سندھ: بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کا امکان؟

January 06, 2022

سندھ مین بلدیاتی انتخاب کا ماحول بن چکا ہے۔ سیاسی جماعتیں کارکنوں کو کسی نا کسی ایشو پر متحرک رکھئے ہوئے ہیں تاہم سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد میں تاخیر کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد مارچ میں نہیں ہوسکےگا بلدیاتی حلقہ بندیوں کے لئے تاحال کام کا آغاز نہیں ہوسکا ہے۔ سندھ حکومت کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے بلدیاتی حلقہ بندیوں کا جاری شیڈول موخر کردیاہے الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق بلدیاتی حلقہ بندیوں کے لیے80روز درکار ہونگے۔

اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے اس بل کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اس بل کے خلاف جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی کے باہر تین روز سے دھرنادیا اور جماعت اسلامی خواتین نے بھی دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے تاہم پی پی پی حکومت کی جانب سے ڈھاک کے تین پات والا جو اب ہی ہے پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے پیپلز پارٹی کے بلدیاتی ترمیمی قانون کے خلاف 30 جنوری کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ کا اعلان کردیا ہے اس معاملے پر پی پی پی اور سندھ کی اپوزیشن جماعتوں کے درمیان تناو کی کیفیت ہیں۔

جبکہ دوسری جانب عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھ گیا ہے، سال بھر کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ جاری رہا، پیٹرول، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھنے سے ٹرانسپورٹ کے کرائے اور آمدورفت کے اخراجات بھی بڑھ گئے۔ سال کے آغاز سے اختتام تک مہنگائی کا نہ رکنے والا طوفان تھم نہیں رہا۔آٹا، گھی تیل، مرغی، گوشت، دودھ، دالیں اور مصالحہ جات، کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہرہو گئیں ہے ۔

دوسری جانب سندھ کو گیس کی شدید قلت کا سا منا ہے شہر میں جاری گیس بحران کی وجہ سے مختلف علاقوں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہورہی ہے کراچی کی سب سے اہم اور مرکزی سڑک شارع فیصل سے متصل بزرٹا لا ئن پر خواتین نے بچوں کے ہمراہ سڑک پر دھرنا دیا۔

خواتین اپنے ہمراہ لکڑیاں بھی لائی تھیں۔ جنہوں انہوں نے سڑک پر رکھ کر آگ لگادی اور بچوں کے ہمراہ احتجاج کیا۔ اس موقع پر ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی اور گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں۔ متاثرہ خواتین کا کہنا تھا کہ گیس کی قلت معمول ہے تاہم موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی گیس بالکل غائب ہوچکی ہے۔ مکین سارا دن گیس کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں سلنڈر کی گیس خریدنے کی سکت نہیں نہ ہی ہوٹل سے کھانا خرید سکتے ہیں۔ گیس نہ ہونے کی وجہ سے بچے سارا دن بھوکے رہتے ہیں۔

احتجاج کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی جس پر سڑک پار تھانہ سے پولیس اہلکار اور افسران کی دوڑیں لگ گئیں اور انہوں نے خواتین کو زبردستی ہٹاکر سڑک کو کلیئر کروالیا۔ مہنگائی اور گیس کی قلت کو لے کر پی پی پی وفاقی حکومت پر شدید تنقید کر رہی ہےپاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے پی ٹی آئی حکومت کی تین سالہ کارکردگی پر وائٹ پیپرز جاری کردیا گیا ہے۔

اس حوالے سے ترجمان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز و رکن قومی اسمبلی شازیہ عطا مری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت تبدیلی کے نام پر اقتدار میں آئی لیکن اس نے ملک میں تباہی مچادی ہے حکومت کو اقتدار سنبھالے ہوئے ساڑھے تین سالہو گئے ہیں لیکن حکومت نے ملک کے ہر شعبے میں تباہی مچادی ہے اور ‏عمران خان اور انکے ٹولے نے معیشت کوتباہ کردیا ہے، ‏پاکستان مہنگائی کے لحاظ سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ ‏اس وقت پاکستان میں مہنگائی کی شرح 11.5 فیصد سے زائد ہے اور پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سےزیادہ مہنگا ترین ملک ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ نوکریاں دیں گے مگر انہوں نے اقتدار میں آکر لوگوں کو صرف نوکریوں سے نکالا۔

پاکستان میں اس وقت 66 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور یہاں بیروزگاری کی شرح 4 فیصد ہےجبکہ نو سال سے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں پر اس وقت ملک میں سب سے زیادہ بے روزگاری وہاں ہےگردشی قرضے تقریباً 2.3 ٹریلین ڈالرز ہو چکے ہیں۔ پا کستان سنی تحریک کے تحت مہنگائی مٹاؤ ریلی نکالی گئی جس کی قیادت سربراہ سنی تحریک محمد ثروت اعجاز قادری اور تاجر رہنماؤں وسماجی تنظیموں کے رہنماؤں نے کی۔

ریلی سے خطاب کرتے ہوئے محمد ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ حکومت منی بجٹ کے ذریعے عوام پر معاشی ایٹم بم گرانے سے باز رہے، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے ہم حکومت کی من مانی مہنگائی وبیروزگاری کے خلاف تحریک چلائینگے، مرکز وصوبائی حکومتوں نے غریب عوام کا جینا حرام کردیا ہے، جبکہ جماعت اسلامی سندھ کے امیر وسابق ایم این اے محمد حسین محنتی نے کہا ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی مشکل بنادی ہے۔

منی بجٹ و پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عوام پر بجلی بن گرا ہے۔ مہنگائی بیروزگاری سمیت مسائل سے نجات کا واحد حل اسلامی نظام و دیانتدار قیادت ہے اس ساری صو رت حال میں حکومت کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم پاکستان اور جی ڈی اے کو سیاسی نقصان ہو رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کا یہ بوجھ بھی اٹھا رہی ہے۔

ایم کیو ایم پر حکومت سے باہرآنے کے لیے شدید دبائو ہے تاہم وہ بوجوہ وہ حکومت سے باہر نہیں آپا رہی کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن کے دوران ان کی کامیابی کے امکانات معدوم ہی رہیں گے ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی بھی کوششیں جاری ہیں اس ضمن میں ملک سے باہر شخصیات سمیت ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں سے بات کی جا رہی ہے تاہم ملک سے باہر کی قیادت نے باور کرا دیا ہے کہ وہ چند افراد کو ہرگز واپس پارٹی میں نہیں لینگے ۔