تین سال: ملتان میں کوئی بڑا ترقیاتی کام نہ ہوسکا

January 06, 2022

پنجاب میں شیڈول کے مطابق بلدیاتی الیکشن ہوں گے کہ نہیں، اس بارے میں ہر طرف ایک ابہام پایا جاتا ہے، تاہم دوسری طرف مختلف شہروں میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سرگرمیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس تعداد میں امیدوار سامنے آرہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ٹکٹوں کی تقسیم کے مرحلہ پر حد درجہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ،یہ بھی امکان ہے کہ آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے گی، یہ وہ لوگ ہوں گےکہ جنہیں سیاسی جماعتیں ٹکٹ نہیں دیںگی ، مگر یہ جماعتی ڈسپلن کی پابندی کرنے کے بجائے انتخابات میں کود پڑیں گے۔

ملتان میں اس وقت لارڈ مئیرشپ کے لیے اتنے زیادہ امیدوار سامنے آچکے ہیں کہ یہ عہدہ ایک مذاق لگنے لگا ہے،حالانکہ اس بار لارڈمئیر کے لئے براہ راست پولنگ ہوگی اور لاکھوں لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا موقع ملے گا،لاکھوں ووٹرز تک کوئی ایک شخص کیسے اپنا پیغام پہنچائے گا ،تا وقتیکہ اسے کسی سیاسی جماعت کی سپورٹ حاصل نہ ہو، دلچسپ بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کے امیدوار بھی وہی سامنے آرہے ہیں، جن کا تعلق بڑے سیاسی خانوادوں سے ہے۔

پیپلز پارٹی گیلانی خاندان سے نہیں نکل پارہی اور مسلم لیگ ن کے وہ تمام روایتی امیدواران شامل ہیں، جو پہلے بلدیاتی عہدوں پر انتخابات لڑتے رہے ہیں، جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس میں اتنی ہڑبونگ مچی ہوئی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ، امیدواروں کا ایک ایسا ہجوم ہے ، جو اپنے آپ کو شہر کا لارڈ مئیر بنوانا چاہتا ہے ، ہر ایم این اے، ایم پی اے کی خواہش ہے کہ اس کا کوئی عزیز یہ منصب حاصل کرلے ، جبکہ شہر کے وہ وزراء بھی جو اپنے دور وزارت میں میٹروپولیٹن کی حدود میں کوئی بڑا پراجیکٹ نہیں لا سکے۔

یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کا چہیتا ،کوئی بھائی ،کوئی بیٹا اس منصب پر آجائے، یہ صورتحال دیکھ کر ابھی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب الیکشن کا مرحلہ آئے گا، تو پی ٹی آئی کے امیدواروں کا تعین کرنے کے لیے انتظامی کمیٹی کو کتنے بڑے مشکل مرحلہ سے سے گزرنا پڑے گا ،ڈسپلن کا یہ حال ہے کہ پارٹی کا ایک گروپ ،دوسرے کو ماننے کو تیار نہیں ہے ،سب کی یہ کوشش ہے کہ وہ ملتان کی میئر شپ کے علاوہ کلیدی بلدیاتی عہدے حاصل کرلے ، ایسے میں صورتحال وہی پیدا ہوجائے گی، جو خیبر پختونخواہ خصوصاً پشاور میں دیکھنے کو ملی، یعنی جڑیں کاٹنے کا عمل شروع ہو جائے گا اور اپنے ہی امیدوار کو ہروانے کے لئے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوں گے۔

بلدیاتی انتخابات اس لیے بڑی اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ یہ عام انتخابات کا ایک ٹریلر ثابت ہوں گے، کیونکہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں عام انتخابات کا بھی نقارہ بج جائے گا، اگر تحریک انصاف کو پنجاب میں بھی اسی قسم کے سیٹ بیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کا اسے حالیہ دنوں میں خیبرپختونخوا میں ہوا ، تو ایک ایسا پیغام جائے گا کہ مہنگائی اور بری گورننس نے تحریک انصاف کو پورے ملک میں ایک غیر مقبول جماعت بنا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس کا رسک نہیں لینا چاہتے اور وہ مسلسل وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ رابطے میں ہے اور پچھلے دنوں انہوں نے وزیر اعلیٰ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب سے بھی ملاقات کی ہے۔

جس میں انہیں پنجاب میں گڈ گورننس اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ،مگر یہ بیل کیسے منڈے چڑھ سکتی ہے، جب حکومت خود منی بجٹ پیش کر کے مہنگائی کے گراف کو اوپر لے جا رہی ہے اور ایسی اشیا ء پربھی جی ایس ٹی نافذ کردیا گیاہے، جن کے بارے میں پہلی حکومتیں کبھی سوچتی بھی نہیں تھیں،سوال یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کیاایجنڈا لے کر جاتی ہے؟

حالت یہ ہے کہ ملتان جیسے شہر میں پچھلے تین سال کے دوران بلدیاتی حوالے سے کوئی بڑا ترقیاتی کام نہیں ہوا، سیوریج ،صحت اور روزمرہ کے مسائل جوں کے توں موجود ہیں،شہر کے تمام ایم این اے، ایم پی ایز کی نشستیں ہونے کے باوجود تحریک انصاف ملتان کو ترقی یافتہ شہر نہیں بنا سکی، آج بھی پسماندگی گندگی ،تجاوزات اور غریب علاقوں میں صحت اور صفائی کےدگرگوں حالات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ملتان کو تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں بری طرح نظر انداز کیا ہے، اب ایک بار پھر ایڈمنسٹریٹرز تعینات کر دیئے گئے ہیں اور اس سے پہلے بھی ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے کام چلایا گیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر کو ایڈمنسٹریٹر بنا کر یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ شہر کے حالات بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا کرے گا، لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں، لیکن انہیں کوئی ایسا ادارہ نظر نہیں آتا، جو ان کے مسائل حل کرنے پر کمر بستہ ہو ،ایسے حالات میں بلدیاتی انتخابات کے موقع پر پی ٹی آئی کے لیے جہاں مشکلات کھڑی ہوںگی ،وہاں مسلم لیگ ن ان سے فائدہ اٹھائے گی اور اس کے امیدواران اور عہدے داریہ بیانیہ اختیار کریں گے کہ ڈھائی سال پہلے ان کے بلدیاتی ادارے نہ توڑے جاتے ،تو آج ملتان کی حالت کہیں بہتر ہوتی ،جہاں تک لارڈ مئیرشپ کا تعلق ہیں تو پچھلے کچھ برسوں میں یہ عہدہ مسلم لیگ ن کے پاس رہا ہے۔

تاہم اس بار مسلم لیگ ن کو بھی اس لیے مشکلات پیش آسکتی ہیں کہ لارڈ میئر کا انتخاب اب براہ راست ہوگا، کونسلروں ،چئیرمینوں اور ناظمین کی ذریعے میئر بنوانا اتنا مشکل نہیں ہوتا، جتنا براہ راست انتخاب کے ذریعے مشکل سمجھا جاتا ہے ،اس کے لیے عوام میں ایک ایسی مقبولیت ضروری ہے، جس پروہ اندھا اعتبار کر کے اپنا ووٹ کسی امیدوار کو ڈال دیں،بدقسمتی سے مسلم لیگ ن نے بھی جو مئیر بنوائے ،ان پر سنگین نوعیت کی بے قاعدگیوں کے الزامات لگتے رہے۔ یہ مسلم لیگ کی قیادت کے لیے بھی ایک بڑا امتحان ہوگا کہ وہ ملتان کی لارڈ میئر شپ کے لئے کسے ٹکٹ دیتی ہے، جہاںتک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے تو ملتان میں اسے گیلانی خاندان نے پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔