قائداعظم کے اعزاز میں پہلا شہری استقبالیہ

January 17, 2022

بلدیہ عظمیٰ کراچی کا یہ اعزاز رہا ہے کہ اس نے کراچی آنے والے مختلف ملکوں کے سربراہوں‘ وزرائے اعظم‘ مختلف شہروں کے میئرز اور معزز شخصیات کے اعزاز میں اہلیان شہر کراچی کی جانب سے شہری استقبالیہ کا اہتمام ہمیشہ تزک و احتشام سے کیا ۔ اب تک سو سے زائد سربراہان مملکت ‘ وزرائے اعظم‘ میئرز اور ملکی اور غیر ملکی اہم شخصیات کے اعزاز میں شہری استقبالیہ کا اہتمام کیا جس میں سعودی عرب کے بادشاہ، شاہ فیصل‘ عراق کے صدر صدام حسین‘ فلسطین کے رہنما یاسر عرفات‘ اُردن کے شاہ حسین‘ برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ دوئم اور دیگر شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ‘مختلف کھیلوں کی ٹیموں‘ کھلاڑیوں‘ ادیبوں ‘ شاعروں اور صحافیوں کے اعزاز میں بھی شہری استقبالیے منعقد کئے جاتے رہے۔ جو نہ صرف ان شخصیات کے لیے اعزاز کی بات ہے بلکہ یہ استقبالیے اس بات کی بھی عکاسی کرتے ہیں کہ اہلیان کراچی اپنے مہمانوں کا استقبال کرنا جانتے ہیں۔

پاکستان بننے کے بعد شہری استقبالیہ دینے کا آغاز 25اگست 1947ء کو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا اعزاز میں منعقدہ شہری استقبالیے سے ہوا۔ یہ دن بلدیہ کراچی کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رکھا جائے گا کیونکہ قیام پاکستان کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی وہ پہلا ادارہ تھا جہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود تشریف لائے اور اپنے اعزاز میں دیئے گئے استقبالئے سے باقاعدہ خطاب کیا۔

قائد اعظم کے ایم سی کی عمارت میں داخل ہوئے تو وہ سفید شیروانی میں ملبوس تھے ۔ ان کی بہن اور تحریک پاکستان کی ممتاز رہنما مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت نواب زادہ لیاقت علی خان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس وقت کے میئر کراچی حکیم محمد احسن نے قائد اعظم سمیت تمام مہمانوں کو کراچی کے شہریوں کی جانب سے خوش آمدید کہا۔ بلدیہ کی عمارت کے احاطے کے باہر لوگوں کا ہجوم اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کررہا تھا۔

شہریوں میں انتہائی جوش و خروش تھا وہ اپنے قائد سے بے انتہا محبت اور عقیدت کااظہار کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ پھولوں کے ہار پہنا کر مہمانوں کا بھرپور استقبال کیا گیا اور تمام مہمانوں کو اسٹیج پر بیٹھنے کی دعوت دی گئی۔ تلاوت قرآن حکیم فرقان مجید سے استقبالئے کا آغاز ہوا ۔ بعدازاں کراچی کے میئر حکیم محمد احسن نے قائد اعظم کی خدمت میں خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔

یہ اہل کراچی کی جانب سے پہلا سپاسنامہ تھا جو قائد اعظم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ الفاظ کیا اور معافی کیا۔ اس سپاسنامے کو ایک دستاویز محبت اور توثیق تشکیر و امتنان کہا جا سکتا ہے۔ میئر کراچی نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے کہا:

’’بلدیہ کراچی کو فخر ہے کہ پاکستانیوں نے اسی مقدس شہر میں آکر پہلے پہل اپنی چھائونی بنائی جو اس کے بانی و قائد کی جائے پیدائش بھی ہے۔

جنگ کے اثرات مابعد سے جن مشکلات سے مقامی اداروں کو دو چار ہونا پڑا ان میں سابقہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے برابر ہاتھ بٹایا لیکن کراچی میونسپل کارپوریشن اس وقت بھی محروم رہی۔ اب جبکہ بلدیاتی ذرائع محاصل سرد ہیں۔ ضروری ہے مالیہ کے بندوبست میں اس کا لحاظ رکھا جائے اور امداد دی جائے تاکہ بلدیہ اپنے فرائض سے عہدہ بر آہوسکے۔ میئر کراچی نے بعض تفریحی ٹیکس اور محصول برقیات وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے بلدیہ کے حصّے پر زور دیا۔

میئر کراچی کا عہدے و حیثیت پر بھی سپاسنامہ میں کافی زور دیا گیا میئر کراچی نے ظاہر کیا کہ کراچی کی بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظر سرکاری تقریبات میں میئر کراچی کے مناسب مقام ومرتبہ کا تحفظ از بس ضروری ہے او راس اعتبار سے خود بلدیہ کے اختیارات بھی توسیع کے متقاضی تھے اور اب بھی ہیں۔

سپاسنامہ کے جواب میں ملت کے محبوب ترین رہنما اور سالارکارواں قائد اعظم محمد علی جناح نے جن الفاظ میں میئر کراچی ،عہدیداران شہر کو مخاطب فرمایا وہ کراچی اور اہل کراچی کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:

’’کراچی کے شہریوں کے اس اجتماع میں شامل ہو کر میں حد درجہ مسرور ہوں۔ بلاشبہ مجھے یہ خوبصورت شہر بہت عزیز ہے، جو نہ صرف اس لیے کہ میں یہاں پیدا ہوا تھا بلکہ اس کے لیے کہ آج یہ پاکستان جیسی دولت خداداد اور مملکت آزاد کا دارالحکومت ہے۔ کراچی اس لحاظ سے تمام حریت پسندوں کے لیے ایک اہم اشاریہ کا کام دے گا بلکہ تاریخ میں وہ مقام پائے گا جس کی نظیر نہیں ملے گی۔ میں اسے اپنی خوش نصیبی پر محمول کرتاہوں کہ شہریوں کی جانب سے خیر مقدم کا پہلا شرف مجھے مل رہا ہے۔‘‘شہر کراچی کے محل وقوع اور خصوصیات کے بارے میں قائد اعظم نے فرمایاکہ:

’’کراچی کوئی معمولی شہر نہیں‘ قدرت نے اسے نادر خصوصیات سے نوازا ہے جو اس زمانہ کی ضروریات و حالات کے لیے قطعاً موزوں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بے حقیقت قریہ سے ترقی کر کے آج یہ اس مقام کامالک ہے اور پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب کراچی کا شمار دنیا کے بہترین عروس البلاد میں ہوگا۔

اس کا ہوائی اڈہ اور بحری بندرگاہ ہی نہیں خود شہر قابل دید ہوگا۔ ایک خصوصیت اس شہر کی یہ ہے کہ دوسرے شہروں کی طرح اس گنجان ، آباد اور فلک بوس عمارات کی وجہ سے آدمی کا دم نہیں گھٹتا۔ یہ ایک وسیع اور کشادہ شہر ہے جہاں کافی کھلے میدان ہیں اور عمارتوں کی چھتوں سے دیکھنے والوں کو کسی پہاڑی مقام کا سا لطف و سکون ملتاہے۔ بلحاظ آب و ہوا بھی کراچی اپنی مثال آپ ہے جہاں سال کے سال صحت بخش ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں مجھے کراچی کا مستقبل نہایت شاندار نظر آتا ہے اس لیے کہ یہاں تعمیر و ترقی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔

اب جب کہ یہ شہر دارالحکومت بن چکا ہے اور حکومت پاکستان کے حکام و دفاتر اور اس کے ساتھ اہل تجارت و صنعت کی آمد کا تانتا بندھا ہے اس شہر کی توسیع و ترقی کے امکانات بے حد و حساب ہیں، لہٰذا ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ یہ خوبصورت شہر ایک فخر روزگار عروس البلاد کی صورت اختیار کرے اور تجارت و صنعت اور علم و ثقافت کا مرکز بن جائے۔‘‘ قائد نے مزید کہا،’’جیسا کہ اس سپاسنامہ میں ظاہر کیا گیا ہے کہ کراچی کی بڑھتی ہوئی اہمیت یہ ہے کہ بلدیہ کراچی کی ذمہ داریاں بھی بہت بڑھ گئی ہیں۔

مجھے امید ہے کہ بلدیہ کراچی اس عظیم ذمہ داری کو بوجوہ احسن پورا کرے گی۔اس کے ہر انتظامی شعبے پر اب پہلے سے کہیں زیادہ بار پڑے گا لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارے شہر کی دانشمندانہ رہبری اور ہر ایک شہری کے تعاون سے یہ بار عظیم خوش اسلوبی سے اٹھا لیا جائے گا۔ اس کی مشکلات و مسائل پر قابو پانے کے لئے بلدیہ حکومت کی امداد ضرور حاصل کرے گی ۔کراچی کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ فرقہ وارانہ کشمکش کے اس پُر آشوب دور میں بھی یہاں لوگوں نے مروت اور رواداری کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور سب مل جل کر رہے۔

امید ہے کہ یہ صورت آئندہ بھی قائم رہے گی۔ ’’حکومت پاکستان اور حکومت سندھ، بلدیہ کراچی اور اہل کراچی کا ممنون ہے کہ انہوں نے اس ملک کی مرکزی حکومت کو صدر مقام یہاں بنانے میں خوش آمدید کہا اور جملہ سہولتیں بہم پہنچائیں۔ پاکستانی دفاتر و عمال حکومت کے آجانے پر ہندوستان و پاکستان کے تمام حصوں سے لوگ آکر کراچی کے شہریوں میں شامل ہو چکے ہیں یہ سب لوگ یہاں کی شہریوں کی طرح مل جل کر رہیں گے اور پاکستان کی تعمیر کے زبردست مواقع سے فائدہ اٹھانے میں اپنی تمام صلاحیتوں سے اس طور پر کام لیں گے کہ دوسری قومیں یقینا احترام کی نظر سے دیکھیں گی اور دنیا کی عظیم ترین اقوام کے ساتھ یہ بھی عزت و توقیر کے مساویانہ مالک ہوں گے۔ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں کے دلوں سے نہ صرف ہر قسم کا خوف و ہراس دور ہو بلکہ عوام سے غربت و افلاس بھی دور ہو اوراسلام کی بتائی ہوئی حقیقی آزادی‘ مساوات اور برادر نوازی کا ہر جگہ دور دورہ ہو۔

میئر کراچی اور کونسلر صاحبان!

میں ایک بار پھر آپ کے پُرخلوص سپاسنامہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ محمد علی جناح