معاشی استحکام: حکومت اور اپوزیشن کو ہاتھ ملانا چاہئے

January 06, 2022

وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے تعلق رکھنے والے سابق وزرائے خزانہ کی طرح عوام کو یہ خوش خبر ی سنا دی ہے کہ منی بجٹ سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہو گا اور غریب عوام پر بوجھ نہیں ڈالا گیا ہے عوام بے چارے تو پس کر رہ گئے ہیںان میںکھڑا ہونے کی سکت نہیںنئے سال کا پہلا تحفہ یہ ملا کہ پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا حالانکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے ۔

حکومت نے بجلی اور ایل پی جی کی قیمتوں میں جو معمولی کمی کی تھی اسکی کسر پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں بڑھا کر نکال لی گئی ، سیاسی جماعتیں اقتدار میںآنے کیلئے عوام پر کم اور اسٹیبلشمنٹپر زیادہ انحصار کرتے ہیں اور بڑے فخر سے یہ کہتی ہیںکہ ہماری ڈیل ہو گئی ہے آئندہ حکومت ہماری ہو گی ، با لخصوص مسلم لیگ (ن)کے قائدین تو بڑے فخر سے یہ اعلان کر رہے ہیںکہ ہماری اسٹیبلشمنٹسے ڈیل ہو گئی ہے اور ان ہائوس تبدیلی آرہی ہے اور وفاق میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور پنجاب میںوزیر اعلیٰحمزہ شہباز ہو نگے اور میاںنوازشریف بھی اس ڈیل کے تحت جنوری میںواپس آرہے ہیںوہ ایک ماہ جیل میںرہنگے اور پھر انکے کیس ختم ہو جائیں گے اور وہ چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن جائیںگے۔

یہ سب باتیں بالکل شوشہ ہیں اسٹیبلشمنٹکے ساتھ کسی کی ڈیل نہیںہو رہی ہے یہ سب افواہیں اسٹیبلشمنٹنے اپنے آپ کو سیا ست سے بالکل الگ تھلگ رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اسکا ثبوت کنٹونمنٹبورڈضمنی انتخابات اور کے پی کے میںبلدیاتی انتخابات ہیں۔ درحقیقت اسٹیبلشمنٹکے ساتھ ڈیل کی باتیںاپنے ارکان پارلیمنٹپارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کو متحد رکھنے اور بیورو کریسی کو ڈرانے کیلئے کی جاتی ہے کہ خبر دار ہمارے خلاف زیادہ آگے نہ بڑھنا ہم اقتدار میںآرہے ہیں،میاں نواز شریف کو تو جلد یہ دیر برطانیہ چھوڑنا پڑے گا ، جب تک انہیں یقین نہیں ہو جاتا انکی سزا معاف ہو گی انکے پاکستان میںآنے کے امکانات معدم ہیںوہ کسی اور ملک میںجا سکتے ہیںانکی سزا کے خاتمے کیلئے سپریم کورٹ بار نے کوئی پٹیشن تیار کررکھی ہے جسکے جلد دائر ہونے کا امکا ن ہے۔

ادھر پیپلزپارٹی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی ان ہائوس تبدیلی کیلئے تیار نہیںنہ وہ اسمبلیاں توڑنے جانے کے حق میںہیںنہ ہی وہ اسمبلیوں سے استعفیٰدے گی کیونکہ ان ہائوس تبدیلی سے تو سب کچھ مسلم لیگ ن کو ملے گا انہیں کیا ملے گا اور مسلم لیگ مرکز اور پنجاب میںاقتدار میں آگئی تو پیپلزپارٹی کا پنجاب میںصفایا ہو جائے گا جبکہ آصف علی زرداری روز بلاول بھٹو پنجاب میںقدم جمانے اور جوڑتوڑکر نے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیںلہذا یہ وزیر اعظم عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ انکی حکومت گرتے گرتے بج جاتی ہے،مولانا فضل الرحمن نے بھی یو ٹرن لے لیا ہے وہ بھی الیکشن پر زور نہیں دے رہے۔

پیپلزپارٹی نے مہنگائی کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا مگر وہ اپنے کارکنوںکے علاوہ عوام کو جمع نہیںکر سکی دوسری بات یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ملک کی معاشی حالت تباہ کن ہے ۔تو پھر کیسے اپوزیشن جماعتیں اقتدار میںآکر مہنگائی کو کنٹرول کر لیں گی لوگوں کو روز گار دیں گی ، آئی ایم ایف سے مدد نہیں لینگی ،یہی وجہ ہے کہ عوام مہنگائی سے دل برداشتہ ہونے کے باوجودسڑکوں پر نہیں آرہے کہ مسلم لیگ ن والے اگر حکومت میںآگئے تو وہ بھی یہی راگ پڑھیں گے کہ عمران حکومت کی غلطیوں کیوجہ سے مہنگائی یہ کنٹرول نہیں کر سکتے تو پھر ہم کیوںانکے لئے ماریں کھائیں جیلوں میںجائیں عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اندر ہی اندر لاوہ پک رہا ہے جو پھٹبھی سکتا ہے تحریک انصاف والے یہ نہ سمجھیں لوگ انکی محبت میںباہر نہیںنکل رہے لوگ اپوزیشن سے بھی مایوس ہیںاس بات کوبھی تسلیم کرنا چاہئے ،کہ نوجوان طبقہ وزیر اعظم عمران خان کی قرضہ سکیموں احساس پروگرام بھی استعفادہ کر رہے ہیں اور اب ہیلتھ کارڈسکیم پنجاب میںشروع ہو رہی ہے جسکے لئے 4 سو ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں۔

ہیلتھ کارڈ جب گھر گھر پہنچے گا تو اسکے بھی مثبت نتائج برآمد ہونگے اگرچہ کے پی کے میںبھی ہیلتھ کارڈتقسیم ہو چکے ہیںاور غریب لوگ بھر پور استعفادہ کر رہے ہیںتحریک انصاف کے بلدیاتی الیکشن ہارنے کیوجہ عوام نہیںبلکہ انکے اپنے گورنر ، وزیر اور ارکان پارلیمنٹہیںجنہوںنے اپنے عزیز و اقارب کو ٹکٹدینے یا ٹکٹوں کیلئے پیسے وصول کئے ، جسکا فائدہ مولانا فضل الرحمان گروپ کو ہوا، وزیر اعظم نے کے پی کے میںپارٹی شکست کا نوٹس لیا انہیں کنٹونمنٹبورڈ ز کے انتخابات میں شکست کے بعد ہی اپنی پارٹی کے عہدیداروں کی نااہلی اور ٹکٹوں کی غلط تقسیم کا نوٹس لینا چاہئے تھا، اصل میںوزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی پارٹي کی تنظیموں پر توجہ ہی نہیںدی جسکی وجہ سے پارٹی کا یہ حال ہوا گلی محلے میںوارڈکمیٹیاںہوتیں تو لوگوں سے رابطہ رکھتیں۔

عام لوگوں کو قرضہ سکیموں کے تحت قرض لے کردیتی احساس پروگرام میں پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کو اہمیت دی جاتی تو صورتحال مختلف ہوتی کنٹونمنٹبورڈکے الیکشن میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل عامر کیانی کو انچارج بنایا جنکا پارٹی کارکنوں اور عام لوگوں سے رابطہ ہی نہیںتھا، پارٹی کارکنوں کو اہمیت نہ دینے اور جیالہ سسٹم کے خاتمے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا یہ حال ہوا ، پارٹی کے جانثار گھروں میںبیٹھ گئے یا دوسری جماعتوں میںچلے گئے پارٹی میںپیسے والےاہمیت حاصل کرتے اور پنجاب میںپیپلزپارٹی اب جیالوں کو واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے مگر ابھی تک وہ بات نہیں بنی جس جس جماعت نے پیسوں والے فصلی بٹیروں کو اہمیت دی اپنے کارکنوں کو نظر انداز کیا اسکا یہ حال ہو ا،چاہئے وہ پیپلز پارٹی ہو مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف ہو، وزیر اعظم عمران خان کو یہ بات یاد کرانا ضروری ہو گا۔ کابینہ کے کتنے وزیر پارٹی سیکرٹریٹمیں جاکر عوام کے مسائل سنتے ہیںاور انہیں حل کرتے ہیں۔

مہنگائی کے علاوہ لوگوں کے بے شمار مسائل ہیں، وزیر اعظم عمران خان کو پارٹی کارکنوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے ، اگر وہ آئندہ پنجاب میںبلدیاتی الیکشن میںبہتر نتائج چاہتے ہیںتو اپنے کارکنوں کو متحرک یا مضبوط کرنا ہوگا ورنہ بلدیاتی الیکشن میںکے پی کے سے بھی پنجاب میںبری شکست کیلئے تیار رہنا چاہئے ،دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی کے صوبائی صدور اور سیکرٹری جنرل کی تبدیلی کے کیا اثرات مرتب ہوتےہیںبا لخصوص پنجاب کے صدر شفقت محمود اور مرکزی سیکرٹری جنرل اسد عمر پارٹی کو کیسے متحرک کرتے ہیں۔