رائیگانی کب تلک

December 08, 2021

ابھی کورونا ختم نہیں ہوا کہ اس میں خرچ ہونے والی اور اجناس کا اسکینڈل جوکہ 40ارب روپے کے برابر ہے، سامنے آگیا۔ اس وقت مجھے وہ زمانہ یاد آگیا جب افغان مہاجرین آنے شروع ہوئے اور بے شمارملکوںنے فنڈ، کمبل اور اجناس بھیجیں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ کمبل بازار میںاور دیسی گھی کے ٹن یوٹیلیٹی اسٹور ز پر فروخت ہوتے تھے۔ میں بھی یہ ٹن کئی دفعہ خرید کر لائی۔ یہ سلسلہ بہت مدت تک چلا کہ افغان مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں آئے اور مال یوٹیلیٹی اسٹور پر فروخت ہوتا رہا۔ حکومت نے چوں نہ کی۔ زلزلہ کے لئے آئے ہوئے تمبو اور دیگر سامان کی بھی مظلوم لوگوں میں کم اور سڑکوں پر زیادہ فروخت ہوتی رہی۔ سب دیکھتے رہے۔ سب خریدتے رہے۔ اب اور کونسی بپتا سنائوں کہ ہر سیلاب کے بعد، قومی اور بین الاقوامی امداد آتی اور کھائی جاتی رہی۔ ابھی تو احساس پروگرام کے 40ارب روپے کی پٹاری کھلی ہے۔ ابھی توپناہ گاہوں اور بھوک مٹائو پروگرام کے بجٹ سامنے آئیں گے کہ اب تک غریب تو غریب ہی ہیں۔ یہ صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں فنڈنگ کہاں کہاں کھائی جاتی ہے، یہ راز نہیں، کھانے والے اور امداد دینے والے دونوں جانتے ہیں۔ اس وقت دوسرے ملکوں کا ذکر بے معنی ہے۔ اہم تو یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف بولنے والی حکومت کے کارندے ایسا کریں تو وہ تین سال سے جوایمانداری کے نعرے بلند کئے جاتے رہے ہیں،کیا وہ بے معنی تھے۔ کھوکھلے تھے۔ ابھی تو نیا کورونا اور ڈینگی نے آفت مچائی ہوئی ہے۔ آگے بھی ایسے ہی پول کھلتے رہیں گے۔ گزشتہ تین برس میں نیب نے اپنی پارسائی کی کہانی بھی پھیلائی ہے مگر تاریخوں پر تاریخیں پڑ رہی ہیں کوئی پوچھنے والانہیں، پتہ نہیں کس مصلحت کے تحت لب سلے ہوئے ہیں۔ ابھی تک بھٹو صاحب کی پھانسی میں شریک ججز کے نام اچھلتے رہے ہیں۔ ایمانداری میں لوگ کائوس جی، پارسی گھرانوں اور چند اور شرفا کے نام لیتے رہے ہیں۔ باقی پارسی گھرانے ملک میںگھپلوں کو دیکھ کر کوچ کر گئے اور اب تو حد ہوگئی، صاحب زادے کے بزنس کاغذات کی نگرانی، صدر مملکت خود کر ر ہے ہیں۔ آخر باپ کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ وہ خوش دلی سے نبھا رہے ہیں۔

اب دنیا بھر کےا خبارات لکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب نے 3ارب کا قرضہ، پاکستان کو ہتک آمیز شرائط کے ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے، اس طرح آئی ایم ایف نے بھی ناممکن شرائط لگائی ہیں۔ اب جبکہ پیٹرول اور بجلی کے علاوہ گیس بھی اول تو نابود ہے اور ان سب کی قیمتیں بڑھانے کی شرائط رکھ دی ہیں۔ کمال تو اسٹیٹ بینک نے کیا ہے کہ شرحِ سود کیا بڑھائی تمام بلڈرز نے قیمتیں بڑھانے کا اعلان کر دیا ہے۔ ادھر لوگ وہ سارے مکان تلاش کر رہے ہیں، جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ تیار ہیں، بس غسل خانے وغیرہ ٹھیک ہونے والے ہیں۔ وہ خواب کب سچ ہوگا؟

نسلہ ٹاور والے سڑکوں پر ہیں۔ ساری حکومتیں چپ ہیں۔ صرف اسلام آباد عدالت کچھ کہہ رہی ہے، ورنہ وہ زرِ کثیر کہاں سے آئے گا جو لوگوں کے ٹوٹے خوابوں کو جوڑ سکے۔ گزشتہ دنوں ہوائی جہاز کے کریش میں فوت ہونے والوں نے شور مچایا۔ پھر چترال سے آتے جہاز کے کریش کے خاندانوں نے بلوہ کیا۔ مگر ایسے بلوے تو دن رات ہوتے ہیں۔ کبھی نابینا نوکریوں کے لئے ہفتہ بھر سڑکوں پر بیٹھتے ہیں۔ کبھی طلبا یونیورسٹیوں میں، یکے بعد دیگرے میڈیکل کی طالبات کو خود کشی کرتے دکھایا جاتا ہے۔ اس کی بھی کوئی انکوائری انجام کو نہیں پہنچتی۔ البتہ ہر بات پر کمیشن بٹھا دیئے جاتے ہیں۔

ہمارے ہمسائے افغانستان کی حکومت کو کوئی ملک تسلیم ہی نہیں کررہا۔ اُدھر ابھی تک لڑکیوں کے پڑھنے اور پڑھانے کی اجازت نہیں ہے۔ افغان لڑکیوں کی ٹیم ہزار مشکلات کے بعد طالبان کے چنگل سے نکل کربھاگ سکی۔ ملک میں کھانے کو دانہ نہیں۔ کوئی روزگار نہیں۔ کب تک یہ لاکھوں مجاہدین پرچم پکڑے، جہازوں کی سیر کرتے، کبھی قطر، کبھی پاکستان اور کبھی امریکہ کا سفر کرتے رہیں گے۔

افغانیوں کے دکھوں کے بعد۔ ذرا گوادر کی مچھیرنوں اور کراچی کی جلی جھگیوں کے لئے کوئی آواز نہیں، مزدوروں کی فیڈریشن کچھ نہیں بول رہی۔ اب یاد آرہی ہے پروین رحمان۔ اور کوئی تو نکلتا نہیں۔ صرف ٹی وی پرضرار، مبشر اوروسعت کے بولنے سے کا م نہیں بنے گا۔ میڈیا تو ویسے بھی زیر عتاب ہے۔ اپنے چیف جسٹس صاحب تو سن اور دیکھ رہے ہیں ان کی طرف سے بھی کوئی حکم نامہ، کیا روز شام کو وزیراعظم کی تقریریں رائیگاں جائیں گی۔