مہمان نوازی اُسوہ نبویﷺ کا امتیازی پہلو

January 07, 2022

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

ارشادِ نبویؐ ہے:جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی خاطر تواضع کرے۔(صحیح بخاری) مہمانوں کی خاطر و مدارات کرنا انبیاءؑ کی سنت ہے۔ آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاءؑ کا جامع اور افضل الرسل فرمایا ہے۔ آپﷺ کی پاکیزہ سیرت میں مہمان نوازی کی صفت اتنی اعلیٰ تھی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔

آپﷺ کی حیات مبارکہ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے،جن میں آپﷺ نے مہمان نوازی کے اعلیٰ ترین معیار کا نمونہ قائم فرمایا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے، تو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ (صحیح مسلم) ایک موقع پر آپﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے فرمایا: تمہارے مہمانوں کا تم پر حق ہے۔(صحیح بخاری)

مہمان نوازی کو ایک فرض قرار دیتے ہوئے رسول اکرمﷺ نے فرمایا:جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے۔ ایک دن اور ایک رات تک اس کی (مہمان کی) خدمت تو اس کا انعام شمار ہوگی، جب کہ تین دن تک مہمان نوازی ہوگی، اس کے بعد کی خدمت صدقہ ہے۔ ساتھ ہی اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مہمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ ٹھہرا رہے اور اسے (میزبان کو) تکلیف میں ڈالے۔(سنن ابودائود)

جب ہم آنحضورﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپﷺ کی حیات ِطیبہ میں مہمان نوازی کے بے شمار واقعات پاتے ہیں۔ آنحضورﷺ کا یہ معمول تھا کہ آپﷺ کے گھر جب کوئی مہمان آتا، تو جو بھی بہتر سے بہتر میسر ہوتا، مہمان کی خدمت میں پیش فرماتے۔ بعض اوقات کھانے کے دوران اگر کوئی آجاتا تو اسے بے تکلفی سے اپنے ساتھ شامل فرما لیتے۔ صحابہؓ میں جو بھی انتظامی ڈیوٹیاں تقسیم ہوتیں، ان میں سے آپﷺ اپنے ذمے بھی کچھ نہ کچھ ذمے داری لیتے۔

جب کافی تعداد میں مہمان آجایا کرتے تو آپﷺ صحابہؓ میں مہمانوں کو تقسیم فرما دیتے اور اپنے ساتھ مہمانوں کو گھر لے آیا کرتے۔ ابتدائی زمانہ غربت کا تھا ،نیز آپﷺ کو صحابہؓ کی فاقہ کشی کا علم تھا، اس لیے جب بھی کھانے کے ظاہری اسباب میسر آتے، چاہے وہ تھوڑے سے ہی ہوں، آپﷺ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ میری دعا سے برکت ڈالے گا، صحابہؓ کو بلوا لیتے اور ان لوگوں کو بھی بلوا لیتے جو بھوکے وہاں موجود ہوتے تھے، تاکہ ان کی بھی مہمان نوازی ہو جائے۔ بسا اوقات آپﷺ نے اپنے ہاں مہمان ٹھہرائے اور ان کے لیے مستقل خوراک کا انتظام فرمایا۔ بعد ازاں جب وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو آپﷺ ان کی بھی مہمان نوازی کا انتظام فرماتے۔ ہر موقع پر آپﷺ اس تلاش میں رہتے کہ کسی طرح مہمان کی خدمت کا موقع ہاتھ آئے۔

حضرت ابوشریح ؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہمسایے کی تکریم کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ،اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر ( یعنی خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے۔ عرض کیا گیا : ’’ یا رسول اللہ ﷺ ! ’’جائزہ‘‘ کیا ہے۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا : ایک دن رات ( مہمان کا خصوصی ) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن، تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو ،وہ صدقہ شمار ہوتی ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے ،ورنہ خاموش رہے۔ ‘‘ ( الادب المفرد)

حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ جو شخص مہمان نوازی نہ کرے ،اس میں کوئی خیر نہیں ۔‘‘حضرت سمرہؓ فرماتے ہیں: ’’حضورِ اقدسﷺ مہمان کی ضیافت کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ ‘‘ (مجمع الزوائد )حضرت ابو کریمہ السامیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ مہمان کی رات کو خاطر داری کرنا ہر ایک مسلمان پر واجب ہے۔ جس نے کسی کے گھر میں رات گزاری، وہ شخص اس گھر والے پر ایک قسم کا قرض ہے، اگر چاہے تو اسی دن اس قرض کو ادا کرے (یعنی وہاں رات گزار ے) اور اگر نہ چاہے تو اسے چھوڑ دے۔‘‘(اور وہاں رات نہ گزارے)۔ (الادب المفرد )

مہمان کاخصوصی اعزاز و اکرام ایک دن ایک رات ہے، اور مہمانی تین دن تین رات ہے، مہمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اتنا طویل قیام کرے کہ جس سے میزبان مشقت میں پڑجائے۔‘‘ ( بخاری، مسلم )اللہ تعالیٰ ہمیں مہمان نوازی کے حوالے سے آنحضرت ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو اپنانے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)