ممتا کا ملال، نونہالوں کے آنسو

December 18, 2021

2021 میں کیا ہوا بچوں کے ساتھ؟ سوال ایک، جواب کئی۔ گزرے سال کے ہر دن ہی ایسا لگا، جیسےجگنوؤں اور تتلیوں کی اُڑانیں تھم سی گئیں،خواہشوں کے پرندے اندھی شاخوں پر جاگتے رہے، معصوم ہاتھ دستک دیتے رہے، کم زور سی ڈب ڈب برستی آنکھیں سوال پر سوال کرتی رہیں، ہنستے بچوں کی چلبلا ہٹیں درندوں نے چھین لیں لیکن کہیں سے کوئی روشنی اُمڈ کر نہیں آئی۔ یہ بچے ہمارا کل ہیں۔ ممتا کاملال اور نو نہالوں کے آنسو دیکھتے دیکھتے سال آخری سانسیں لے رہا ہے۔2021 میں معصوم فرشتوں پر کیا گزری، اُن کے لیے کچھ ہوا بھی یا نہیں؟ یہ جاننے کے لیے ملاحظہ کریں زیرِ نظر جائزہ رپورٹ :

آپ کو یہ ننھے ننھے بے شمار ہاتھ دکھائی دے رہے ہیں…؟ کمزور ناتواں بے جان سے ہاتھ، کچھ گورے ،کچھ کالے، کچھ بھورے، کچھ زردی مائل سفید، کچھ اجلے، کچھ میلے ہاتھ…! دیکھیں چند ہاتھوں کی تو ابھی مٹھیاں بھی نہیں کھلی ہیں… آپ کو یہ دستک سنائی دے رہی ہے، ہلکی، بے جان سی دستک…! قصر سلطان کے آہنی دروازے پر دستک دیتے ہوئے بے شمار ہاتھ دیکھیں کچھ ہاتھ تو اتنے چھوٹے اور بے جان ہیں کہ دروازے کے پائیدان تک بھی نہیں پہنچ پا رہے۔ نہیں سنائی دی نا کوئی دستک کوئی آواز کوئی سسکی کوئی گھٹی ہوئی چیخ، کوئی کمزور سی فریاد…! یہ دستک ،ہر فریاد، تازیانہ بن کر احساس کو جگاتی ہی نہیں کیونکہ یہاں تو امیر شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے۔

یہ کن کے ہاتھ ہیں…؟

ان ہاتھوں میں وہ ننھے بے جان ہاتھ ان مردہ نوزائیدہ بچوں کے ہیں ،جنہیں کوڑے کے ڈھیر سے اٹھایا گیا۔ صرف سال 2021 میں کراچی میں ان کی تعداد 400؍کے قریب ہے،جن میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔ ان معصوم لاشوں میں اکثر کو جانوروں نے بھنبھوڑ دیا تھا۔ ادھر ڈویژنل کمشنر حیدرآباد نے اسپتالوں، گلی کوچوں، کچرا کنڈیوں سے ملنے والے زندہ بچوں کی پرورش، علاج، تعلیم یا کسی کو گود دینے سمیت دیگر امور طے کرنے کےلئے ڈپٹی کمشنر حیدرآباد کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ ان بچوں کی بے حرمتی کی وجہ غربت ہو یا گناہ! بہرحال یہ انسانیت کی تذلیل ہے۔

ان بے جان ہاتھوں میں کئی ہاتھ ان بچوں کے بھی ہیں جو خون اور غذا کی قلت کا شکار مائوں کے پیٹ ہی میں فوت ہوگئے اور اس دنیا میں آنکھ نہ کھول سکے۔صرف تھر کے علاقے میں رواں سال میں اب تک 500سے زائدبچے غذائی قلت اور بیماریوں کا شکار ہوکر فوت ہوچکے ہیں۔ مجموعی طور پر ایک سال میں ساڑھے تین ہزار سے زیادہ بچے زندگی کی بازی ہار گئے، ان میں 500؍سے زائد بچے وہ ہیں جو قبل از پیدائش فوت ہوگئے۔

ان دستک دیتے ہاتھوں میں ان بچوں کے ہاتھ بھی شامل ہیں جو بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنی پہلی سالگرہ بھی نہ منا سکے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباََ 1000؍میں سے 535؍بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں اور 1000؍میں سے 49.4؍بچے اپنی پہلی سالگرہ نہیں منا پاتے۔ 1000میں سے 55بجے پانچ سال کی عمر تک ہی پہنچ پائے۔ بچوں کی اموات کا زیادہ تر سبب غذائی قلت، آلودہ پانی اور فضائی آلودگی ہے۔غذائی قلت کا شکار 40.2 فی صدبچے پانچ سال کی عمر میں عمر کے حساب سے کمزوری کا شکار ہیں جبکہ 17.7فی صد بچے مکمل سوکھئے کی بیماری (پروٹین کیلوری مال نیوٹریشن) کا شکار ہیں۔ آلودہ پانی سے بچے ٹائیفائیڈ، ڈائیریا، ہیپااٹائٹس اور پیٹ کے کیڑوں کے امراض کا شکار ہورہے ہیں۔

فضائی آلودگی کی وجہ سے بچوں میں سانس کے امراض اور نمونیہ بہت زیادہ ہے۔ نمونیہ سے ہونے والی اموات کا تناسب رواں سال 1.4 فی صد رہا۔ اس وقت لاہور، فیصل آباد اور کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار کئے جارہے ہیں، ہے کسی کو پریشانی ۔۔۔۔! ہم اب تک پولیو کو شکست نہیں دے سکے۔ ملک کے کتنے ہی علاقوں میں گٹر کی آمیزش والا آلودہ پانی پینے کےلئے استعمال ہورہا ہے۔ آلودہ پانی کیمیکلز ملا، ملاوٹ والا دودھ پی کر بیمار جانوروں کا گوشت کھا کر گٹر کے غلیظ پانی میں اُگی سبزیاں اور انجکشن لگے پھل کھا کر ملاوٹ والے مسالوں میں تیار کئے گئے جانوروں کی آلائشوں سے کشید کئے ہوئے آئل میں پکے کھانے، کھانے کے باوجود بچ جانے والے بچے سڑک اور گلیوں میں کھیلتے ہوئے کبھی آوارہ کتوں کے کاٹنے سے اور کبھی غلط سمت سے آتی ہوئی گاڑیوں کی ٹکر سے اور کبھی ممنوعہ پتنگ کی ڈور کے گلے پر پھر جانے سے اور کبھی بغیر ڈھکن کے کھلے گٹروں میں گر کر فوت ہوجانے والے معصوم بچوں کے ہاتھ بھی ان دستک دیتے ہاتھوں میں شامل ہیں۔

ایک این جی او کی رپورٹ 2021کے مطابق تقریباً 8؍بچے روزانہ زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں، اس سال بھی ہوئے اور کچھ زیادہ ہی ہوئے۔کتنی عجیب بات ہے ہمارے بچے جنہوں نے ابھی اس دنیا کے رنگوں اور روشنیوں کو دیکھنا ہے، تتلیوں کے پیچھے بھاگنا ہے، اپنی معصوم باتوں سے ماں، باپ کو نئی خوشی سے آشنا کرنا ہے۔ جیسے ہی کہیں اکیلے نظر آتے ہیں، نجانے کہاں سے رال ٹپکاتے دو پائوں والے بھیڑیئے نکل آتے ہیں جو بچوں کو جھانسہ دے کر زبردستی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ کبھی ان کے ساتھ ان کے ساتھی بھی ہوتے ہیں اور پھر ان پر انسانیت سوز ظلم توڑا جاتا ہے۔

بچے کو اس بے رحمی سے روندا جاتا ہے کہ زمین و آسمان کانپ اٹھتے ہیں، پھرانہیں زندہ لاش کی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے یا ہلاک کرکے کسی کھیت کھلیان، کسی گندے نالے یا کسی کچرے کے ڈھیر پر پھینک کر اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ہمارے دل خون کے آنسو روتے ہیں۔ ارباب اختیار نوٹس لے لیتے ہیں، میڈیا چیختا ہے، پھر۔۔۔پھر سب خاموش ہوجاتے ہیں کسی دوسرے واقعے کے انتظار میں۔ ایک نظر ڈالیں گزرتے سال میں خیرپور ناتھن شاہ میں ضلعی ہیڈ کوارٹر کے مقام پر 4سالہ بچی سے زیادتی، وہاڑی میں تین ملزمان کی 8سالہ کمسن بچے کے ساتھ زیادتی، لاہور نشتر کالونی اور گوجرہ میں دو کمسن بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی، باندھی کے گائوں خالق راجڑ میں بھیل برادری کی شادی کی تقریب میں 6سالہ بچی سندھیا کو ساجن بھیل اور اس کے دوست نرمل نے لوگوں کی بے خبری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چیز کا لالچ دے کر گنے کے کھیت میں جنسی ہوس کا نشانہ بنا یا اور اس کا گلا گھونٹ کر اسے وہیں کھیت میں پھینک دیا۔

پنڈ دادن خان میں تین افراد کی 10سالہ بچی سے زیادتی، جہلم میں امام مسجد کی 6؍سالہ بچی سے زیادتی، لاہور میں 9؍سالہ بچے سے دکاندار کی زیادتی،چک33 میں 10سالہ بچے سے زیادتی، سمندری چک میں 7؍سالہ بچے سے زیادتی، تاندنیانوالہ میں 4سالہ بچی سے زیادتی، سانگلہ ہل میں 8سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش، محلہ گوجرہ میں 7؍سالہ بچے سے زیادتی، فیصل آباد میں 8؍سالہ بچے سے زیادتی! یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صوبے پنجاب کی ستمبر 2021کے مہینے کی ایک دن کی خبریں ہیں۔ کوئی پکڑا گیا؟ کسی کو سزا ہوئی؟ کسی کے دل میں سزا کا خوف پیدا ہوا…؟

کے پی کے، سمیت ملک بھر میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ رحیم یار خان میں قریبی رشتے دار نے 10؍سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرکے کانوں کی بالیاں نوچنے کے بعد سنسان علاقے میں پھینک دیا۔ پشاور تھانہ متھرا کی حدود میں تین دوستوں نے فیس ماسک بیچنے والے 12؍سالہ بچے کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور قابل اعتراض ویڈیو بنا لی۔ ادھر سندھ میں کنری میں سوتیلے باپ نے بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ دل تھام لیجئے، ہالا پرانا میں ماں کے انتقال کے بعد درندہ صفت باپ نے دو بھائیوں کے ساتھ مل کر 12؍سالہ بیٹی کو ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ بچی اپنے ماموں کے ساتھ تھانے پہنچ گئی۔ آسمان نہیں گرا…! خیرپور ببرلو میں کہانہ کمار کو زیادتی کا نشانہ بنا کر بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ ان سارے بچوں اور ان کے علاوہ ظلم زیادتی کا شکار ہونے والے وہ بچے جن کی کسی نے کوئی خبر نہیں لی۔ان کے ہاتھ بھی ان دستک دینے والے ہاتھوں میں شامل ہیں۔

این جی او ساحل کی رپورٹ کے مطابق جنسی درندگی اور زیادتی کے واقعات میں اس وقت راولپنڈی 295 کیسز کے ساتھ سرفہرست ہے۔ دوسرے نمبر پر بے قصور بچوں کا شہر قصور ہے۔ 2021ء میں اب تک پنجاب میں 58 فی صد کیس، سندھ میں 29 فی صد کیس، کے پی کے میں 17فیصد کیس، اسلام آباد میں 3؍فیصد، آزاد کشمیر میں 18؍فیصد کیسز، بلوچستان میں 53کیسز اور گلگت بلتستان میں 4کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

درندگی کے واقعات میں ملوث افراد کو ہمارے ملک میں سرعام پھانسی کی سزا ہونہیں سکتی اور اکثر عدم ثبوت کی بنا پر مجرم رہا بھی ہوجاتے ہیں۔ انصاف کے تقاضے ایک الگ معاملہ ہے ایسے سانحات کا شکار ہونے والے بچے ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان میں انگزائٹی ، ڈپریشن کے ڈس آڈر میں مبتلا ہوجانے کے بہت زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ ہے کوئی ایسا ادارہ جہاں حکومتی سطح پر ان بچوں کا علاج ہوسکے اور انہیں زندگی کی طرف واپس لایا جائے۔ ان دستک دینے والے ہاتھوں اور پژمردہ چہروں میں ان بچوں کے ہاتھ بھی شامل ہیں جن کے ساتھ زیادتی بھی ہوئی ہے اور ان کی ویڈیوز بھی بنی ہیں اور پھر چائلڈ پورنوگرافی،2021 میں جو ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔

قتل طفلاں کی منادی ہورہی ہے شہر میں

ماں! مجھے بھی مثل موسیٰ تو بہا دے نہر میں

ہم نے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا ہے ہم نے بچوں کے گھروں کو قید خانہ بنا دیا ہے۔ وہ آزادی سے گھر سے باہر کھیل نہیں سکتے، آزادی سے اسکول یا مدرسے نہیں جاسکتے، دکان سے کوئی چیز نہیں خرید سکتے ، شادی بیاہ کی تقریب میں ادھر اُدھر نہیں جاسکتے، رشتوں کا اعتبار کھو گیا ہے۔ وقت سے پہلے ہم نے انہیں خدشات بھری نصیحتوں کے حصار میں جکڑ دیا ہے، مگر وہ پھر بھی غیر محفوظ ہیں۔

ان دستک دیتے ناتواں ہاتھوں میں دو ہاتھ اس معصوم بچی کے بھی ہیں جس کو ظالم جعلی پیر نے جن نکالنے کے بہانے پہلے مارا اور پھر اس کے جسم کے کچھ حصوں کو آگ سے جلا دیا ان ننھے ہاتھوں میں دو ہاتھ مظفر گڑھ کی 3؍سالہ بیمار عمیرہ کے بھی ہیں جس کو اس کی ماں اور دادی دم کرانے پیر کے پاس لے کر گئی تھیں۔ جعلی پیرنے جن نکالنے کا کہہ کر بچی کو دیوار پر دے مارا ،جس سے معصوم عمیرہ دم توڑ گئی۔ ہے کوئی، تعویذ گنڈے اور جعلی پیرفقیروں کے خلاف ایکشن لینے والا۔ دستک دینے والے ہاتھوں میں دفن ہونے والی بچیوں کے ہاتھ بھی شامل ہیں جو اپنی پیدائش سے پہلے ہی ونی کردی گئیں۔ ان ہاتھوں میں نوابشاہ کے گائوں علی نواز چانڈیو کی 12سالہ صائمہ اور 8سالہ بہن فائزہ کے بھی ہیں جنہیں ’’کاریو آھیو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے کاری ثابت کرکے فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔

2021ء کے’’گلوبل ہنگرانڈس ‘‘کے مطابق(بچوں کی حالتِ زار 116؍ممالک میں پاکستان کا 92 نمبر پر ہے اس کا اسکور 24.7ہے اس طرح پاکستان کا درجہ تشویشناک یا سنگین ممالک میں آتا ہے۔ ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے تو غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے ملک میں چار کروڑ بچے انتہائی مفلسی کا شکار ہیں۔ ہر تین میں سے ایک بچہ ہر طرح کی سہولت سے محروم ہے۔ ملک میں کچرا چننے والے اور بھکاری بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ان دستک دیتے ہاتھوں میں بھکاری بچوں کے ہاتھ بھی شامل ہیں۔

شیخوپورہ میں عید کے کپڑے مانگنے پر بے روزگار بے بس باپ نے اپنے چار بچوں کو نہر میں پھینک دیا ان بے بس ہاتھوں میں 8؍ہاتھ ان چار بچوں کے بھی شامل ہیں۔ ادھر مالی مشکلات میں گھری بیوی نے دو بچوں کے ساتھ دریا میں کود کر خودکشی کرلی۔ لاہور میٹرو اسٹیشن کے واش روم میں باپ نے بیٹی کو قتل کرکے پھینک دیا اور کہا کہ بیٹی بوجھ تھی ۔گزرتے سال نےغربت کی وجہ سے والدین اپنے بچے بھی فروخت کیے۔ قصور میں الہٰ آباد کے گائوں گہلن پنھاڑ کے نزدیک شریف نامی باپ نے اپنی 6؍ماہ کی بچی کو گلا دبا کر ہلاک کردیا اور گھر کے صحن میں دفن کردیا کیونکہ اس کے پاس بچی کے علاج کے پیسے نہیں تھے۔

ان بے کس ہاتھوں میں دوہنر مند ہاتھ اس 12؍سالہ لڑکے کے بھی ہیں جو روہڑی ریلوے اسٹیشن پر چلتی ٹرین کے انجن سے انتہائی مہارت کے ساتھ بریک بلاک نکالتا ہوا ویڈیو میں دیکھا گیا اور پھر پکڑا گیا۔ یہ اس بچے کی تفریح نہیں تھی۔ وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکرتھوڑے سے پیسے حاصل کرنے کےلئے جان ہتھیلی پر رکھ کر چوری کرتا تھا۔ ان ہاتھوں میں رحیم یار خان کے 2سالہ بچے کے ہاتھ بھی شامل ہیں جسے اس کے باپ نے روٹی روٹی کہتے ہوئے پھندا لگا کر مار ڈالا ،کیونکہ وہ غریت اور بے روزگاری سے تنگ تھا۔

ان دستک دیتے لرزتے ہاتھوں میں ان معصوم بچوں کے ہاتھ بھی شامل ہیں جو تمباکو، صمد بانڈ اور نسوار جیسے نشوں میں مبتلا ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف اپلائیڈ سائنسزکی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 6سال کی عمر کے بچوں میں بھی تمباکو نوشی کے عادی ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ لمحہ فکر کس کے لیے؟ ان ہاتھوں میں لاہور میں منشیات کے جعلی کیس میں 8ماہ سزا بھگتنے کے بعد رہائی پانے والے سالہ محمد علی کے دو ہاتھ بھی شامل ہیں، جو اپنی زندگی کے 8ماہ واپس مانگ رہا ہے۔ ان زردی مائل سفید دستک دیتے ہاتھوں میں دس ہزار ہاتھ ان بچوں کے بھی ہیں جو سالانہ پاکستان میں تھیلیسیمیا کی بیماری کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں یہ کامن جینٹک ڈس آرڈر ہے ،جس کےلئے قانون بنا کر شادی سے پہلے خون کا ٹیسٹ کروا کر بچائو ممکن ہے۔ ہے کوئی سنجیدہ…؟

تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ EPI پروگرام کے تحت بچوں کو لگائے جانے والے حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے جو 5مہلک امراض بظاہر ختم ہوگئے تھے، ان میں سے بعض بیماریاں دوبارہ سر اٹھا رہی ہیں، جن میں خسرہ، روبیلا کے ساتھ خناق اور تشنج بھی شامل ہیں۔ یااللہ رحم… کاش والدین بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے معاملے میں سنجیدگی اختیار کریں اور ہر ویکسین مہم میں ہدایت کے مطابق بچوں کو ٹیکے لگوائیں۔کیا آپ کو علم ہے کہ علاج معالجے تک رسائی میں ہم 195ممالک میں 154ویں درجے پر ہیں۔

ان دستک دیتے بے شمار ہاتھوں میں تعلیم سے محروم اُن لاکھوں بچوں کے ہاتھ بھی شامل ہیں جنہوں نے اسکول کی شکل نہیں دیکھی ان میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔

یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 60 فی صد ہے اور اس میں ہم 200 ممالک میں نیچے سے 18ویں درجے پر ہیں۔ 5-16سال کی عمر کے بچوں میں اسکول سے محروم آبادی میں ہمارا نمبر دوسرا ہے۔ بلوچستان میں 60فی صدبچے تعلیم سے محروم ہیں۔ سندھ میں 51فی صد بچے، پنجاب میں 30فی صد بچے اور کے پی کے میں 45؍فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔

دنیا میں g) ECL ,(Early Childhood learninجو 3ماہ کی عمر سے 2سال کی عمر کے بچوں کو دی جاتی ہے، رواج بڑھ رہا ہے جب کہ ہمارے یہاں اس طرح کی تعلیم کا کوئی تصور ہی نہیں دوسری جانب اسکول نہ جانے والےمیں 44؍فی صدبچوں کی وجہ سے ہم دوسرے نمبر پر ہیں۔ ہمارے 5-16؍سال کی عمر کے 22.8 فی صدبچے آئوٹ آف اسکول ہیں۔ درسی کتب کا بروقت میسر نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہے، مگر اس سے بھی بڑا مسئلہ اسکولوں خصوصاً سرکاری اسکولوں اور مدرسوں میں بچوں کے ساتھ مارپیٹ اور تشدد ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ اپنی ناآسودگیوں کا بدلہ بچوں پر تشدد کرکے لیتے ہیں۔ سبق یاد نہ کرنے پر شدید جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں، اسی طرح مدرسوں میں بھی بچوں کے ساتھ متشدد رویہ رکھا جاتا ہے۔

حیرت ہے کہ سبق یاد نہ کرنے پر معصوم بچوں کو مارپیٹ کے ساتھ زنجیروں سے باندھ دینا یا الٹا لٹکا دینا جیسی سزائیں دی جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں اسلام کوٹ میں معلم نے بچے پر سبق یاد نہ کرنے پر تشدد کیا ،جس کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے تفتیش شروع کی۔ گزرتے برس بچوں پر تشدد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ان بچوں کے اسکول یا مدرسے سے بھاگ جانے کی وجہ بھی تعلیمی اداروں میں تشدد ہے۔ اب سے 40؍برس پہلے سوئیڈن وہ پہلا ملک تھا جہاں بچوں کو جسمانی سزا دینا ممنوع قرار پایا۔ اب تک 54؍ممالک ایسے ہیں جہاں اس ضمن میں قوانین نافذ کئے گئے ہیں اس طرح کا ایک بل بچوں کو جسمانی سزا دینے کے خلاف قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا ہے جس کی منظوری سینٹ سے ہونا باقی ہے۔

ہمارے ملک میں معصوم بچوں پر کتابوں اور بستوں کے بوجھ کے ساتھ امتحان دینے کا طریقہ رائج ہے ادھر چین میں 7؍سال کی عمر تک کے طلبا سے امتحان لینے پر پابندی ہے کیونکہ امتحانات میں سخت مقابلے کے دبائو کی وجہ سے بچے ذہتنی دبائو میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما پر برے اثرات پڑتے ہیں۔

پاکستان میں تعلیمی بجٹ انتہائی کم ہے پھر سندھ حکومت نے 5000؍ اسکول بند کردینے کی نوید سنا دی ۔ معصوم فرشتو…! ہم شرمندہ ہیں۔

یہ معصوم بچے جن کے آنسو ان کے گالوں پر خشک ہوچکے ہیں، ان کی سسکیاں ان کے اندر دم توڑ رہی ہیں۔ ان کے اونچے ایوانوں کے دروازوں پر دستک دیتے ہاتھ تھک چکے ہیں۔ ان ہاتھوں کی دستک مدھم ہوتی جارہی ہے۔ اس سے قبل کہ یہ دستک خاموش ہوجائے، آہیں اور سسکیاں کسی کو بھی سنائی نہ دیں، آرزویں، تمنائوں سے مل کر چپ سادھ لیں۔ مایوسی اور دکھ میں بھیگی آنکھیں ساکت ہوجائیں۔ ہمارے بچے ہمارا اثاثہ ہم سے جگنوئوں اور تتلیوں کی طرح روٹھ جائیں ہمیں آگے بڑھنا ہوگا ۔ان کے ہاتھوں کو تھامنا ہوگا ان معصوموں کی آواز بننا ہوگا۔

ہمارے بچے ہمارے لئے آکسیجن کی مانند ہیں لیکن جب معاشرہ آکسیجن سے بے نیاز ہوجائے گا تو زندہ کیسے رہے گا؟ جینا ،مرنا بننا بگڑنا ،ِکھلنا مرجھانا، طلوع اور غروب سب فطرت ہے، مگر بچوں کو صرف ہنسنا، زندہ رہنا اور آگے بڑھنا ہوتاہے۔ ہمیں ندامت نہیں جرات کی ضرورت ہے۔ ہمیں تحمل، برداشت اور محبت کے ساتھ ان بچوں کی آواز بننا ہے۔ حالات بہت تکلیف دہ ہیں یاد رکھیں ہماری آنکھیں جن مناظر دکھوں اور تکلیفوں کو پوری طرح دیکھ اور محسوس نہیں کرسکیں، ہماری روح تک وہ ہی رسائی حاصل کرتے ہیں۔ ہمیں بیدار کرکے حوصلہ دیتے ہیں۔

ہمیں اپنے بچوں، اپنے مستقبل کو غیر یقینی صورتحال سے نکالنا ہوگا۔ ان کےلئے محفوظ، منصفانہ اور صحت مند زندگی کو یقینی بنانا ہوگا، ان کی ضروریات اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔ ہم سب مر جائیں گے، مگر ہمارے بچے اور ان کے بچے تو اسی دنیا میں زندہ رہیں گے تو پھر کیوں نہ انہیں صاف ستھری پاکیزہ کثافت سے پاک دنیا سونپ کر آگے بڑھا جائے۔ آگے بڑھیں اور کچھ عملی اقدامات کریں انہیں انصاف، خوشی، آسودگی اور تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کریں۔

آیئے2022کےآغاز میں ان ننھے منے ہاتھوں کو تھام لیں، ان کی دستک کو غور سے سنیں۔ ان کے آنسو پونچھ لیں، ان کی تربیت کریں۔ ماں، استاد، مدرسہ اور معاشرہ سب مل کر کوشش کریں ان کےلئے ، بس وقت علم پختہ ارادہ اور عمل چاہئے۔

میرے بچو…!

ابھی تم تھک نہیں جانا

ابھی تو سفر باقی ہے

ابھی تو راہ کے پتھر

تمہیں اور آزمائیں گے

ابھی تو ٹوٹ کر تم کو

تنہا اک شخص بننا ہے

ابھی تو معمولی کنکر سے

تمہیں یاقوت بننا ہے

کسی کو خبر ہے علیشاہ کی کہ وہ کس حال میں ہے؟

کشمور کی زیادتی کا شکار ہونے والی علیشاہ کو تو کوئی بھول ہی نہیں سکتا جس نے پولیس افسر سے کہا تھا انکل! دیکھیں انہوں نے میرے ساتھ کیا کیا ہے…؟ علیشاہ نے صرف فریاد جمع نہیں کروائی بلکہ اس نے اس بھوکے معاشرے کو آئینہ دکھایا تھا، دو پائوں والے جانوروں پر مشتمل معاشرے کے منہ پر طمانچہ مارا تھا کسی کو محسوس ہوا… علیشاہ کے کیس میں اے ایس آئی نے جس طرح بہادری دکھائی اور اپنی بیٹی کو خطرے میں ڈال کر ملزمان کو گرفتار کیا، حکومت پاکستان نے اس کےلئے تمغہ شجاعت کا اعلان کیا ۔یہ بہت اچھی بہت بڑی بات ہے لیکن کہیں اس علیشاہ کی بھی کسی کو خبر ہے کہ وہ کس حال میں ہے؟ وہ ایک نارمل انسان کی طرح بڑی ہوسکے گی؟ اس دنیا میں اعتبار اور اعتماد کے ساتھ کھڑی ہوسکے گی…؟

قومی اسمبلی نے بچوں پر تشدد کے خلاف بل منظور کیا

اسکولوں میں پڑھائی میں کمزور، آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے یا ڈسپلن کی خلاف ورزی پر بچوں کو ناروا سزائیں دینے کا چلن عرصہ دراز سے چلا آ رہا ہے۔ تعلیم و تدریس ایک مقدس اور مہذب پیشہ ہے۔ قابل ذمہ دار اور شفیق اساتذہ بچوں میں حصول علم کا شوق پیدا کرنے کےلئے تشدد نہیں ترغیب سے کام لیتے ہیں، جہاں تک کام کی جگہوں کا تعلق ہے تو پہلے تو بچوں سے جبری مشقت لینا ہی جرم ہے لیکن مجبوری میں وہ کہیں کام کرتے ہیں تو ان سے محبت شفقت اور نرمی سے پیش آنا چاہئے۔

قومی اسمبلی نے 2021میں بچوں پر جسمانی تشدد کی ممانعت کا بل منظور کیا ، جس کے تحت تعلیمی اداروں اور کام کرنے کی جگہوں پر بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی ہو گی۔ بل میں جسمانی سزا یا تشدد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ، کسی بھی نوعیت کی تکلیف یا درد پہنچانا قابلِ سزا تصور کیا جائے گا۔ اس میں بچوں کو تھپڑ مارنا، چابک، چھڑی، جوتے، لکڑی یا چمچے سے پٹائی کرنا۔

ٹھڈا مارنا، جھنجوڑنا، بالوں سے پکڑنا، کان کھینچنا، تکلیف دہ حالت میں رکھنا، ابلتا پانی ڈالنا، جبری غذا کھلانا، توہین و تضحیک وغیرہ بھی شامل ہے جو قابلِ سزا جرم ہوگا۔ تشدد کے مرتکب شخص کو ملازمت کی معطلی، تنزلی، برخاستگی، جبری ریٹائرمنٹ جیسی سزا دی جا سکے گی اور وہ مستقبل میں بھی کسی ملازمت کا اہل نہیں ہو گا۔ اس سلسلے میں شکایات کے اندراج کےلئے مجسٹریٹ کا تقرر کیا جائے گا۔

پاکستان میں دو کروڑ بچے اسکول سے باہر، پاک الائنس فور میتھ اینڈ سائنس کی رپورٹ

’’پاکستان میں32 فی صد یعنی 5سے16 سال کی عمر کے دو کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جس کے باعث ہمارا ملک دنیا کے ان ممالک میں دوسرے نمبر پر آتا ہے ، جہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد اسکول نہیں جاتی۔اسکولوں سے باہر بچوں کا سب سے زیادہ تناسب پلوجستان میں47ہے، جبکہ سندھ میں44 فی صد،خیبر پختونخوا میں 32فیصد ، پنجاب میں 24فیصد ، اسلام آباد میں 10فی صد بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں‘‘۔ یہ رپورٹ پاک الائنس فور میتھ اینڈ سائنس نےThe Missing Third کے عنوان سے جاری کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسکول نہ جانے والے 5سے 16سالہ کی عمر کے ان دوکروڑ بچوں میں سب سے زیادہ یعنی تقریباً77 لاکھ بچے پنجاب میں موجود ہیں ۔ جس کے بعد سندھ میں 64لاکھ 82ہزار سے زائد، خیبرپختونخوا میں 38لاکھ ، بلوچستان میں 20لاکھ،جبکہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں 52ہزار بچے اسکول نہیں جاتے۔ان میں54فی صد لڑکیاں جبکہ 46فی صد لڑکے ہیں ۔ 77فی صد کا تعلق دیہی علاقوں سے، جبکہ شہری علاقوں میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح 23فی صدہے ۔ اسکول نہ جانے کی جو وجوہ دی ’’مسنگ تھرڈ ‘‘ رپورٹ میں سامنے آئیں اس میں 87فی صد نے پہلی وجہ مہنگی تعلیم ، جبکہ 13 فیصد نےگھریلو، خاندانی وغیرہ بتائیں، جبکہ جن بچوں نے اسکولوں میں داخلے کے کچھ عرصے بعد تعلیم کو خیر باد کہا ، ان میں 31فیصد نے اسکول نہ جانے کےلیے راضی نہ ہونے کا کہا ۔

13فی صد نے گھر اور کام میں والدین کی مدد کرنے ، 11فی صد نے والدین اوربڑوں کی جانب سے اجازت نہ ملنے، جبکہ 6 فی صد نے گھر سے اسکول کو دور بتایا۔ 20فیصد نے دیگر وجوہات بتائیں ۔ 5سال کی عمر تک کے 100فی صد بچوں نے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی ہے ۔اس کے علاوہ اسکولوں میں داخلے کی شرح 5سے 9سال کی عمر تک کے بچوں میں بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن 9سے 11سال کے بعد تعلیم کو ترک کرنے والے بچوں کی شرح میں اضافہ ہوا۔

غربت اور مفلسی کا مقابلہ خیراتی پروگراموں سے نہیں کیا جاسکتا

ان دستک دیتے ہاتھوں میں گندے میلے ہاتھ 8سے 12سال کے ان بچے اور بچیوں کے ہیں، جنہیں ان کے والدین نے گھروں میں کام کرنے، چائے خانے یا گیراج میں کام کرنے کےلئے چھوٹے اور چھوٹیاں بنا دیا ہے، جہاں ان پر ہر طرح کا تشدد ہوتا ہےلیکن غربت کی وجہ سے والدین دل پر پتھر رکھ لیتے ہیں، ان ہاتھوں میں ایک ہاتھ ورکشاپ پر کام کرنے والے 8سالہ بچے کا بھی ہے ، جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ استاد نے آرا مشین میں دے دیا کیونکہ بے وقوف بچہ تنخواہ کا تقاضا کررہا تھا۔

کیا صرف لنگرخانے غربت کا علاج ہیں؟ کیا اس طرح وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا علاج ممکن ہے؟ ارباب اختیار تو بڑے اطمینان سے فرماتے ہیں کہ دو کے بجائے ایک روٹی کھا لو، کھانا کھاتے ہوئے 9نوالے کم کردو۔ چائے کے کپ میں 9 دانے چینی کم ڈال لو، کتنا سہل علاج ہے۔ سوچیں غربت کیا ہے، تعلیم، دوا، روزگار، انصاف اور احترام سے محرومی غربت ہے اور اس محرومی سے نجات کا اختیار نہ ہونا بھی غربت ہے، جو صرف اور صرف سنجیدہ اقدامات سے ہی دور ہوسکتی ہے۔ غربت اور مفلسی کا مقابلہ خیراتی پروگراموں سے نہیں کیا جاسکتا۔

سسکتی آوازیں ، گھٹی گھٹی چیخیں

سال 2021 میں پورے سندھ میں سنگ گزیدگی کے واقعات میں خطرناک اضافہ ہوا۔ خیرپور میں پاگل کتے نے پہلی جماعت کے طالب علم معصوم علی کاٹھور پر حملہ کرکے اسے شدید زخمی کردیا۔ ہالا میں دو بچوں کو آوارہ کتوں نے کاٹ لیا۔ حیدرآباد میں اسکول جانے والی بچی کو کتے نے بھنبھوڑ ڈالا۔ ہر طرح کے درندے ملک میں دندناتے پھرتے رہے۔ ہے کوئی فکرمند…! گٹر کے ڈھکن ہم لگا نہیں سکتے، ٹریفک ہم کنٹرول نہیں کرسکتے۔

قاتل پتنگ کی ڈور بنانے والے کو ہم تلاش نہیں کرسکتے اور کتوں کو ختم کرنے کا ارادہ کرتے ہی جانوروں کے حقوق کےلئے کام کرنے والی تنظیمیں آگے آجائیں، اس طرح کے حالات ملک کے پوش علاقوں میں نہیں ہیں تو پھر ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا، ان دستک دیتے کمزور ہاتھوں، سسکتی آوازوں اور گھٹی ہوئی چیخوں میں ان بچوں کے ہاتھ اور فریادیں بھی شامل ہیں جو تشدد اور زیادتی کا شکار ہوئے۔