی پذیر ممالک کو چھتری فراہم کرے گا۔ مزید کہا جا رہا ہے کہ دُنیا کو پھر سے بہتری کی طرف لے جانے کی جدوجہد کر رہے ہیں تا کہ ان ملکوں میں جدید انفرا اٹرکچر تعمیر ہو سکے کیونکہ ترقّی یافتہ اور ترقّی پذیر ممالک کے مابین اس حوالے سے جو خلیج حائل ہے اس کو کم سے کم کیا جا سکے۔ مغربی مبصرین کا کہنا ہے کہ چین اب تک تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے جبکہ یورپی یونین امریکہ 46 بلین ڈالر سے گلوبل گیٹ وے منصوبہ کا آغاز کریں گے۔ یونین کا کہنا ہے کہ آئندہ برس اس رقم میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔

ایشین اسٹرکچرل انویسٹمنٹ بنک جو اے آئی آئی بی کہلاتا ہے 2012ء میں قائم ہوا۔ اس کا ابتدائی سرمایہ ایک سو بلین ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ دو اور بینک قائم کئے گئے یہ بینک قرضے دیتے ہیں ان کے سود کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ شرائط بھی سخت ہوتی ہیں۔ ضرورت مند قرضے تو لے لیتے ہیں مگر جب اس کو ادا کرنا ہوتا ہے تو پھر ان کے مسئلے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ نئے بینک خوب جانتے ہیں کہ ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی ممالک میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر مسائل کیا کیا ہیں؟ اور ان کی سطح کیا ہے؟ پھر بھی بڑے بڑے قرضے جاری کر دیتے ہیں کیونکہ ان کا بنیادی مقصد بینکنگ سے زیادہ کچھ اور ہے۔اب یورپ امریکا کو سمجھ آ رہی ہے کہ یہ چینی پالیسی نقصان دہ ہے تو ماضی قریب میں لگ بھگ ایسی ہی شرائط پر غریب ملکوں کو قرضے اور امداد دی تھی۔

چین کچھ نیا نہیں کر رہا ہے وہ پرانی یورپی کالونیزم کی پالیسی کا نیا ایڈیشن لے کر آیا ہے۔ تاہم ڈیڑھ سو سے زائد ترقّی پذیر ممالک کو سوچنا ہوگا کہ انہیں کیا کرنا چاہئے۔چین کے معروف اخبار گلوبل ٹائمز کی خبر ہے کہ چینی منصوبے ون روڈ ون بیلٹ کے تحت چین کے چھ بلین ڈالر کے قرضے سے روس سے لے کر چین تک 640 میل ریلوے لائن بچھائی گئی جس میں 21اسٹیشن بھی شامل ہیں اس کا افتتاح ہوا۔ ایک خبر میں یہ بتایا ہے کہ ویت نام سے چین کو ملانے کے لئے چین نے 260 میل طویل ریلوے لائن بھی بچھائی ہے۔ ان دونوں لائنوں کی وجہ سے اطراف کے ممالک کو چین کا سفر آسان ہوگیا اور دو طرفہ آمد و رفت میں بھی اضافہ ہوگا۔ کاروباری سرگرمیاں مزید تیز ہو جائیں گی۔

گلوبل ٹائمز نے ون روڈ ون بیلٹ منصوبے کی تعریف کرتے ہوئے اس کے فوائد گنوائے ہیں۔ اخبار نے مزید لکھا کہ چین ترقّی پذیر ممالک کے لئے آسانیاں پیدا کرنا چاہتا ہے، ان کو جدید اسٹرکچر تعمیر کرکے دینا چاہتا ہے جس سے تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور غریب ملکوں میں خوشحالی آئے گی، مگر مغربی میڈیا کے منفی پروپیگنڈے سے یوں لگتاہے جیسے چین ان ملکوں کا استحصال کر رہا ہے جبکہ دُنیا جانتی ہے کہ مغربی ممالک نے ماضی قریب میں غریب ممالک کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا، چونکہ چین نے نوآبادکاروں کے دُکھ اور زخم سہے ہیں جن کا چین بھی نشانہ بنتا رہا تھا اس لئے وہ ان مصائب کو اس درد کو محسوس کرتا ہے ،اس لئے ان غریب اور زخم خوردہ ممالک کی مدد کر رہا ہے۔ مغرب کا پروپیگنڈہ اثر نہیں کرے گا، دُنیا بدل چکی ہے۔ اب امریکہ میں نوجوان نسل ان کے نظام اور ان کی نام نہاد جمہوریت کے خلاف آواز اُٹھا رہی ہے۔ اخبار گلوبل ٹائمز نے امریکی صدر بائیڈن کی دعوت پر بلوائی گئی جمہوری کانفرنس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

مغربی مبصرین کا گلوبل ٹائمز کی خبروں پر کہنا ہے کہ مذکورہ دونوں ریلوے لائنیں چین کو ان ممالک سے ملاتی ہیں۔ یہ چھوٹے ممالک ہیں، ان ریلوے لائنوں کی تعمیر کے لئے ان چھوٹے ملکوں کی زرعی زمینوں نے رہائشی علاقے برباد کر دیئے، جنگلوں میں جنگلی حیات دَربدر ہوگئی اور تمام فوائد چین حاصل کر رہا ہے۔ اس کا تمام سامان ان غریب ممالک کی منڈیوں میں پھیل رہا ہے جبکہ قرضے غریب ملکوں کےکھاتے میں جاتے ہیں۔

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ دوطرفہ پروجیکٹ ہے اس سے چین بھی فائدہ اُٹھا رہا ہے اور بڑا ملک ہونے کے ناطے زیادہ فائدہ اُٹھا رہا ہے تو پھر نصف سرمایہ کاری اس کو کرنا چاہئے۔ یہ کیسی ہمدردی اور مدد ہے۔ بعض باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کو بھی شعور آ جائے گا تب اس کا رَدّعمل سامنے آئے گا۔ اگر ریلوے نے منافع نہیں دیا تب ان غریب ملکوں کے مسائل اور مصائب مزید بڑھ جائیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ ماحولیات کی عالمی غیرسرکاری تنظیموں نے چین کی اس حوالے سے مذمت کی کہ ان ملکوں میں ریلوے لائنیں بچھانے کے دوران جن جنگلات اور درختوں کو نقصان پہنچا ہے اس سے اس خطّے کے قدرتی ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

دُوسرے لفظوں میں یہ دونوں ریلوے لائنیں ان ممالک کے لئے کسی حد تک فائدہ مند ہیں یا نہیں، ہیں پر بحث چل رہی ہے، مگر چینی ذرائع اس تمام بحث کو مغربی پروپیگنڈے قرار دے رہے ہیں۔ دُوسری طرف بعض افریقی ممالک مثلاً کینیا اور ایتھوپیا کی داستان یہ ہے کہ ان دونوں ممالک نے بھی سڑکوں اور ریلوے کے لئے قرضے لے رکھے تھے۔ اب ان قرضوں کی ادائیگی کا وقت آ گیا تو ان ملکوں پر وقت پڑ گیا، پیسہ نہیں ہے۔ ایسے میں چین نے ان دونوں افریقی ممالک کو مشورہ دیا ہے کہ قرضے کی قسطیں ادا کرنے کے لئے چھوٹے قرضے لے لیں اس میں شرح سود میں رعایت دی جائے گی اس سے قسطیں ادا کر دیں۔ بعض حلقے اس کو نیا نوآبادیاتی نظام بھی کہہ رہے ہیں۔

یہ انداز تنقید یا چین کی مخالفت دُرست نہیں ہے اگر چین کی شرائط پر اعتراض ہے تو اس کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ چین سے مذاکرات کریں، اپنے اندر جو بدعنوان کالی بھیڑیں ہیں انہیں نکالا جائے اور ملک کے مفاد میں فیصلہ کریں اگر ان معاملات میں عوامی رائے کو بھی شامل کر لیں تو یہ اور بھی اچھی بات ہوگی، مگر بتایا جاتا ہے کہ ترقّی پذیر ممالک میں کرپشن نے ان ملکوں کی معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے تو اس میں چین کیا کرے، وہی کر سکتا ہے جو مہاجن کا وتیرہ ہے۔

لہٰذا ترقّی پذیر ممالک کے رہنما بھی ان تمام معاملات میں برابر کے شریک دکھائی دیتے ہیں۔ چین سے قرضے ضرور حاصل کریں مگر ملکی مفاد کے لئے پوری دیانتداری کے ساتھ، پھر اُمید کی جا سکتی ہے کہ نتائج بھی اچھے ظاہر ہوں گے۔ یہی بات مغربی ممالک بھی سمجھ لیں کہ گلوبل گیٹ وے واقعی غریب ملکوں کی مدد کرے تا کہ ان کی مشکلات میں اضافہ نہ ہو ۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی