ٹرمپ گئے طالبان آئے

January 01, 2022

سال 2021 ہمیشہ کی طرح ایک نئ امید لے کر طلوع ہوا لیکن غروب ہونے کے بعد ایک نہیں کئی اُمیدیں دم توڑ گئیں۔2021ماضی سے تھوڑا مختلف رہا۔ کرونا کے وار پر وار اور موسمی تغیرات نے پوری انسانیت کوپریشان اور کرہ ارض کی سلامتی کےلئے خدشات پیدا کر دیئے۔ سال کے آغاز میں کورونا کا چرچا تھا، کہا گیا کہ اس وبا سے دنیا بدل گئی اب مزید بدلے گی۔ہاں دنیا بدلی ہے۔ دنیا کو ایک صدمہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اٹھانا پڑا، خاص طور پر امریکی سیاست اور جمہوریت کا جہاز ہچکولے کھانے لگا تھا، پھر ان ہی کےدور میں کرونا وائرس ایک خوفناک عفریت بن کردنیا پر حملہ آور ہوا۔

جس نے دنیا کی سیاست، معیشت اور معاشرت کو تبدیل کر دیا۔ سال ختم ہوا مگر کوویڈ ختم نہیں ہوا ،اس کی تباہ کاریاں ہر بار نت نئی شکل میں انسانیت کو نقصان پہنچا تی رہیں۔ دنیا کو کھربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ معمولات اور طرز زندگی تبدیل کر دی۔ کہا گیا کہ انسان اپنے بچائو کا سامان کر لے۔لوگوں نےکورونا کے ساتھ ساتھ اس کرہ ارض کے قدرتی ماحول میں بدلائو اور موسمی تغیرات کی تباہ کاریاں بھی سہیں، کبھی ایمزون کے جنگلات میں آگ لگی تو کبھی آسٹریلیا کےجنگلات میں ۔گلوبل و ارمنگ کی شدت میں تیزی آئی۔

دنیا کے مختلف حصوں میں ہیٹ وے نے ایک طرح سے دنیا کو جھلسا ڈالا۔یہاں تک کے کینیڈا کے شمال مغربی شہر وینکور اس کے اطراف کے علاقوں جن میں الاسکا اور شمالی امریکا کے چند شہر شامل ہیں۔ 2021 میں عالمی منظر نامہ کیسا رہا، مختصر جائزہ نذرِ قارئین ہے۔

جنوری2021 میں امریکا کے نئے منتخب صدر جوبائیڈن نے وائٹ ہائوس میں قدم رکھا۔ تو انہوں نے پہلی فائل جس پر دستخط کئے وہ صدر ٹرمپ کے دور میں ماحولیات کی عالمی کانفرنس میں کیے گئے۔ معاہدے سے امریکاکی علیحدگی کے اعلان سے متعلق تھی ۔ صدر بائیڈن نے امریکا کا دوبارہ پیرس معاہدہ میں شمولیت کا اعلان کیا، اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ قدرتی ماحول میں بگاڑ کتنی خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ہے۔

جنوری ہی میں صدر بائیڈن کی وائٹ ہائوس میں تقریب حلف برداری میں سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں نے جو طوفان بدتمیزی مچائی اور امریکی جمہوریت اور سیاست کے چہرہ کو داغدار کیا یہ باب2021میں امریکی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ صدر جوبائیڈن کی صدارت کے اولین سو دن ہنی مون میں نہیں گزرے، بلکہ ایک طرح سےکانٹوں کی سیج پر انہوں نے یہ دن گزارے۔

وہ اس طرح کے ایک طرف ان پر حزب اختلاف اور ٹرمپ کے حامی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگاتے رہے تو دوسری طرف معیشت اور بیروزگاری کے مسئلے پر احتجاج ہوئے۔ اس طرح وہ صدر ٹرمپ کے پھیلائے ہوئے کوڑے کرکٹ کو صاف کرتے رہے۔ کرونا کا مسئلہ بھی امریکا میں عروج پر تھا ،ویکسین کی تیاری کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔اس دور میں بھارت میں بھی کوویڈ19نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ۔ہر چند کہ بھارت ویکسین بنا چکا تھا مگر اس کی اہم طبی اداروں کی طرف سے منظوری نہیں ملی تھی۔ بھارت نے کوویڈ سے بہت نقصان اٹھایا اور سال کے آخر میں وائرس کی نئی شکل بھی سامنے آ گئی ۔

سال 2021میں گروپ سیون کی روم میں کانفرنس کے ایجنڈے پر ماحولیات میں سدھار اور آلودگی میں کمی سر فہرست تھے جس میں بعض اہم فیصلے کئے گئے تھے جو تادمِ تحریر سامنے آ رہے ہیں۔ روس کے حوالے سے بھی گروپ سیون میں بات ہوئی کہ روسی سائبر حملے کر کے امریکی انتخابات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے 2021کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں دنیا کے رہنمائوں کو خبردار کیا کہ پوری انسانیت کو مختلف مسائل درپیش ہیں، جن کو دور کرنا ضروری ہے۔

ان مشکلات اور مسائل میں سر فہرست دنیا کے بیش تر ممالک خاص طور پر افریقی ممالک میں خوراک کی کمی کا مسئلہ ہے ،جو شدت اختیار کیا جا رہا ہے۔ تارکین وطن کا مسئلہ بھی گزرتے برس بہت بڑا انسانی مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ شام، عراق، لبنان، افریقی سب صحارا اور جنوبی ایشیا کے ہزاروں تارکین وطن قانونی طور پر یورپی ممالک کی طر ف ہجرت کر رہے ہیں۔

موسمی تغیرات کا مسئلہ انسانیت کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ چائلڈ لیبر اور بچوں کی اسمگلنگ بھی بڑا انسانی مسئلہ ہے۔ علاوہ ازیں بیش تر ممالک میں مذہبی منافرت اور قبائلی نسلی تفرقہ بازی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا کے سماجی سائنس دانوں کی اکثریت نے2021میں مختلف کانفرنسوں میں خبردار کیا کہ دنیا کا نمبر ون مسئلہ دنیا کی آبادی میں بے ہنگم ،بے ترتیب اضافہ ہے، جبکہ قدرتی وسائل میں کمی اور پینے کے صاف پانی میں بھی کمی ہورہی ہے۔ آبادی میں اضافہ سے مختلف مسائل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، مگر اس جانب توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

سال کے آخرمیں برطانیہ کے شہر گلاسگو میں دنیا کے تمام سربراہوں کی دو روزہ کانفرنس جو یو این او کی 26ویں سالانہ کانفرنس تھی، اس کا ایک نکاتی ایجنڈا تھا، ’’کرہ ارض کا تحفظ ‘‘اس دو روزہ کانفرنس میں ماحولیات میں سدھار لانے ،درجہ حرارت میں اضافہ 1.2ڈگری کی سطح پرروک کر رکھنا اور آلودگی میں بتدزیج کمی کرنا تھی۔ اس عالمی کانفرنس کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے’’ گرین امریکا گرین دنیا ‘‘کا نعرہ اور 2021 کوماحولیات کا سال قرار دیا، یہی نہیں بلکہ صدر بائیڈن نے پچاس ہزار سے زائد نئی ملازمتیں پیدا کیں،جن کو’’ گرین جابس‘‘ کا عنوان دیا گیا۔

ان ملازمین کے لیے قدرتی ماحول کو تحفظ فراہم کرناتھا۔ صدر جوبائیڈن قدرتی ماحول میں بگاڑ، موسمیات میں غیر معمولی تبدیلیوں کےعمل کو گہری تشویش سے دیکھتے ہیں۔چین سے گزشتہ مہینوں میں یہ خبریں آ رہی تھیں کہ وہاں بجلی کی کا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ اب اس کی تصدیق ہو چکی ،دسمبر2021 میں چینی صدر شی پنگ نے ٹی وی تقریر کے ذریعہ مشورہ دیا کہ وہ کچھ دنوں کا راشن اپنے گھروں میں جمع کر لیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ بجلی کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے بیش تر کارخانے بند ہو رہے ہیں۔اور اشیاء خوردونوش کی کمی ہو رہی ہے۔ بجلی کی پیدوار میں کمی کا ایک سبب قدرتی کوئلہ کی فراہمی میں کمی ہے ۔کوئلہ کی کانیں بند ہو رہی ہیں ان میں اب کوئلہ نہیں ہے اس لئے چین نئی کالونی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

ٹریڈ اور اکنامکس کے ماہرین کہتے ہیں کہ، کسی بھی منصوبہ کی شروعات کرنے سے قبل کم از کم پچاس برس کی رپورٹ تیار کر لو۔ چین نے ارزاں بجلی اور ارزاں افرادی قوت کے بل بوتے پر مغربی صنعتی اداروں کو چین کی طرف مائل کیا اور بڑے بڑے صنعتی ادارے چین منتقل ہوئے جس سے چین نے نہ صرف سرمائے سے بلکہ ان اداروں کی ٹیکنالوجی سے بھی فائدہ اٹھایا، اس طرح بجلی کی کھپت میں اضافہ ہوا اور اب بجلی کی کمی کا مسئلہ سامنے آرہا ہے، مگر چینی قوم محنتی ہی نہیں ،ذہین بھی ہے وہ جلد اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کر لے گی۔ویسے چین میں سولر انرجی پر بھی تیزی سے کام ہو رہا ہے اور متبادل بھی تلاش کئے جا رہے ہیں۔

2021 میں عالمی میڈیا میں کرونا وائرس ،قدرتی ماحول اور موسمی تغیرات، افغانستان طالبان، چین کے اسلحہ خانوں میں جدید ہتھیاروں اور میزائلوں میں اضافے کی خبریں عام رہیں۔ اس کے علاوہ چین تائیوان تنازع ،مشرق یورپ میں یوکرین پر روس کا سیاسی عسکری دبائو اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے غیر ملکی دوروں کی خبریں آتی رہی ہیں۔

وینزویلا، میں ایک عرصےسے جاری سیاسی کشمکش اور ایمیزون کے جنگلات میں بھڑکی شدید آگ اورچین کی ان ممالک میں سرمایہ کاری کاذکربھی نمایاں رہا۔ امریکا کے مشرقی اور جنوبی ساحلوں پر واقع کیربیین جزائر، کیویا میں چین کی سرمایہ کاری اور امریکی دفاعی اور سیاسی حلقوں میں بےچینی نظر آئی۔ ان حلقوںکو تشویش ہے کہ اس طرح چین امریکی بحری سرحدوں کے قریب اپنے اڈے تعمیر کرنا چاہتا ہے، تاہم چین نے اس رائے کورد کر دیا ہے۔

امریکی صدر بائیڈن نے منصب سنبھالنے کے بعد یورپی یونین کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں، خاص طور پر فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے رہنمائوں سے قریبی تعلقات قائم کرنے اور سابق صدر ٹرمپ کی یورپی پالیسی کو دور کرنے کی کوششیں کیں، جس کی وجہ سے بڑی حد تک امریکا اور یورپ کے مابین بہتر تعلقات دکھائی دیئے۔ یورپ بالخصوص نیٹو ممالک اور امریکا سے اس لئے شدید ناراض تھے کہ ،سابق صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورہ یورپ میں نیٹو ممالک پر یہ واضح کر دیا تھا کہ ہر ملک نیٹو کے اخراجات پورے کرنےکےلئے اپنا اپنا حصہ ڈالے، امریکا پر انحصار نہ کریں، پھر ٹرمپ کا نعرہ ’’ امریکا فرسٹ ‘‘نے بھی یورپین کو ناراض کیا،تاہم امریکی صدر جوبائیڈن نےکشیدگی کم کی ہے۔ یورپ میں جرمنی ایک اہم معاشی اور سیاسی طاقت ہے۔

اس سال جرمنی کی سابق چانسلر انجیلا مرکل میڈیا میں نمایاں رہیں، انہوں نے غیر قانونی تارکین وطن کےلئے نمایاں کردار ادا کیا تھا اور سیاست سے زیادہ انسانیت کوتر جیح دی تھی۔ اسی سال جرمنی میں انجیلا مرکل کی پارٹی کو عام انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی نے خاصا نقصان پہنچایااور ان کی پارٹی کرسچن ڈیمو کریٹک یونین کو کم ووٹ ملے، ایسے میں انہوں نے اعلان کردیا کہ وہ پانچویں باری کےلئے چانسلر کے الیکشن میں شریک نہیں ہوں گی اب وہ سبکدوش ہو چکی ہیں۔

جرمنی کی دائیں بازو کی جماعتیں، تارکین وطن کے مسئلے پر انجیلا مرکل کے شدید مخالف ہو گئے۔ ان رجعت پسندوں کی دلیل ہے کہ تارکین وطن جرمن معاشرے کو بگاڑ دیں گے۔ انجیلا جس مسئلے کو انسانی مسئلہ کہتی ہیں وہ درحقیقت سیاسی اور معاشی مسئلہ ہے۔ دائیں بازو کے حلقوںکا استدلال یہ ہے کہ غیر قانونی تارکین یورپی ملکوں پر یلغار کرنے کے بجائے اپنی حکومتوں اور رہنمائوں پر یلغار کریں، ان کی کرپشن، نااہلیت اور خودغرضی کی وجہ سے یہ ممالک پسماندہ ہیں۔ مغربی امداد ان کرپٹ رہنمائوں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ یورپی ممالک کو اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا ہو گا۔

2021 میں افغانستان اور طالبان کا مسئلہ بھی بہت نمایاں رہا۔ اگست میں طالبان نے افغانستان میں اپنی عبوری حکومت تشکیل دی۔ایسا اچانک یوں ہوا کہ دوحہ قطر میں امریکہ، طالبان مذکرات کے بعد امریکا اچانک افغانستان سےنکل گیا، طالبان نے نہ صرف اس خلا کو پُر کیا بلکہ کابل میں اپنی حکومت بھی تشکیل دے دی، تاہم میڈیا میں افغانستان کی معاشی پوزیشن اور وہاں عوام کو درپیش سنگین مسائل کا ذکر نمایاں رہا۔

وہاں خوراک کی شدید کمی ہے، کہا جاتا ہے کہ آدھی سے زائد آبادی قحط کا شکار ہے، خاص طور پر بچوں کی حالت نازک ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے عالمی برادری کی توجہ اس مسئلے کی طرف دلاتے ہوئے کہا کہ، افغانستان کو خوراک کی فوری ضرورت ہے اور امریکا کو چاہئے کہ وہ انسانی بنیادوں پر افغانستان کے منجمد اثاثوں کو کھول دے، ورنہ خدشہ ہے کہ وہاں کوئی بڑا انسانی المیہ رونما نہ ہو جائے۔

طالبان حکومت نے عالمی برادری کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ نوے کی دہائی کی افغان مجاہدین حکومت کی پالیسی نہیں اپنائی جائے گی، مگر مغربی ممالک کا رویہ تاحال سرد مہری پر مائل ہے۔ بھارت نے گزشتہ دنوں افغانستان میں کانفرنس کے انعقاد کا عندیہ دیا تھا، مگر اس ضمن میں مغربی ممالک کا کردار زیادہ اہم ہے۔

پاکستان نے ، افغانستان کی صورتِ حال پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا،جس میں’’70‘‘ وفود شریک ہوئے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اجلاس میں شرکت کی ۔ اسلامی ممالک افغانستان کی امداد پر متفق ہوئے۔فوڈ سیکورٹی پروگرام، ٹرسٹ فنڈ بنانے پر اجلاس میں غور کیا گیا کہ افغانستان میں انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔ اس ضمن میں مسلم اُمہ اور عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا

چین کے حالیہ نئے قوانین نے سال گذشتہ ہلچل مچائی۔ چین نے اپنی بحری حدود میں مزید اضافہ کر دیا ،بائونڈری میں توسیع اور قدرتی کوئلہ کی کانیں دریافت کریں تاکہ اس سے مزید بجلی بنا سکے۔ اس پر مغرب کو تشویش ہے کہ تائیوان کا گھیرائو کیا جا رہا ہے۔ بحیرہ جنوبی چین میں دیگر جہازوں کی آمدورفت کو روکا اور ماحولیات کے ضابطوں کو توڑا جا رہا ہے۔ میڈیا کے مطابق ان مسائل نے پھر چین اور امریکا مابین تنائو بڑھا دیا ہے۔

چین کا تائیوان پر دعویٰ پوری طرح درست تصور نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ تائیوان برطانیہ، فرانس اور جاپان کے تسلط میں بھی رہا اور خود مختار بھی رہا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے تائیوان خود مختار ریاست ہے۔اقوام متحدہ کے اکتوبر2021 کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ان پر کھل کر بات ہوئی، تاہم ماحولیات اور موسمی تغیرات کا مسئلہ سب پر حاوی رہا۔

چند ممالک اس پر یقین رکھتے ہیں کہ آج کی دنیا کے پاس اقوام متحدہ ایک عالمی فورم ہے یہاں پر بڑی طاقت اور غریب ممالک اپنی بات کہہ سکتے ہیں، مسائل پر بات کر سکتے ہیں۔ اس عالمی ادارہ کو مزید فعال ،بااختیار اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ادارے پر انگلیاں سب ہی اٹھاتے ہیں مگر عملاً کچھ نہیں کیا جاتا۔البتہ سال2021 میں پیدا ہونے والے مسائل کے جواز میں سلامتی کونسل کو زیادہ بااختیار بنانے اور اس میں مزید اراکین کو شامل کرنے پر بھی اسی سال بات ہو گی۔

اقوام متحدہ نے سال2021,کو بین الاقوامی امن اور اعتماد کا سال قرار دیاتھا۔اسی سال پرتگال کے صدرماریو ڈی سوزا، دوبارہ صدر منتخب ہو ئے۔ میانمار میں فوج نے آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ فوج کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہو ئے ،عوام کا مطالبہ ہے کہ سوچی کی سول حکومت بحال کی جائے۔ عراق میں اس سال یورپ فرانس اور عراقی رہنما آیت اللہ علی سیستانی کی ملاقات ہوئی۔

اپریل کے مہینے میں روس نے یوکرین کو دھمکی دی کہ نیٹو سے رابطے قائم نہ کئے جائیں اور نیٹو کو کہا کہ، یو کرین کے مسئلے سے دور رہیں۔ اسرائیل نے اس سال بھی غزہ کی پٹی میں نئے مکانات کی تعمیر کے مسئلے پر فلسطین کی ایک نہ سنی، حماس نے تل ابیب پر راکٹ برسائے۔ اسرائیل نے ایران کے شہر تناز میں یورینیم کی افزودگی کے مرکز پر حملہ کر کے اس کو نقصان پہنچایا۔ ایران نے خبردار کیا کہ اس حملے کا بدلہ لیا جائےگا۔

نومبر2021 میں تاجکستان اور قازقستان کے درمیان سرحدی مسئلے پر خونریز جھڑپیں ہوئیں جس میں دونوں جانب شدید نقصان ہوا۔اکتوبر کے مہینے میں ہیٹی کے صدر مورس کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ۔اگست2021 میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا عمل میں آیا۔ امریکی ہیوی ہتھیار پیچھے چھوڑ گئے۔ ایکوا ڈور دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے اس سال گذشتہ بٹ کون کرنسی کو سرکاری کرنسی کا درجہ دیا ۔

سال2021 میں کینیڈا کے عام انتخابات میں وزیر اعظم ٹروڈو کو کم ووٹوں سے فتح حاصل ہوئی۔ جرمنی میں انجیلا مرکل کی پارٹی کو سوشل ڈیمو کریٹ پارٹی نے شکست دی۔ سال2021میں دبئی نے ورلڈ ایکسپو کا اہتمام کیا یہ بہت بڑب نمائش تھی۔ اکتوبر میں جاپان میں نئے وزیر اعظم فومو کیشیدہ نے عہدہ سنبھالا۔

روس نے دو ماہ قبل سوئزر 19خلائی جہاز لانچ کیا جس میں 66خلا باز اور دو ٹی وی چینلز شامل ہیں۔ کولمبیا کا رسوائے زمانہ منشیات اسمگلر ڈاریو انتھونی جو امریکا سمیت دیگر پانچ ممالک کو مطلوب تھا ، اُسےکولمبیا کی مسلح افواج نے گرفتار کر لیا ۔امریکا نےاکتوبر2021 میں دو مختلف سمتوں میں خلائی راکٹ لانچ کئے ، جس کا مقصد خلا میں زمین کی طرف آنے سے اسٹرائیڈ کو خلا ہی میں تباہ کیا جائے۔

دسمبر2021 کے اوائل میں امریکی صدر جوبائیڈن نے ’’جمہوریت‘‘ کے موضوع پر دو روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا ۔ کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ بعض ممالک میں جمہوری قدروں کو کمزور کیا جا رہا ہے۔اور بعض محض جمہوریت کو موضوع بنا کر آمریت تھوپ دیتے ہیں ۔ بعض حلقوں کا کہنا تھا کہ امریکا میں جمہوری روایات کو جس طرح پامال کیا جا رہا ہے پہلے اس پر امریکا عذر کرے،مگر مسئلہ جمہوریت کا ہے، جمہوریت میں کوئی خرابی نہیں ،خرابی ہماری نیت اور کارکردگی کی ہے، سیاسیات میں گزری صدیوں کے دوران خاصے تجربے عمل میں آئے لیکن لنگڑی لولی جیسی بھی سہی جمہوریت ،جمہوریت ہے، تاحال اس سےبہتر سیاسی نظام نہیں ہے اس کے علاوہ جو بھی ہے وہ صرف جمہوریت کی نفی ہے اور کچھ نہیں۔

تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک میں کہا گیاہے کہ تیل کی پیداوار اور قیمتوں کے تعین کے حوالے سے کچھ کشیدگی ہے۔ دو ماہ قبل سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات کے مابین تیل کی پیداور پر اختلاف کی خبریں بھی آتی رہیں۔ اب مسئلہ حل ہو گیا ۔دنیا بھر میں مہنگائی کی خبریں عام ر ہیں۔ مبصرین کے مطابق تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔مغربی میڈیا میں تیل کا متبادل تلاش کرنے اور سولر انرجی عام کرنے کی خبریں بھی آ ئیں، مگر اس میں مزیدوقت درکار ہو گا، چین نے جاپان پر نکتہ چینی کی ہے کہ وہ اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کر کے جدید ہتھیار خریدنے کی تیاری کر رہا ہے۔

خبروں کے مطابق چین کے دو جنگی بحری جہاز بحرالکاہل میں جاپان میں واقع امریکی فوجی اڈے کی نگرانی کرتے ہیں ۔چین ان خبروں کی تردید کرتا رہا ہے۔ آسٹریلیا نے حال ہی میں جو ایٹمی آبدوز خریدی ہے اس پر بھی چین نے پُر زور احتجاج کیا ہے۔ لاطینی امریکا کی خبروںکے مطابق کولمبیا،وینزویلا اور یورو گوئے میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں ۔جرمنی میں گزشتہ ماہ احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ان میں انجیلا مرکل کے مخالف دھڑے بھی شامل تھے ،۔اخباری اطلاع کے مطابق انجیلا مرکل نے عوام سے کئے وعدے پورے نہیں کئے، البتہ غیر قانونی تارکین وطن انہیں یاد رہے۔

نیویارک ٹائمز کی حالیہ اشاعت میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا بیان شائع ہوا ہےجس میں انہوں نے امریکا کو صلح جو طاقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کسی کو اپنی طرف نہیں بلاتا اگر کوئی ادھر آنا چاہتا ہے تو آئے، اگر چین کی طرف جانا چاہتا ہے ادھر چلا جائے ہم کسی کو مجبور نہیں کرسکتے۔ اس طرح ہم تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے آزاد انٹرنیشنل پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔ آزادی ،رواداری ہمارے اصول ہیں۔

فرانسیسی اخبار نگار کے مطابق آزاد معیشت کی آزاد تجارت میں جس کا جی چاہے حصہ دار بن سکتا ہے ایسے میں گلوبل گیٹ وے ایک طرف اور ون ورڈ ون بیلٹ منصوبہ دوسری طرف ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے رہنمائوں اور عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس کیمپ میں جاتے ہیں۔ سال 2021ئء کے آواخر میں امریکی صدر جوبائیڈن نے روس کو خبردار کیا کہ وہ یوکرین کو دھمکیاں دینا بند کرے اور مشرقی یورپ میں کوئی اقدام کرے ،اس حوالے سے امریکا خاموش نہیں بیٹھے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتھونی گریٹوس نے حالیہ بیان میں کہا کہ بیش تر ترقی پذیر ممالک میں انسانی حقوق اور اظہار اور رائے کی آزادی شجر ممنوع ہوتی جا رہی ہے۔ ان ممالک کو اپنی سیاسی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔

امریکا نے بنگلہ دیش ، میانمار، شمالی کوریا اور چین پر پابندیاں لگادیں

امریکانے انسانی حقوق کے عالمی دن10دسمبر 2021 کو چین، میانماز، شمالی کوریا اور بنگلہ دیش کے درجنوں افراد اور ان ممالک سے تعلق رکھنے والے اداروں پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزام کے تحت پابندیاں عائد کردیں۔ کینڈا اور برطانیہ نے بھی میانماز میں انسانی حقوق کی پامالی کی بنا پر اس ملک پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ، برطانیہ اور کینڈا کے ساتھ ہمارا یہ مشترکہ پیغام ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری طاقتیں ان لوگوں کےخلاف بھرپور کارروائی کریں گے۔ ہم ملوث افراد کو قابل احتساب بنانے کے لیے تمام طریقے استعمال کررہے ہیں۔

امریکا نے’’ جمہوریت سمٹ‘‘ میں روس،چین اور ہنگری کو مدعو نہیں کیا

امریکا نے جمہوریت ورچوئل سمٹ میں روس، چین اور ہنگری کو دعوت نہیں دی تھی، جس پر چین نے امریکا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا چینی وازرتِ خارجہ کے تر جمان نے کہا کہ، امریکا جمہوریت کو بہ طور ہتھیار استعمال کرکے وسیع پیمانے پر تباہی چاہتا ہے، جب کہ خود امریکا کی جمہوریت کرپٹ اور ناکام ہے جو بائیڈن سرد جنگ کانظریہ اپناتے ہوئے فاصلے پیدا کررہے ہیں۔ ’’سمٹ‘‘ کے پیچھے بائیڈن کا مقصد نظریاتی تعصب میں اضافہ کرنا، جمہوریت کو بہ طور استعمال کرنا، تقسیم اور جھگڑوں کو ہوا دینا ہے۔