اُردو دنیا کا سب سے بڑا میلہ رنگ بکھیر کر تمام ہوا

December 15, 2021

آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہونے والی چودہویں عالمی اُردو کانفرنس چار روز تک دھوم مچا کر ختم ہوچکی ہے لیکن پورے پاکستان میں ہی نہیں ، اردو کی سب عالمی بستیوں میں اسی کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ مسلسل چودہ برس تک یہ عالمی اردو کانفرنس اس شان سے منعقد کرنے کا سہرا آرٹس کونسل کراچی کے صدر ، تخلیقی معاملات سے تعلق رکھنے والے بے شمار لوگوں کے محبوب ، محمد احمد شاہ کے سر جاتا ہے جن کی انتھک محنت کی داد اس بار بھی زہرا نگاہ ، گلزار ، مستنصرحسین تارڑ ، گوپی چند نارنگ جیسے ڈھائی سو سے زائد ادیبوں ، دانشوروں کے علاوہ ان ہزاروں شرکاء نے دی جو چودہویں عالمی اردو کانفرنس میں شریک ہوئے ، اور صبح سے رات تک جاری رہنے والے اجلاسوں میں جوش و خروش سے شریک رہے ۔

کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تھے ۔صدارت کے فرائض معروف دانشور زہرا نگاہ نے انجام دیئے۔ زہرا نگاہ نے مختصر صدارتی خطاب میں کہا کہ معاشرے میں مسائل تو پیدا ہوگئے لیکن ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ انتہا پسندی کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے ادیب اور شاعر بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ صوبائی وزیر تعلیم و ثقافت سید سردار علی شاہ نے کہا کہ یہ کانفرنس اُردو زبان سے محبت کرنے والوں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا میلہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اُردو زبان کو ایک ماں کا رول ادا کرنا ہوگا۔

وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ عالمی اُردو کانفرنس ہمارے خوب صورت ماضی کو دوبارہ سے زندہ کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے کہا کہ کراچی کے ادبی حلقوں کے لیے عالمی اُردو کانفرنس کسی عید سے کم نہیں ہوتی، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور صوبائی وزیر تعلیم و ثقافت سید سردار علی شاہ نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ اس صوبے میں کلچر اور تہذیب کو فروغ دینے میں سب سے آگے ہیں ۔ عالمی اُردو کانفرنس کے انعقاد کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم انتہا پسندوں ، تہذیب اور ثقافت کے دشمنوں اور بے امنی پھیلانے والوں کے خلاف اپنے قلم اور اپنی مثبت سوچ سے مقابلہ کریں، ہم مارچ 2022ء میں قومی ثقافتی کانفرنس کا انعقاد کریں گے ۔

افتتاحی اجلاس کی صدارت زہرا نگاہ، اسد محمد خان، کشور ناہید، منیزہ ہاشمی، نور الہدیٰ شاہ، یوسف خشک، منور سعید اور بھارت سے آن لائن گوپی چند نارنگ نے کی جبکہ محقق اور ماہرین تعلیم ڈاکٹر جعفر احمد اور ماہر لسانیات ڈاکٹر طارق رحمن نے کلیدی مقالے پیش کیے، سیکریٹری آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے اظہارِ تشکر کیا۔افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر ہما میر نے کی۔

اردو کانفرنس کا پہلا دن، فیض احمد فیض کا دن تھا۔ زہرا نگاہ، افتخار عارف، منیزہ ہاشمی، نعمان الحق اور ارشد محمود نے فیض صاحب کی باتیں کیں۔ خالد احمد، فواد خان اور میثم نقوی نے ان کا کلام پڑھا، سیما سید اور زاشانے ملک نے فیض کی نظموں پر رقص کیا۔ اور آخر میں آرٹس کونسل میوزک اکیڈمی نے فیض کے کلام کو یوں گایا کہ سب کو حیران کدیا۔ محمد زبیر اور سجر نفیس کے علاوہ اکیڈمی کے نوجوانوں کی پرفارمنس نے خوب داد حاصل کی۔

دوسرے روز کے پہلے اجلاس ’’اُردو ناول کی عصری صورت حال‘‘ کے سیشن کی صدارت معروف ناول نگار خالد فتح محمد اور انور سن رائے نے کی جبکہ بھارت کے شہر ممبئی سے رحمان عباس نے ”نسائی شعور اور اردو ناول کے مطالعات“ اور کلکتہ سے صدیق عالم نے ”نئی انسانی صورت حال اور اُردو ناول“ پر آن لائن گفتگو کی، ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ”پون صدی میں ناول کی تفہیم اور اردو تنقید“، محمد حفیظ خان نے ”‘پچھتر سال میں سماجی تغیرات اور اُردو ناول“ جبکہ محمد عاصم بٹ نے ”معاصر ناول: نئی آوازیں، نئی اُمیدیں“ کے موضوعات پر اظہارِ خیال کیا۔

صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ
کا افتتاحی اجلاس سے خطاب

تقریب کی نظامت کے فرائض سید کاشف رضا نے انجام دیے، اس موقع پر خالد فتح محمد کے ناول ”وقت کی باگ“ کی رونمائی بھی کی گئی۔دوسرے دن ہی ایک اور دلچسپ اجلاس ہوا۔’’بچوں کا ادب اور نئی دنیا‘‘۔ تقریب کی صدارت معروف شاعر اور دانشور محمود شام نے کی جبکہ بچوں کے ادب سے وابستہ نہایت اہم قلم کاروں علی حسن ساجد، سلیم مغل اور رومانہ حسین نے بھی خطاب کیا، نظامت کے فرائض شمع زیدی نے انجام دیے، اس موقع پر وجیہہ وارثی کی کتاب ”جنگلستان“ کی رونمائی بھی کی گئی، ”تراجم کی صورت حال" میں صدارت کے فرائض سید مظہر جمیل اور امداد حسینی نے انجام دیے جبکہ افضال احمد سید، زینت حسام، سعید نقوی، ارشد فاروق نے اظہارِ خیال کیا، اس موقع پر ڈنمارک سے آن لائن نصر ملک نے گفتگو کی، تقریب کی نظامت انعام ندیم نے انجام دی۔

اسی روز کتابوں کی تقریب رونمائی میں کئی کتابوں پر گفتگو ہوئی۔ اجلاس کی میزبانی اوج کمال نے کی۔ قمر رضا شہزاد کی کتاب ’’خاک زار‘‘ پر مبین مرزا نے اظہار خیال کیا۔ تاجدار عادل نے ڈاکٹر اقبال پیرزادہ کی کتاب ’’کاغذ پہ مہ وسال‘‘ پر، سید نعمان الحق نے حارث خلیق کی کتاب ’’حیراں سر بازار‘‘ پر، نجیبہ عارف نے حمید شاہد کی کتاب ’’حیرت کا باغ‘‘ پر، سید کاشف رضا نے صابر ظفر کی کتاب ’’آتش بیگانگی‘‘ پر، رؤف پاریکھ نے صابر وسیم کی کتاب ’’ایک سفر ایجاد کیا‘‘ پر گفتگو کی۔اسی دن بھارت کے نامور شاعر اور کہانی نویس جاوید صدیقی کی کتاب ”مٹھی بھر کہانیاں“ کی شاندار تقریبِ اجراء منعقد کی گئی۔

اس کتاب کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے شائع کیا ہے جس پر جاوید صدیقی نے بھارت سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ کا خاص شکریہ ادا کیا۔ تقریب سے معروف شاعر گلزار صاحب نے بھی بھارت سے آن لائن خطاب کیا جبکہ اس محفل کی صدارت زہرا نگاہ نے کی، کتاب پر صدر آرٹس کونسل آف پاکستان محمد احمد شاہ اور مبین مرزا نے بھرپور گفتگو کی ۔’’میڈیا اور دور جواں‘‘ کے سیشن میں ڈینو علی، ماہم مہر، عبداللہ سلطان، شفاعت علی اور فیضان شیخ نے شرکت کی جبکہ عظمیٰ الکریم نے نظامت کے فرائض سر انجام دیے۔

’’ساحر لدھیانوی کے سو برس‘‘ سیشن میں گفتگو کرتے ہوئے ادیب و شاعر فراست رضوی اور سلطان ارشد نے ساحر کی شاعری اور شخصیت پر بھرپور گفتگو کی ۔” تقدیسی ادب کی صورتِ حال“ کے سیشن کی صدارت ڈاکٹر عالیہ امام نے کی جبکہ ابوسفیان اصلاحی نے علی گڑھ سے صدارت کی ۔ تقی عابدی نے ”آزادی کے بعد اردو مرثیہ اور جوش“، طارق ہاشمی نے ”پون صدی میں نعت کا تخلیقی تناظر“، عزیز احسن نے ”آزادی کے بعد نعت کے اہم رجحانات“ اور فراست رضوی نے ”حمد باری تعالیٰ: کل اور آج“ پر گفتگو کی، نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دیئے۔’’آج کامران خان کے ساتھ‘‘ پروگرام میں معروف اینکر کامران خان نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ صحافی کو سوال پوچھنے کا فن آنا چاہیے جواب آپ کو خود بخود مل جائے گا۔اجلاس کے ناظم اویس توحید کے مختلف سوالوں کے جواب میں کامران خان نے کہاکہ کوئی بھی دور رہا ہو میں نے خبر کی سچائی اور حقیقت تک پہنچنے کے لیے بہت ایمانداری کے ساتھ کام اور محنت کی ہے۔

’’ہم سب اُمید سے ہیں‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مقبول مزاح نگار ڈاکٹر یونس بٹ نے کہاکہ دوسروں کو ہنسانا اور ان کے لبوں پر مسکراہٹ لانا لکھنے والے کی ذمہ داری ہوتی ہے ناکہ کامیڈین کی ۔ سیشن کے ناظم کاشف گرامی کے مختلف سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر محمد یونس بٹ نے کہا کہ جیو ٹی وی کا مقبول ترین پروگرام ”ہم سب اُمید سے ہیں“ الیکشن کے موقع پر شروع کیا گیا تھا مگر عوام نے اسے اتنا زیادہ پسند کیا کہ یہ پروگرام پندرہ سال تک چلا۔

شیخ ایاز پر ہونے والی خصوصی نشست سے مہتاب اکبر راشدی، حارث خلیق اور جامی چانڈیونے خطاب کیا جبکہ میزبان ڈاکٹر قاسم بگھیو تھے،اسی شام ضیا محی الدین نے اپنی مخصوص پڑھنت کا جادو جگایا اور اردو کے بڑے شاعر اور ادیب ابن انشا کی شاعری کے علاوہ ان کی بے مثال نثر سے سجی مزاحیہ تخلیقات پیش کیں جس کو سننے کے لیے ہزاروں لوگ موجود تھے ۔ وصی شاہ کی صدارت میں منعقد ہونے والے نئی نسل عالمی مشاعرہ میں علی زریون، رحمان فارس، عمیر نجمی، عامر امیر، فریحہ نقوی، وحید نور ،نعیم سمیر، شبیر نازش، بلال سود ،وجیہ ثانی، امر پیر زادو، عمران شمشاد، عباس ممتاز، سلمان ثروت،احمد جہاں گیر، غزالہ حبیب خان، حنا امبرین طارق، سبیلہ انعام صدیقی، شمع افروز، عبدالرحمن مومن اور دیگر نے اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کیا ۔

دوسرے دن ’’سرائیکی زبان و ادب‘‘ سیشن میں محمد حفیظ خان، نذیر لغاری اور جاوید چانڈیو شریک تھے جبکہ نظامت سعدیہ کمال نے کی۔اسی روز وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اچانک آرٹس کونسل کراچی آپہنچے۔ کتب میلہ کے مختلف اسٹالوں کا دورہ کیا اور ادیبوں شاعروں سے ملاقات بھی کی۔ اس موقع پر انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ، 25دسمبر کو گورنر ہاؤس کراچی میں جشن قائداعظم میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شرکت کریں گے۔ اس کے انتظامات صدر آرٹس کونسل کراچی محمد احمد شاہ کے حوالے کیے گئے ہیں جبکہ مارچ 2022ء میں آرٹس کونسل کراچی میں ہونے والی قومی ثقافتی کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان شرکت کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل کراچی بھرپور مبارکباد کی مستحق ہے ۔

”اردو افسانے کا منظرنامہ“ کے عنوان سے منعقد اجلاس کی صدارت زاہدہ حنا اور عامرحسین نے انجام دی جبکہ ”اردو افسانہ آزادی کے بعد اور اس کے امکانات“ پر خالد فتح محمد، ”پون صدی کے اردو افسانے میں ہیئت و اسلوب کے تجربات“ پر اسلام آباد سے آن لائن محمد حمید شاہد، ”آزادی کے بعد بدلتا انسانی سماج اور اردو افسانہ“ پر امجد طفیل،”پچھتر برس میں کہانی کی تلاش“ پر اخلاق احمد اور ”جدید افسانہ اور نئی معنوی تشکیلات“ کے موضوع پر بھارت کے شہر دہلی سے خالد جاوید نے آن لائن اظہارِ خیال کیا ۔ نظامت کے فرائض اقبال خورشید نے انجام دیے۔ ”یادرفتگاں“ کے عنوان سے منعقد پروگرام میں امجد طفیل نے رشید امجد پر ،اصغر ندیم سید نے مسعود اشعر ، شاہدہ حسن نے نصیر ترابی ، سلمان صدیقی نے جازب قریشی اور اقبال خورشید نے مشرف عالم ذوقی کی ادبی خدمات پر اظہارِ خیال کیا جبکہ نظامت کے فرائض رضوان زیدی نے انجام دیئے۔

معروف ادیب حسن جاوید اور محسن ذوالفقار کی کتاب ”سورج پر کمند“ کی جائزہ تقریب میں ڈاکٹر جعفر احمد ، مظہر عباس اور وسعت اللہ خان نے بھرپور گفتگو کی ۔ تقریب کی نظامت کے فرائض مرزا علی اطہر اور لندن سے آئے ہوئے اکرم قائم خانی نے ادا کیے ۔ شرکائے گفتگو میں رشید رضوی، شیر شاہ سید، مہناز رحمن، حسام الحق، لطیف چوہدری ، ندیم اختر اور ناصر منصور شامل تھے۔ کتابوں کی رونمائی میں ناصر عباس نیر کی کتاب ”جدیدیت اور نوآبادیات“ پر نعمان نقوی، سلمان ثروت کی کتاب ”میں استعاروں میں جی رہا ہوں“ پر فراست رضوی، شائستہ مفتی کی کتاب ”چاک اور چراغ“ پر شاداب احسانی، طاہرہ کاظمی کی کتاب ”مجھے فیمنسٹ نہ کہو“ پر تسنیم احمر ، سید مظہر جمیل کی کتاب ’’مغنی آتشِ نفس‘‘ پر قاضی عابد، فرخ یار کی کتاب ”دوراہے“ پر شریف اعوان نے گفتگو کی جبکہ نظامت کے فرائض عباس نقوی نے انجام دیے۔

”پاکستان کا سماجی و ثقافتی منظر نامہ“ کے عنوان سے منعقد اجلاس سے جاوید جبار ،شہناز وزیر علی، عارف حسن ،طارق رحمان اور نعمان نقوی نے خطاب کیا جبکہ نظامت کے فرائض حارث خلیق نے انجام دیے ۔”پنجابی زبان و ادب“ پر منعقدہ بھرپور سیشن میں بابا نجمی، بشریٰ اعجاز، صغریٰ صدف نے گفتگو کی جبکہ نظامت کے فرائض توقیر چغتائی نے انجام دیے ۔’’تعلیم کے پچھتر سال“ پر منعقدہ سیشن میں معروف صحافی زبیدہ مصطفیٰ کی کتاب کی تقریب اجرأ بھی ہوئی۔ سیشن سے سیکریٹری اسکول ایجوکیشن سندھ غلام اکبر لغاری ، ڈاکٹر جعفر احمد، صادقہ صلاح الدین، بیلہ رضا اور زبیدہ مصطفیٰ نے خطاب کیا، نظامت کے فرائض ڈاکٹر فوزیہ خان نے انجام دیے، سیکریٹری آرٹس کونسل اعجاز فروقی نے بھی خطاب کیا۔

سیشن’’ہم سب اُمید سے ہیں‘‘ میں ڈاکٹر یونس بٹ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ، کاشف گرامی بھی ہمرا ہیں

” مشتاق احمد یوسفی - سو برس “ کے حوالے سے منعقدہ نشست سے مستنصر حسین تارڑ اور اسلام آباد سے افتخار عارف نے آن لائن اظہارِ خیال کیا جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر فاطمہ حسن نے انجام دیے ۔’’اردو نظم کے صورت و معنی“کے موضوع پر سیشن کا انعقاد کیاگیا جس کی صدارت افضال احمد سید نے کی ۔ یاسمین حمید نے ”آزادی کے بعد جدید نظم کا موضوعاتی تناظر“، تنویر انجم نے ”آزادی کے بعد تجربات اور نثری نظم“، حمیدہ شاہین نے ”جدید نظم میں نسائی احساس کا اظہار“، فہیم شناس کاظمی نے ”جدید نظم اور عصری حسیت“، پیرزادہ سلمان نے ’’بدلتی انسانی صورت حال اور جدید نظم“ کے عنوان پر اظہارِ خیال کیا۔ نظامت کے فرائض شکیل جاذب نے انجام دیے۔افتخار عارف کے نئے شعری مجموعے ’’باغ گل سرخ‘‘ کی رونمائی کی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت زہرا نگاہ نے کی ۔۔ سیشن کی نظامت و گفتگو ناصر عباس نیّر نے کی۔ادا جعفری کی یاد میں پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے زہرا نگاہ اور یاسمین حمید نے گفتگو کی ۔

تیسرے دن کا ایک کامیاب سیشن ’’ہمارے فنون کی صورتحال‘‘ تھا، جس کی نظامت خود آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے کی۔ بشریٰ انصاری، اصغر ندیم سید، سیفی حسن اور بی گل گفتگو میں شریک تھے۔ ’’بلوچی ادب کے پچھتر سال‘‘ کے سیشن میں منیر بادینی، زاہدہ رئیس راجی، اے آر داد نے بلوچی ادب کا جائزہ لیا۔ وحید نور نے اس اجلاس کی نظامت کی۔تیسرے دن کے اختتام پر عالمی مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت افتخار عارف نے انجام دی۔ کشور ناہید، سرمد صہبائی ، انور شعور، صابر ظفر، اشفاق حسین، تقی عابدی، طارق سبزواری، شاہدہ حسن، یاسمین حمید، فاطمہ حسن، تنویر انجم، عشرت آفریں، منظر بھوپائی، فرحت احساس، علی محمد فرشی، خوشبیر سنگھ، قمر رضا شہزاد، عقیل عباس جعفری، حمیدہ شاہین، اجمل سراج، حارث خلیق، تسنیم عابدی، نصرت مہدی، ناصرہ زبیری، ثروت زہرا، شکیل جاذب، احمد سلمان، رنجیت سنگھ چوہان نے کلام سنایا۔ نظامت عنبریں حسیب عنبر نے سرانجام دی۔

شہرت یافتہ رقاصہ، ناہید صدیقی اپنے فن کا مظاہرہ کررہی ہیں

عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے اور آخری روز ”اردو تنقید معاصر منظر نامہ“ کے حوالے سے منعقد نشست کی صدارت شاہدہ حسن اور بھارت سے آن لائن انیس اشفاق نے کی، اس موقع پر ”پچھتر سال میں نئے تنقیدی رجحانات“ کے عنوان سے ناصر عباس نیر ”نئے تنقیدی نظریات اور معاصر فکشن“ پر قاضی عابد”جدید ناول کی تنقید اور نسائی شعور “ پر صوفیہ یوسف”اردو ناول کی تنقید آزادی کے بعد “ پر اسلام آباد سے آن لائن قاسم یعقوب جبکہ ”عہدِ جدید میں تہذیبی تنقید کا منظر نامہ “ کے موضوع پر رخسانہ صبا نے گفتگو کی۔

’’اردو غزل نئی تشکیلات‘‘ پر سیشن کی نظامت ناصرہ زبیری نے کی۔ عنبرین حسیب عنبر نے’’ہم عصر غزل اور نیا سیاسی شعور‘‘ پر ، فاطمہ حسن نے ’’جدید اردو غزل آزادی کے بعد‘‘پر، طارق ہاشمی نے ’’جدید غزل اور نئی جمالیاتی تشکیل‘‘پر، شاداب احسانی نے ' ’’اقبال کی غزل اور پاکستانی بیانیہ‘‘ پر اور ڈاکٹر ضیاء الحسن نے ’’پچھتر سال میں اردو غزل کے موضوعات‘‘ پر گفتگو کی۔ افتخار عارف نے صدارت کی ۔

”پاکستانی معیشت کے پچھتر سال اور عصری ایجنڈا“ کی نظامت کے فرائض کاظم سعید نے انجام دیے، اس موقع پر ڈاکٹر حفیظ پاشا نے خطاب کیا ۔یارک شائر ادبی فورم کی جانب سے پروفیسر غازی علم الدین اور سیما غزل کو یارک شائر ادبی ایوارڈ دئیے گئے۔ سیشن کی نظامت کے فرائض غزل انصاری نے ادا کیے جبکہ صدارت شاہدہ حسن نے کی۔ اس موقع پر آفتاب مضطر، فاطمہ حسن، ڈاکٹر انصاری اور سیما غزل کے صاحبزادے اسامہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔’’پشتو زبان و ادب کے پچھتر سال‘‘ پر سیشن کی صدارت خادم حسین نے کی۔ سرور شمال اور ساگر تنقیدی نے گفتگو میں حصہ لیا ۔

اختتامی اجلاس میں محمد احمد شاہ ،زہرانگاہ کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کررہے ہیں

کشور ناہید کی کتاب ”بری عورت کی دوسری کتھا“ کی تقریب اجراءکی نظامت کے فرائض قاسم بگھیو نے ادا کیے جبکہ شرکائے گفتگو میں صاحبِ کتاب کشور ناہید اور معروف ادیبہ نور الہدیٰ شاہ شامل تھے۔’’سندھی ادب کے پچھتر سال‘‘ کے سیشن میں نورالہدی شاہ ، غلام اکبر لغاری، ڈاکٹر سحر گل۔ ممتاز بخاری۔ طارق قریشی نے خطاب کیا ۔ حمیدہ شاہین کی شاعری کی کتاب کی رونمائی بھی کی گئی ۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ایوب شیخ نے ادا کیے۔کتابوں کی رونمائی میں فاطمہ حسن کی کتاب ’’اردو شاعرات اور نسائی شعور‘‘ پر افضال سید ، اختر وقار عظیم کی کتاب ’’چند ہم سفر ‘‘ پر اختر وقار عظیم ، ارشد فاروق کی کتاب ’’فن لینڈ کی منتخب کہانیاں‘‘پر یوسف خشک، علی محمد فرشی کی کتاب ’’نیلی شال میں لپٹی دھند" پر فاطمہ حسن اور عرفان جاوید کی کتاب ’’عجائب خانہ‘‘ پر اقبال خورشید نے گفتگو کی۔

نیویارک سے شایع ہونے والے سہ ماہی ورثہ کی بھی رونمائی کی گئی۔’’خواجہ معین الدین کی یاد میں‘‘ سیشن کی نظامت میثم نقوی نے کی۔ اس موقع پر سینئر اداکار منور سعید نے بھرپور گفتگو کی۔”پاکستانی صحافت کا جائزہ“کے سیشن میں محمود شام، غازی صلاح الدین، صوبائی وزیر سعید غنی، مظہر عباس اور وسعت اللہ خان نے اظہارِ خیال کیا، ناجیہ اشعر نے نظامت کے فرائض انجام دیے ۔

اختتامی سیشن کی صدارت انور مقصود نے کی۔ انہوں نے اپنے اور احمد شاہ کے درمیان کانفرنس سے متعلق ہونے والے مکالمے کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرکے سماں باندھ دیا۔چوتھے دن کی ایک خاص تقریب معروف ادب، ڈرامہ نگار اور ادیب اصغر ندیم سید کے ناول ’’دشتِ امکاں‘‘ کی تقریب اجرا تھی۔ معروف ادیب عرفان جاوید نے نظامت بھی کی اور گفتگو بھی۔ اصغر ندیم سید کو سب نے توجہ سے سنا۔’’عورت اور پاکستانی سماج‘‘ کے سیشن میں عارفہ سیدہ زہرا، نورالہدیٰ شاہ، انیس ہارون اور وسعت اللہ خان نے بہت عمدہ گفتگو کی۔

کانفرنس میں مشہورو معروف قوال فرید ایازاور ابومحمد ساتھیوں کےساتھ کلام پیش کررہے ہیں

نصرت حارث نے تقریب کی نظامت کی۔عارفہ سیدہ زہرا کے ساتھ گفتگو کا سیشن لوگوں کی خاص توجہ کا مرکز رہا۔ بی گل نے عارفہ سیدہ زہرا کے اس سیشن کی نظامت کی۔صف اول کے ادیب مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ اعتراف کمال کی تقریب کی نظامت ڈاکٹر ضیاء الحسن نے کی۔ تارڑ صاحب کے ناول ’’بہائو‘‘ کے انگریزی ترجمے کی تقریب رونمائی بھی ہوئی۔ یہ ترجمہ محمد سفیر اعوان نے بہت خوبی سے کیا ہے۔ اس تقریب میں سعید نقوی اور ایچ ایم نقوی نے گفتگو کی۔

اردو کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں مستنصر حسین تارڑ کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔ اس اجلاس کی مجلس صدارت میں زہرا نگاہ، مستنصر حسین تارڑ، انور مقصود، کشور ناہید، امداد حسینی، طارق رحمٰن، منور سعید، نوری الہدیٰ شاہ، فاطمہ حسن شامل تھیں۔ اس موقع پر آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے اردو زبان، پاکستانی ادب اور ادیبوں کے حوالے سے ہزاروں شرکا کے سامنے آٹھ قراردادیں پیش کیں جنہیں منظور کرلیا گیا۔ سیکریٹری اعجاز احمد فاروقی نے سب کا شکریہ ادا کیا۔اس کے بعد ناہید صدیقی نے کلاسیکل رقص پیش کیا۔ معروف ستار نواز نفیس خان نے ساتھ ساتھ اپنے فن کا جادو جگایا۔ آخر میں مشہور قوال فرید ایاز اور ابو محمد کی قوالی نے ہزاروں شرکا کو وجد اور لطف فراہم کیا۔