کووِڈ-19وَبائی مرض اور عالمی قرض

January 10, 2022

2020ء میں، ہم نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک سال کے دوران قرضوں میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا اور عالمی قرض 226 ٹریلین ڈالر تک بڑھ گیا کیونکہ دنیا صحت کے عالمی بحران اور گہری کساد بازاری کا شکار تھی۔ عالمی قرض پہلے ہی ناقابلِ برداشت سطح تک پہنچ گیا تھا، لیکن اب حکومتوں کو سرکاری اور نجی قرضوں کی ریکارڈ سطح، نئے وائرس کی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی افراط زر کی شرح پر قابو پانا ہوگا۔

عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے گلوبل ڈیبٹ ڈیٹا بیس کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق، 2020ء میں عالمی قرض 28 بیسس پوائنٹس اضافے سے عالمی جی ڈی پی کے 256 فیصد تک پہنچ گیا۔ قرض گیری میں نصف سے کچھ زیادہ حصہ حکومتوں کا رہا کیونکہ عالمی سرکاری قرضوں کا تناسب جی ڈی پی کے ریکارڈ 99فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ غیر مالیاتی کارپوریشنوں اور گھرانوں کے نجی قرضے بھی نئی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

قرضوں میں اضافہ خاص طور پر ترقی یافتہ معیشتوں میں حیران کن ہے، جہاں سرکاری قرض 2007ء میں جی ڈی پی کے تقریباً 70 فیصد سے بڑھ کر 2020ء میں جی ڈی پی کے 124 فیصد تک پہنچ گیا۔ دوسری طرف نجی قرضہ، اسی مدت میں زیادہ معتدل رفتار کے ساتھ جی ڈی پی کے 164 سے 178 فیصد تک بڑھ گیا۔

سرکاری قرض اب کل عالمی قرضوں کا تقریباً 40 فیصد بنتا ہے، جو 1960ء کی دہائی کے وسط کے بعد سے سب سے زیادہ حصہ ہے۔ 2007ء کے بعد سے سرکاری قرضوں کا جمع ہونا بڑی حد تک دو بڑے معاشی بحرانوں سے منسوب ہے جن کا حکومتوں کو سامنا کرنا پڑا ہے، پہلا عالمی مالیاتی بحران، اور پھر کووِڈ-19وَبائی بیماری۔

قرض رقوم کے حصول میں فرق

قرض کی حرکیات، تمام ممالک میں واضح طور پر مختلف ہیں۔ 2020ء میں 28 ٹریلین ڈالر کے قرضوں میں اضافے کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ ترقی یافتہ معیشتوں اور چین کا تھا۔ کم شرح سود، مرکزی بینکوں کے اقدامات (بشمول سرکاری قرضوں کی بڑی خریداری) اور اعلیٰ ترقی یافتہ مالیاتی منڈیوں کی بدولت یہ ممالک وبائی مرض کے دوران سرکاری اور نجی قرضوں کو بڑھانے میں کامیاب رہے۔ لیکن زیادہ تر ترقی پذیر معیشتیں قرضہ جات کی تقسیم کے مخالف سمت میں ہیں، انہیں زیادہ بلند شرح سود کے ساتھ فنڈنگ ​​تک محدود رسائی حاصل ہے۔

مجموعی رجحانات کو دیکھتے ہوئے، دو الگ الگ پیش رفت نظر آتی ہیں۔

ترقی یافتہ معیشتوں میں، مالیاتی خسارے میں اضافہ ہوا کیونکہ ان ممالک نے کساد بازاری کی وجہ سے محصولات میں کمی دیکھی اور کووِڈ-19کے پھیلنے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر مالیاتی اقدامات اٹھائے۔ 2020ء میں سرکاری قرضوں میں جی ڈی پی کے 19 بیسس پوائنٹس کا اضافہ ہوا، جیسا کہ عالمی مالیاتی بحران کے دوران دو سالوں میں دیکھا گیا تھا؛ 2008ء اور 2009ء۔

تاہم، نجی قرضے میں 2020ء کے دوران جی ڈی پی کے 14 بیسس پوائنٹس کا اضافہ ہوا، جو کہ عالمی مالیاتی بحران کے دوران ہونے والے اضافہ کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہے، جو دونوں بحرانوں کی مختلف نوعیت کی عکاسی کرتا ہے۔ وَبائی مرض کے دوران، حکومتوں اور مرکزی بینکوں نے زندگیوں اور معاش کے تحفظ میں مدد کے لیے نجی شعبے کو مزید قرض دینے کی حمایت کی، جب کہ عالمی مالیاتی بحران کے دوران چیلنج، حد سے زیادہ قرضوں میں ڈوبے ہوئے نجی شعبے کو اس کے مزید منفی اثرات سے محفوظ رکھنا تھا۔

اُبھرتی ہوئی منڈیوں اور کم آمدنی والے ترقی پذیر ممالک کو مالی امداد تک رسائی میں بہت سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں مختلف ممالک کے درمیان فرق بھی بہت زیادہ دیکھا گیا۔ اس درجہ بندی میں شامل ممالک میںقرضوں میں سب سے زیادہ اضافہ چین میںہوا جوکہ 26فی صد ہے۔ اُبھرتی ہوئی منڈیوں (چین کو چھوڑ کر) اور کم آمدنی والے ممالک کا عالمی قرضوں کے اضافہ میں حصہ نسبتاً کم رہا، جوکہ زیادہ سرکاری قرضوں کی وجہ سے تقریباً ایک تا 1.2 ٹریلین ڈالر کے درمیان رہا۔

اس کے باوجود، اُبھرتی ہوئی منڈیوں اور کم آمدنی والے ممالک، دونوں کو 2020ء میں جی ڈی پی میں بڑی کمی کی وجہ سے قرضوں کے بلند تناسب کا بھی سامنا ہے۔ اُبھرتی ہوئی منڈیوں میں عوامی قرضہ ریکارڈ بلندی پر پہنچ گیا، جب کہ کم آمدنی والے ممالک میں یہ اس سطح تک بڑھ گیا جو 2000ء کی دہائی کے اوائل سے نہیں دیکھی گئی۔

توازن حاصل کرنا مشکل

لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ، ملازمتوں کو محفوظ رکھنے اور دیوالیہ پن کی لہر سے بچنے کی ضرورت کو قرضوں میں بڑے اضافے کا جواز بنایا گیا۔ اگر حکومتیں ضروری اقدامات نہ اٹھاتیں تو اس کے سماجی اور معاشی نتائج تباہ کن ہوتے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ قابلِ غور ہے کہ قرضوں میں اضافہ کمزوریوں کو بڑھاتا ہے، خاص طور پر جب مالیاتی حالات سخت ہوتے ہیں۔ قرضوں کی بلند سطح زیادہ تر معاملات میں بحالی میں مدد کرنے کی حکومتی صلاحیت اور درمیانی مدت میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی صلاحیت میں رکاوٹ بنتی ہے۔

ایک اہم چیلنج بلند قرضوں اور بڑھتے ہوئے افراط زر کے ماحول میں مالیاتی اور زری پالیسیوں کا صحیح امتزاج حاصل کرنا ہے۔ زری اور مالیاتی پالیسیاں خوش قسمتی سے وَبائی مرض کے بدترین دور میں ایک دوسرے کی معاون ثابت ہوئی ہیں۔ خاص طور پر ترقی یافتہ معیشتوں میں شرح سود کو اپنی کم ترین حد تک لے جانے کے مرکزی بینکوں کے فیصلے نے حکومتوں کے لیے قرض لینا آسان بنا دیا۔

مانیٹری پالیسی اب مناسب طور پر بڑھتے ہوئے افراط زر اور افراط زر کی توقعات پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ اگرچہ افراط زر میں اضافہ اور موجودہ قیمتوں پر جی ڈی پی کا حجم، بعض صورتوں میں قرضوں کے تناسب کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے لیکن اس سے قرض میں نمایاں کمی برقرار رہنے کا امکان نہیں ہوتا۔

چونکہ مرکزی بینکس مسلسل بلند افراط زر کو روکنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرتے ہیں، جس سے قرض کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ بہت سی اُبھرتی ہوئی منڈیوں میں، پالیسی ریٹ پہلے ہی بڑھ چکے ہیں اور مزید اضافے کی توقع ہے۔ ترقی یافتہ معیشتوں کے مرکزی بینک بھی، سرکاری قرضوں اور دیگر اثاثوں کی بڑے پیمانے پر خریداری کو کم کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ تاہم، اس کمی کو کس طرح عمل میں لایا جائے گا اس کے معاشی بحالی اور مالیاتی پالیسی پر اثرات مرتب ہوں گے۔

جیسے جیسے شرح سود میں اضافہ ہوگا، مالیاتی پالیسی میں ردوبدل کی ضرورت ہوگی، خاص طور پر ان ممالک میں جنھیں زیادہ قرضوں کے باعث خطرات کا سامنا ہے۔ اگر عالمی شرح سود میں توقع سے زیادہ تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور اس سے معاشی نمو میں کمی آتی ہے تو یہ خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔ مالیاتی حالات میں نمایاں سختی سے انتہائی مقروض حکومتوں، گھرانوں اور کاروباری اداروں پر دباؤ بڑھے گا۔ اگر سرکاری اور نجی شعبہ کو بیک وقت قرض کم کرنے پر مجبور کیا گیا تو معاشی نمو کے امکانات معدوم پڑ جائیں گے۔

غیر یقینی نقطہ نظر اور بڑھتی ہوئی کمزوریوں کے پیشِ نظر یہ بات انتہائی اہمیت اختیار کرجاتی ہے کہ ایلاسٹک پالیسی، بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ نرمی سے ردوبدل، اور معتبر اور پائیدار وسط مدتی مالیاتی منصوبوں کے درمیان درست توازن قائم کیا جائے۔ اس طرح کی حکمت عملی قرضوں کے خطرات کو کم کرے گی اور مرکزی بینکوں کے مہنگائی پر قابو پانے کے کام میں معاون ثابت ہوگی۔