کتابوں کا رومانس، کراچی کا رُخ روشن

January 12, 2022

انیسویں صدی کے مشہور امریکی شاعر اور انشائیہ نگار ہینری ڈیوڈ تھَرو (Henry David Thoreau) جن کی تخلیقات فطرت کی نغمہ گری کے لیے اور حواس پر وجدان و الہام کی فوقیت کی وکالت کے لیے معروف ہیں، کتابوں کی تہذیب پروری کے بڑے قدردان تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ تہذیب ، کتابوں کے شانوں پر ہی سفر طے کرتی ہے ۔کتابیں نہ ہوتیں تو تاریخ خاموش ، ادب بے زبان ، سائنس معذور ، اور خیال و قیاس ساکت ہی رہتے ۔ کتابوں کے بغیر تہذیب کا ارتقا ناممکن تھا ‘‘۔

کتابوں کی چاہت کے کیسے کیسے دلکش مناظر ہم نے پچھلے دنوں کراچی میں دیکھے ۔کراچی بڑا عجیب شہر ہے ۔برائیاں گننے پر آئیں تو گنتی ختم نہ ہو ، خوبیاں ڈھونڈیں تو وہ بھی اپنے ہونے کا پیہم اعلان کرتی نظر آئیں ۔ایک دنیا میں کراچی کی شہرت اب یہی ہے ، اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہ یہ ایک بے قابو شہر ہے ، ایک سیلِ آبادی ہے جس کے سامنے کسی منصوبہ بندی کا ٹھہرنا محال ہے ، المیہ یہ ہے کہ منصوبہ بندی کرنے والوں نے اب یہ کام بھی کم و بیش تج دیا ہے ، نظم و نسق سے محرومی ہے ، اسٹریٹ کرائمز ہیں،گٹر اور نالے ابل رہے ہیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، مافیائوں کی بادشاہت ہے ، ناجائز قبضے عام ہیں ۔

گذشتہ تین چار عشروں میں ایسے وقت بھی آئے کہ شہر پر شہر آشوب کا گمان ہوتا تھا ۔ لیکن پھر اسی کراچی کا اچانک ایک اور چہرہ بھی سامنے آنے لگتا ہے۔ انتہائی بدامنی کے زمانوں میں بھی زندگی کے کارواں کو رواں دواں رکھنے کی لوگوں کی سرشت ، وبا کے دنوں میں جیسے تیسے کاروبار چلانے اور معمولاتِ زندگی کو کسی طور یکسر ختم نہ ہونے دینے کی کاوشیں ، پھر یہ سب بھی کراچی میں ہوا کہ زرا حالات نے موقع دیا تو ادبی کانفرنسیں بھی ہونے لگیں، دنیا بھر کے ادیب کراچی میں رونق افروز ہوئے ، وبا نے زرا منہ دوسری طرف کیا اور وزارت تعلیم نے اشارہ دیا تو اسکولوں کی رونق پلٹ آئی، سڑکیں ایک بار پھر ٹریفک کے ہجوم میں چھپ گئیں ، بازار کھل گئے، رات گئے تک ہوٹلوں سے کھانوں کی مہک اور چائے کی خوشبو آنے لگی ۔صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ شہری معمولات کی بحالی کے جویا ہیں ، وہ زندگی کو اور اس کی خوبیوں اور حُسن کو معدوم نہیں ہونے دینا چاہتے ۔وہ علم کو اچھا سمجھتے ہیں اور کتابوں سے محبت کرتے ہیں۔ کراچی میں گذشتہ دسمبر کی 30تاریخ سے نئے سال کی 3جنوری تک جاری رہنے والا کتابوں کا پانچ روزہ میلہ اسی حقیقت کا مظہر تھا۔ان پانچ دنوں نے کیسے کیسے امید پرور مناظر دکھائے، یہ میلہ ایک رپورتاژ کا ہی نہیں ، ایک سماجی مطالعے کا موضوع بھی ہے ۔

کتابوں کے میلے اب ایک عالمی سطح کی سرگرمی بن گئے ہیں۔ دنیا کے کم و بیش سب ہی ملکوں میں یہ میلے منعقد ہوتے ہیں ۔ہر ملک میں ان کی کوئی نہ کوئی اپنی انفرادیت بھی ہوتی ہے ۔مختلف ملک ان میلوں کے ذریعے اپنی ثقافت کو بھی اظہار کا بھرپور موقع فراہم کرتے ہیں۔بعض ملکوں میں موسیقی ، مصوری ، مجسمہ سازی اور پرفارمنگ آرٹس کو بھی کتب میلوں کے دامن میں سمیٹ لیا گیا ہے اور یوں ایک مکمل ثقافتی سرگرمی وجود میں آگئی ہے ۔

دنیا کی تہذیبی تاریخ کتب میلوں سے آراستہ ہے ۔جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ہونے والے کتب میلے کی تاریخ کوئی پانچ سو سال پرانی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چھاپہ خانے اور پرنٹنگ مشین کی ایجاد کے ساتھ ہی کتب میلے کا بھی آغاز ہوا ۔ جب کتابیں بڑے پیمانے پر چھپیں تو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچیں ، لوگ بھی پھر دور دور سے کتابوں کے لیے آنے لگے ۔میلے، انسان کے ذہنِ رسا کی ایجاد ہیں ، سائنس ان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے ۔لندن کا سالانہ کتب میلہ بھی دنیاکے بڑے میلوں میں شمار ہوتا ہے ۔دنیا کے بیشتر ممالک یہاں اپنی کتابیں بھیجتے ہیں ۔

اس میلے کی انفرادیت یہ ہے کہ ہر میلے میں دنیا کے کسی ملک کو مہمانِ اعزازی کی حیثیت سے بلایا جاتا ہے ۔مہمان ملک اپنی علمی و تحقیقی سرگرمیوں اور اپنی ثقافت کی دنیا کے سامنے پیشکش کے لیے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے ۔چین کے شہر بیجنگ میں بھی 1946ء سے کتب میلے منعقد ہورہے ہیں۔ یہاں بھی کسی ایک ملک کو مہمان اعزازی کے طور پر مدعو کیا جاتا ہے ۔امریکہ، ابوظہبی ، فرانس اور ہندوستان بھی بڑے کتب میلوں کے انعقاد کے لیے مشہور ہیں ۔دنیا کے یہ سب میلے کورونا کی وبا کی وجہ سے متاثر ہوئے مگر اب زرا وبا کا زور ٹوٹا ہے تو میلوں کا ازسرِ نو انعقاد ہورہا ہے۔کراچی کا سولہواں کتب میلہ ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوتا ہے۔

مرکزِ شہر میں واقع ایکسپو سینٹر کے کشادہ ہال ان میلوں کے لیے موزوں ترین جگہ ہیں ۔مگر گذشتہ دو سال میں اس سینٹر نے دو بڑی خدمات انجام دیں۔ایک تو یہی کتب میلہ ہے اور دوسری یہ کہ کورونا کے زمانے میں جب ہسپتالوں میں جگہ تنگ ہونے لگی تو ایکسپو سینٹر کو مریضوں کے علاج اور ان کی نگہداشت کا مرکز بنادیا گیا ۔سینکڑوں متاثرین یہاں رکھے گئے اوران کی اکثریت صحت یاب ہوکر گھروں کو گئی۔

پھر جب ویکسین لگانے کا مرحلہ آیا تو ایکسپو سینٹر کے باہر دور دور تک لائنیں دیکھی گئیں اور ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں نے یہاں فراہم کردہ سہولت سے فائدہ اٹھایا۔اور اب یہی کشادہ ہال کتابوں سے سجے ہوئے تھے۔ ایکسپو سینٹر نے زندگیاں بچانے اورزندگیوں کو خیال و فکر سے روشن رکھنے کے دونوں کام خوب کیے ۔

کراچی میں انٹرنیشنل بک فیئر کا آغاز 2005ء میں ہوا۔ کتب میلے پاکستان میں پہلے بھی ہوتے رہے تھے مگر وہ یا تو کسی ایک ادارے یا کسی قومی دن کے موقع پر ایک محدود سطح پر ہوتے تھے۔عالمی کتاب میلہ ایک بڑی سرگرمی تھا۔ اس میں ملک بھر سے پبلشروں اور کتب فروشوں کو بلایا گیا۔ یہی نہیں بلکہ بیرون ملک کے پبلشرز کو بھی مدعو کرنے کا آغاز ہوا۔ امینہ سید جو ایک عرصہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی پاکستان میں مینیجنگ ڈائریکٹر رہیں اور اب لائٹ ہائوس پبلشرز کی ایم ڈی ہیں ، پاکستان میں عالمی کتب میلے کی ایک ابتدائی بنیاد گزار ہیں۔

ہندوستان میں ہونے والے میلوں میں شرکت سے انہیں خیال آیا کہ ایسا پروگرام پاکستان میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ اتفاق سے 2005ء ہی میں عزیز خالد نے بھی دنیا کے دوسرے بک فیئرز اور پھر انڈیا کے بک فیئر میں شرکت کے بعد پاکستان میں بھی ایسے کتب میلے کے بارے میں سوچا اور ملک آکر دوسرے پبلشروںسے اس سلسلے میں رابطہ کیا۔عزیزخالد پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ہیں۔

انہوں نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ ابتدائی کتب میلے پبلشرز کی اپنی کاوشوں کا نتیجہ تھے، حکومتی تعاون بعد میں حاصل ہوا۔امینہ سید کی طرح عزیز خالد بھی دنیا کے مختلف بک فیئرز میں جاتے رہے تھے۔بعد کے برسوں میں بھی ان کا ان میلوں میں مستقل جانا رہا۔فرینکفرٹ کے میلے میں انہیں احساس ہوا کہ اگر جرمنی دوسری عالمی جنگ میں شکست و ریخت کے بعد اب اتنا توانا ہوچکا ہے کہ اس کے کتب میلے دنیا کے مرکز نگاہ بن رہے ہیں تو ہم جو 1947ء میں آزاد ہوئے اور جرمنی کی تباہی کے صرف دو سال بعد ہماری آزادی ہوئی ، ہم کتب بینی اور کتب فروشی میں اتنے پیچھے کیوں ہیں۔

یہ خیال آتے ہی انہوں نے پاکستان میں میلوں کے انعقاد کا عزم کرلیا۔انہوں نے جرمنی ہی میں ایک دو کمپنیوں کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں (MOUs) پر دستخط بھی کرلیے مگر 2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں باہر کے پبلشروں نے پاکستان آنے سے معذرت کرلی۔ امینہ سید پہلے کتب میلے کو یاد کرتے ہوئے بتانے لگیں کہ 8سے 11دسمبر 2005ء کو ہونے والے اس میلے میں ہمیں ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو کی طرف سے بڑی اخلاقی حمایت حاصل ہوئی۔ اس میلے میں عالمی شہرت یافتہ مؤ رخ ڈاکٹر رومیلا ٹھاپر کی آمد نے اس میلے کے علمی وقار میں غیر معمولی اضافہ کردیا تھا۔ اور بھی ملکی اور بیرونی ممالک کے عمائدین میلے میں شریک ہوئے۔

معروف دا نش ور انور مقصود، کراچی میں سولہویں کتب میلے کا افتتاح کررہے ہیں

بس پھر ایک بڑی تحریک کا آغاز ہوگیا۔ امینہ سید نے بعد ازاں آصف فرخی کے تعاون سے کراچی لٹریچر فیسٹیول کی بھی داغ بیل ڈالی ، جو بعد ازاں کراچی سے بڑھ کر ملک کے دوسرے شہروں تک پھیل گیا۔علم و ادب سے وابستہ پاکستانی شہری اور علمی و تحقیقی ادارے امینہ سید کی ان کاوشوں کو ہمیشہ سراہتے ہیں۔عزیز خالد غیر معمولی تنظیمی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

انہوں نے گذشتہ برسوں میں پبلشرز کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا رکھنے، کتب میلوں کے لیے نت نئے خیالات متعارف کرانے، حکومتوں کے سامنے کتب کی اشاعت سے متعلق مسائل کو رکھنے، نیز قارئین سے زرائع ابلاغ کے ذریعہ مؤ ثر رابطہ رکھنے میں اپنی ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔

ان سے عرض کیا گیا کہ کتابوں کی قیمتیں باوجود اس حقیقت کے کہ میلوں میں ان پر اچھی خاصی رعایت بھی دی جاتی ہے، اب بھی غریب اور نچلے متوسط طبقے کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں میں کتابوں کے سستے ایڈیشن معمول بن چکے ہیں۔ پھر میلوں کے موقع پر تو بہت ہی سستی کتابیں بھی مل جاتی ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ کتابوں کی قیمتیں ضرور کم ہونی چاہئیں مگر ایک تو پاکستان میں کاغذ کے کارخانے نہ ہونے کی وجہ سے باہر سے کاغذ منگوانا پڑتا ہے۔ پھر حکومت کاغذ کی درآمد پر ٹیکس بھی بے تحاشا لگاتی ہو۔اگر حکومت ٹیکس میں چھوٹ دے تو کتابیں یقیناً سستی ہوسکتی ہیں۔ عزیز خالد کی بات اپنی جگہ بالکل درست ہے ،حکومت کو نہ صرف ملک میں کاغذ کے کارخانے لگانے چاہئیں اور پرائیویٹ سیکٹر کو بھی اس طرف مائل کرنا چاہیے، کاغذ پر ٹیکس میں چھوٹ بھی دی جانی چاہیے، مگر پبلشروں کو بھی اپنے منافع میں کچھ کمی کرکے اس کا فائدہ پڑھنے والوں تک پہنچانا چاہیے۔

کراچی میں سولہویں کتب میلے کا ایک منظر

اس مرتبہ کتاب میلے میں کوئی ساڑھے تین سو اسٹال لگائے گئے ۔میلے کی مینجنگ کمیٹی کے کنوینر وقار متین خان اور ان کی ٹیم نے میلے سے پہلے ٹھیک ٹھاک ہوم ورک کررکھا تھا لہٰذا کوئی میلے میں خاص بدنظمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ چند چیزیں ضرور ایسی ہیں جن کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔کتب میلے میں کتابوں کے علاوہ اور بہت سی مطبوعہ چیزیں، الیکٹرانک کتابیں (E-books)، آڈیو ویژول مصنوعات، نقشے اور ایسی ہی دیگر چیزیں مختلف اسٹالز پر موجود تھیں۔ بعض اسٹال کتابوں اور دیگر علمی مصنوعات کے تعارف اور پروموشن کی غرض سے لگائے گئے تھے۔

جن پبلشرز کو میلے میں کتابیں رکھنے کاموقع ملا ان کی اکثریت تو پاکستانی ہی تھی لیکن بیرونی کتابیں یا تو پاکستانی پبلشروں کے اسٹالز پر تھیں یا چند ایک بیرونی پبلشرز کے الگ اسٹال لگائے گئے تھے۔اس طرح کے کتب سے پاکستان کی طباعتی صورت حال کا ایک مجموعی منظرنامہ سامنے آجاتا ہے مثلاً یہی بات نوٹ کی جاسکتی ہے کہ ہمارے یہاں انگریزی نصابی کتابوں سے ہٹ کر جو عام انگریزی کتابیں چھپ رہی ہیں ان کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، رائل بکس، پیرامائونٹ پبلشرز چند ایسے پبلشرز ہیں جو انگریزی میں عام کتابیں بھی چھاپتے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر سوانح عمریاں ہوتی رہی ہیں۔ انگریزی کی عام کتابیں اب بیرونی پبلشرز کی شایع کردہ ہمارے یہاں پہنچتی ہیں اور وہی پاکستانی اسٹالوں پر بھی نظر آرہی ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان میں انگریزی کتب کو فروغ نہیں دیا گیا تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے کتب میلے بیرونی دنیا کی پروڈکٹس کی فروخت کا ذریعہ بنتے چلے جائیں گے۔

اس مرتبہ کتب میلے میں پاکستان کے سرکاری، علمی و تحقیقی اداروں کی نمائندگی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ملک کی سب ہی جامعات میں شعبوں کی سطح پر یا علیحدہ سے علمی او ر تحقیقی طباعتی ادارے موجود ہیں لیکن شاذو نادر ہی یہ اپنی کتابوں کو منظر عام پر لاپاتے ہیں ۔اس کے بھی اسباب ہیں لیکن عمومی سبب یہ ہے کہ جامعات اور دیگر علمی و تحقیقی ادارے اگر سنجیدگی کے ساتھ تصنیف و تالیف کا کام کرتے بھی ہیں تو اکثر و بیشتر ان کی مطبوعات گوداموں میں بند ہوکر رہ جاتی ہیں۔ لیکن جو ادارے اپنی چیزوں کو عام قارئین کے استفادے کے لیے منظر عام پر لاتے ہیں، ان کی مطبوعات قبولیت بھی حاصل کرتی ہیں۔ نیشنل بک فائونڈیشن ، انجمن ترقی اردو اور ایسے دیگر ادارے اس کتب میلے میں بھی سرفراز رہے اور ان کی طرف سے اس قسم کی شکایت نہیں کی گئی کہ ان کی کتابیں لوگ نہیں خریدتے ۔کتابیں اگر اچھے موضوعات پر ہوں، ان کی قیمتیں مناسب ہوں ان کی طباعت کا معیار بھی اچھا ہو تو لازماً لوگ ان کتابوں کو خریدنا پسند کرتے ہیں۔

کراچی کے حالیہ کتب میلے میں آنے والے شہری مختلف طبقوں ، مختلف نقطہ ہائے نظر اور مختلف عمروں کے حامل تھے۔ایک اندازے کے مطابق شروع ہی کے تین دنوں پانچ لاکھ کے قریب لوگ میلے میں شریک ہوچکے تھے۔جن لوگوں کو میلے میں جانے کا اتفاق ہوا وہ اس مشاہدے کی توثیق کریں گے کہ آنے والوں کی ایک بڑی تعداد مذہبی پس منظر کے حامل لوگوں کی تھی۔ ایک جائزے کے مطابق اسٹال بھی کوئی 35 فیصد مذہبی اداروں اور پبلشروں کے حصے میں آئے تھے۔ مذہبی کتابوں کے خریداروں میں دینی مدارس کے طلبہ، اساتذہ اور ان کے لائبریرین پیش پیش تھے۔ چند مذہبی کتب کے خریداروں کے مطابق وہ عام روز مرہ کے مسائل سے متعلق کتب اور خاص طور سے سستی کتب کو زیادہ خرید رہے ہیں ۔

رسول اکرمﷺ کی حیات طیبہ سے متعلق کتابیں بھی بہت بِکیں۔ ایک اور چیز جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اب دینی مدارس کے طالب علم فکشن کی طرف بھی متوجہ ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ فکشن بھی زیادہ تر وہ ہے جس کا کچھ نہ کچھ تعلق قدامت پسندی اور روایتی تاریخیت سے ہے۔ پہلے ایک زمانے میں اس میدان میں صرف نسیم حجازی کا طوطی بولتا تھا ،اب اس طرح کے کئی ناول نگار، مرد اور خواتین مذکورہ میدان میں شامل ہوچکے ہیں اور ان کو اچھے خاصے قاری میسر آرہے ہیں۔

اس کتب میلے میں خواتین کی شرکت بھی قابل توجہ تھی۔یہ خواتین مختلف طبقوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان میں جدید تعلیم یافتہ خواتین بھی تھیں۔ روایتی اور گھریلو خواتین بھی اور برقعہ پوش خواتین بھی بڑی تعداد میں دیکھی جاسکتی تھیں۔ خواتین کی اکثریت اپنے لیے کم اور بچوں کے لیے زیادہ کتابیں لے رہی تھیں۔

دلچسپ بات یہ کہ بظاہر ہمارے معاشرے کا اب یہ بھی رجحان ہے کہ بالکل چھوٹے بچوں کی تعلیم اور کتابوں کا انتخاب باپ سے زیادہ ماں کی ذمہ داری بن چکی ہے اور مائیں یہ ذمہ داری بڑی خوش اسلوبی سے ادا کررہی ہیں۔ میلے میں آنے والے بعض بچے تو اتنی کم عمر کے تھے کہ مائوں کو ان کو کچھ نہ کچھ جَنک فوڈ دے کر بہلانا بھی پڑرہا تھا۔

بعض بچے ایسی کتابوں پر اصرار کررہے تھے جو والدین کی دسترس سے باہر تھیں۔ میلے میں آنے والی اکثریت متوسط اور نچلے متوسط طبقوں کے گھر انے کی تھی ۔ یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ جہاں معیاری تعلیم اونچے طبقات کے لیے مختص ہوچکی ہے وہاں کتب میلے نچلے طبقات کو بھی علم تک پہنچانے کا وسیلہ بن رہے ہیں۔ یہ رجحان صرف کراچی میں ہی نہیں اور جگہوں پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔دو ہفتے قبل حیدر آباد میں ’ایاز میلو‘ کے موقع پر جو کتابوں کے اسٹال لگے وہاں بھی نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگ ہی زیادہ تر کتابوں کے اسٹالوں پر جمع دیکھے گئے۔

کتب میلوں کی ایک شان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں ادیب اور دوسرے اہلِ قلم خود بھی بنفس نفیس موجود ہوتے ہیں، دوسروں کی کتابیں بھی خرید رہے ہوتے ہیں اور اپنے پبلشروں کے اسٹال پر اپنی کتابیں دستخط کرکے خریداروں کو دے بھی رہے ہوتے ہیں۔ موجودہ میلے میں بھی ایسے مناظر دیکھنے میں آئے ۔قارئین کے لیے یہ بڑے یادگار مواقع ہوتے ہیں جب وہ مصنفین سے ان کے دستخطوں کے ساتھ کتابیں لے رہے ہوتے ہیں۔ ایک اور اچھی چیز جو دنیا کے اور میلوں میں بھی دیکھی گئی اور کلکتہ کے کتب میلے میں 2007 میں مجھے بھی دیکھنے کا موقع ملا وہ بڑے بڑے ادیبوں اور دانشوروں کا اسٹالوں پر آ کر بیٹھ جانا تھا۔

اس سے ایک تو یہ تاثر ختم ہوتا ہے کہ لکھنے والے کوئی ایسی مخلوق ہیں جو بنفس نفیس کتب بازار نہیں آنا چاہتے بلکہ صرف ان کی تخلیقات ہی دکانوں کی رونق بنتی ہیں۔ بڑے ادیبوں کے اسٹالوں پر بیٹھنے سے قاری اور ادیب کے درمیان قربت پیدا ہوتی ہے۔ موجودہ میلے میں بھی ایسے مبارک اسٹال موجود تھے۔ محمود شام ’اطراف‘ کے اسٹال پر پانچوں روز موجود رہے۔انہوں نے تو ایک اور دلچسپ کام یہ کیا کہ الخدمت کے ادارے’آغوش‘ سے آنے والے بچوں کو وہیں فرش پر بٹھا کر ان میں مضمون نویسی کا مقابلہ کروادیا۔سب بچوں کو انعامات بھی دیے اور اب وہ شاید ان مضامین کو کسی شکل میں شایع بھی کریں گے۔

مجھے یقین ہے کہ ان بچوں کے لیے وہ دن آئندہ زندگی میں یادگار دن بنا رہے گا۔ہوسکتا ہے انہی میں سے کوئی بڑا ادیب ،کوئی بڑا شاعر اور کوئی بڑا تخلیق کار نکلے ۔ادبی اور کتب میلے بچوں کی علمی نرسریاں بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔آرٹس کونسل کے اسٹال میں ڈاکٹر فاطمہ حسن مستقل موجود رہیں۔ کتنے لوگوں نے کتابوں پر ان سے دستخط کرائے۔اسی طرح بُک کارنر (جہلم) کے اسٹال پر شکیل عادل زادہ اور اقبال دیوان نے اپنی کتابوں پر لوگوں کو دستخط کر کے دیے ۔یوںیہ مطبوعات ان کو حاصل کرنے والوں کے لیے ایک یادگار نسخہ بن گئیں۔

یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ کتب میلے میں صرف دوسرے شہروں کے پبلشرز ہی نہیں آئے بلکہ دوسرے شہروں کے اور خاص طور سے سندھ کے مختلف علاقوں کے لوگوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ یہاں تک کہ تھرپارکر اور نگر پارکر تک کے لوگوں سے اس میلے میں ملاقات ہوئی۔ بلوچستان سے تربت اور گوادر سے آنے والے احباب بھی میلے میں نظر آئے۔ میلے لوگوں کے باہم ملنے کا کتنا اچھا ذریعہ بن سکتے ہیں اس کا احساس موجودہ میلے میں مزید پختہ ہوا۔کاروباری نقطہ نظر سے بھی یہ میلہ بہت کامیاب رہا۔ جہلم سے آنے والے’بک کارنر‘ کی کئی کتابیں مکمل طور پر ختم ہوگئیں۔ بعض پبلشرز کو میلے کے دوران ہی اپنے شہروں سے مزید اسٹاک منگوانا پڑا۔

شاید ہی کوئی پبلشر ہو جس کو اس میلے میں ناکامی ملی ہو۔ پبلشروں کے اس منفعت بخش تجربے ہی سے یہ بات ایک مرتبہ پھر اجاگر ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنے منافع میں مزید کمی کریں تو ان کی کتابوں کی فروخت اور بھی زیادہ بڑھ سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ ان کی کتابوں کے حصول میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ملک میں مہنگائی کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ غریب اور نچلے متوسط طبقے کو توچھوڑیں، متوسط طبقے کی کمر بھی ٹوٹ چکی ہے۔

ایسے میں کتابیں جن کی چاہت معاشرے میں کم نہیں بلکہ بڑھ رہی ہے ، عام لوگوں کے لیے قابل حصول بننی چاہئیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں تو اس سلسلے میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں مگران کو نجانے اس کی کب توفیق ہوگی لیکن پبلشرز اگر اس طرف مزید توجہ دیں تویہ قارئین ہی کے لیے فائدے کی بات نہیں ہوگی بلکہ ان کو بھی کاروباری اعتبار سے اس کا فائدہ ہی پہنچے گا۔

کراچی کے سولہویں کتب میلے کے کامیاب انعقاد کے بعد ضروری ہے کہ اب تک کے میلوں میں سامنے آنے والے سماجی اور تعلیمی رجحانات کا تجزیہ کیا جائے ۔یہ کام علمی و تحقیقی اداروں کے کرنے کا ہے ۔کیا ہی اچھا ہو کہ وہ دستیاب اعدادو شمار کو استعمال کرتے ہوئے ، اور مزید حقائق کی تلاش کے بعد جائزہ لیں کہ ہمارے یہ ادبی اورکتب میلے معاشرے کے رجحانات کے ضمن میں کس قسم کے اشارے کررہے ہیں۔ ایسے مطالعے پاکستان میں معاشرتی تبدیلیوں کی نوعیت اور ان کے کردار کے بارے میں جاننے کا ایک اچھا وسیلہ بن سکتے ہیں۔

کتب میلے کی توسیع و ترقی کی تجاویز

کراچی کے سولہویں کتب میلے کے بعد جہا ں اس کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ ضروری ہے وہیں اس میلے کو آئندہ بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کچھ تجاویز کو بھی زیر ِ غور لانا کارآمد ہوسکتا ہے مثلاً:

٭ کتابوں کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں کاغذ کے کارخانے قائم کیے جائیں تاکہ بیرون ملک سے کاغذ کی درآمد پر انحصار کم ہوسکے ۔

٭ کاغذ کی درآمد پر عائد ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے تاکہ کتابوں کی قیمتیں کم رکھی جاسکیں ۔

٭ ایک زمانے میں پاکستان میں محلے محلے ’آنہ لائبریریاں‘قائم تھیں جہاں سے محلے کے لوگ کتابیں لے کر پڑھتے اور ایک آدھ روز میں واپس کردیتے تھے۔ یہ لائبریریاں بوجوہ ختم ہوگئیں لیکن اگر یہ لائبریریاں واپس آجائیں اور شاید ایسا کرنا مشکل نہ ہو بشرطیکہ مقامی حکومتوں کے ادارے اس طرف متوجہ ہوں ، تو کتابیں پڑھنے کا کلچر محلّوں کی سطح پر دوبارہ سے رائج ہوسکتا ہے ۔

٭کتب میلے میں آنے والوں کی سہولتوں میں بہت سے اضافے کیے جاسکتے ہیں۔ یہ بات محسوس کی گئی کہ اتنے بڑے میلے میں فرسٹ ایڈ کا کوئی قابل ذکر انتظام موجود نہیں تھا ، اور اگر تھا بھی تو لوگوں کو اس کا پتا نہیں تھا۔لاہور سے آنے والے ایک صاحب نوفل کی انگلی کتابوں کا ریک لگنے سے زخمی ہوئی تو انہیں میلے میں کسی طبی امداد کی عدم موجودگی میں اسپتال بھاگنا پڑا، راستے میں ان کا بہت سا خون بہہ چکا تھا۔ مرہم پٹی کروانے کے بعد پتہ چلا کہ وہ اپنا پرس اسٹال پر بھول آئے تھے ، سو ہسپتال کی ادائیگی بھی رکشہ والے نے کی اوررکشہ کا کرایہ بھی لینے سے معذرت کرلی ۔ نوفل اس کا بڑا اچھا تاثر لے کر گئے ۔

٭ اتنے بڑے میلے میں جہاں لاکھوں لوگ شریک ہورہے تھے، بیت الخلاء کی صفائی کا کام واقعی بڑا چیلنج تھا۔ باوجود انتظامات کے لوگوں کو بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔خاص طور سے نماز کے اوقات میں وضو کی الگ جگہ نہ ہونے کی بنا پر واش روم ہی میں وضو بھی کیا جارہا تھا جس سے پانی اور گندگی کی بہت ہوچکی تھی اور واش رومز بار بار ناقابل استعمال ہوتے جارہے تھے۔ بزرگوں اور سینئر سٹیزنس کے لیے یہ صورت حال اور بھی زیادہ پریشان کن تھی ۔

٭ کیا ہی اچھا ہو کہ آئندہ کتب میلے میں وائی فائی کا انتظام بھی کیا جائے ۔

٭ ہر چند کہ موجودہ میلے میں سیکیورٹی کا انتظام تھا لیکن لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں آمد کے نتیجے میں بارہا ایسا محسوس ہوا کہ یہ انتظام ناکافی ہے۔ امید ہے کہ منتظمین آئندہ اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھیں گے۔

دنیا کے بڑے کتب میلے

کتب میلے اب دنیا کے سب براعظموں میں بلکہ کم و بیش سب ہی ملکوں میں منعقد ہوتے ہیں ۔جن ملکوں میں شرح خواندگی زیادہ ہے وہاں کتب میلے بھی زیاد ہ منعقد ہوتے ہیں ۔بعض ملکوں میں کتب میلوں کی تاریخ بہت پرانی ہے مثلاً جرمنی میں فرینکفرٹ کا کتابی میلہ جو دنیا کے بڑے میلوں میں شمار ہوتا ہے ایک طویل تاریخ کا حامل ہے وہاں کا کتب میلہ پندرہویں صدی میں کم و بیش اسی زمانے میں شروع ہوا جب پرنٹنگ پریس کی ایجاد ہوئی ،سو شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ یہ دنیا میں قدیم ترین کتب میلہ ہے ۔ اس میلے کے دو حصے ہوتے ہیں۔

ابتدائی ایک دو روزیہ تجارتی مقاصد کے لیے ہوتا ہے جس میں پبلشرز ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے کرتے ہیں، لائبریریاں بڑے پیمانوں پر خریداری کے آرڈر دیتی ہیں، مختلف پبلشرز اورحکومتوں کے درمیان تعاون کی یادداشتوں پر دستخط ہوتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں کتب میلے کو شہریوں کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ سو سے زیادہ ملک اس میلے میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں ۔

امریکہ میں منعقد ہونے والا میلہ ’بک ایکسپو امریکہ‘کہلاتا ہے ۔ یہ میلہ عام میلوں سے ان معنوں میں مختلف ہے کہ یہ ملک بھر میں گھومتا رہتا ہے ۔اس کا مقام ہر سال تبدیل ہوتا ہے لیکن یہ جس ریاست یا جس شہر میں بھی ہو کوشش یہی ہوتی ہے کہ موسم گرماکے اوائل میں ان کا انعقاد کیا جائے ۔اس میلے کا آغاز 1947ء میں امریکہ کے کتب فروشوں کی انجمن نے کیا تھا ۔اس میلے میں عام شہریوں کے علاوہ کتابوں کے خوردہ فروش اور لائبریریاں بہت دلچسپی کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔

ابو ظہبی کا کتب میلہ بھی دنیا کے بڑے کتب میلوں میں شمار ہوتا ہے ۔یہ کوئی پرانا میلہ نہیں ہے اور ابھی چند سال پہلے ہی شروع ہوا ہے لیکن متحدہ عرب امارات اور ابو ظہبی نے جس طرح اور شعبوں میں صدیوں کا فاصلہ برسوں میں طے کیا ہے اسی طرح ابوظہبی کا کتب میلہ بھی آناً فاناً عالمی سطح کا میلہ بن گیا ہے۔ اس میں کتابوں کی فروخت کے حقوق اور لائسنسوں کے اجراء کے معاہدے طے پاتے ہیں ۔یہ عربی زبان اور مشرق وسطیٰ کے لیے عالمی سطح پر خود کو متعارف کرانے کا بڑا کارآمد ذریعہ ثابت ہورہا ہے ۔

لندن کا کتب میلہ تقریباً پچاس سال سے جاری ہے ۔ابتدا میں اس کا آغاز اس غرض سے ہوا تھا کہ مختلف پبلشرز کی تازہ مطبوعات لائبریریوں کے علم میں لائی جاسکیں ۔ میلے نے یہ کام تو کیا لیکن جلد ہی یہ شہریوں کی ایک بڑ ی سرگرمی بن گیا۔ دنیا کے بڑے میلوں میں ہانگ کانگ کا کتب میلہ جو جولائی کے مہینے میں ہوتا ہے ، بھی شامل ہے ۔اس کا آغاز 1990میں ہوا اور یہ ابھی تک جاری ہے ۔ہندوستان میں کلکتہ کے کتب میلے کے بعد دوسرا پرانا میلہ نئی دہلی میں منعقد ہونے والا میلہ ہے ۔

یہ پہلی مرتبہ 1972میں منعقد ہوا جب اس میں دو سو کے قریب پبلشرز کی کتابیں رکھی گئیں۔ ہندوستان میں پبلشنگ کی انڈسٹری بہت پھیل چکی ہے۔کوئی بارہ ہزار سے زیادہ پبلشر ہندوستان میں بولی جانے والی اٹھارہ زبانوں میں کتابیں چھاپتے ہیں جن کی ایک بہت بڑی مارکیٹ بن چکی ہے ۔کتابوں کی تشہیر اور فروخت کے لیے جملہ ذرائع ابلاغ کو بہترین طور پر اور بڑے تخلیقی انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔