کشمیر کو پس پشت ڈالنا ناممکن

January 16, 2022

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی استبداد کی تاریخ اُتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان اور بھارت کی۔مودی سرکار کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جب پوری پاکستانی قوم اور حکومت کی جانب سے مودی سرکار کے خلاف سفارتی جنگ لڑنے کے فیصلہ کیا گیا تو یہ مسئلہ پھر سے دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل میں بھی منظور شدہ قراردادوں کی صورت میں موجود ہے لیکن اقوامِ عالم کی عدم دلچسپی اور خاص طور پر بڑی طاقتوں کی بے حسی بلکہ متعصبانہ کردار کی وجہ سے یہ مسئلہ تاحال حل طلب چلا آ رہا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت شروع دِن سے مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل کو اپنے منشور میں شامل کیے ہوئے ہے۔گزشتہ روز مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ ہماری حکومت کی ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے کہ بھارت سے 100سالہ امن کیلئے کشمیر کو پشت پر ڈال دیا جائے۔ قومی سلامتی پالیسی کے تحت سیکورٹی عام شہری کا جانی و معاشی تحفظ ہے، ہماری جامع قومی سلامتی پالیسی کا دارومدار معاشی پالیسی پر ہے،پاکستان خطے میں امن اور کنیکٹویٹی ضرور چاہتا ہے لیکن ہماری اپنی شرائط ہیں۔ پاکستان کا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ کشمیریوں کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حقِ خود ارادیت دیا جائے اور اُس کے لیے کشمیر میں ریفرنڈم کرایا جانا چاہیے تاکہ کشمیری عوام یہ فیصلہ خود کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ بہت ہی مثالی صورت حال ہوگی لیکن بھارت کی طرف سے حق خود ارادیت سے مسلسل انکار نے حالات کو آج یہاں تک پہنچا دیا ہے۔پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کرنا ہوںگی۔بھارت کو اپنی ہٹ دھرمی سے باز آکر کشمیریوں کو ان کا حق دینا ہو گا اور اقوام متحدہ کو حق و انصاف کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998