اُڑنے والی گاڑی اور کرنل جمشید ترین

January 16, 2022

میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری زندگی میں وہ وقت بھی آسکتا ہے جب لوگ دفتر اڑنے والی گاڑی میں جایا کریں گے -یقین کیجیے چند برسوں میں ایسا وقت آنے والا ہے۔ ہزاروں اڑنے والی گاڑیاں فیکٹریوں میں تیارہوچکی ہیں جو کسی بھی وقت مارکیٹ میں آ سکتی ہیں ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اڑنے والی گاڑی سڑک پر دوڑنے والی گاڑی سے سستی ہوگی۔لگتا ہے بہت جلد شہروں کی فضا میں ہر طرف اڑن کھٹولے اُڑتے پھرتے ہوںگے ۔یہ اڑنے والی کار کیا ہے۔ یہ ایک بڑے سائز کا کیمرے کےلیے استعمال ہونے والا ڈرون ہے۔ اسی میں ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ بنا دی گئی ہے-اسےچلانے کےلیے کسی پائلٹ کی ضرورت نہیں -ایک ڈرون اڑانے والا بچہ اس کار کو آسانی سے اڑاسکتا ہے۔ کار کی ڈرائیونگ اس سے زیادہ مشکل کام ہے۔ اس اڑنے والی گاڑی کو چلانا سیکھنے کےلیے پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگیں گے۔یہ اڑنے والی کار مجھے کالم لکھتے ہوئے کیوں یاد آئی ہے۔

دراصل نظریہ پاکستان نے ایک تقریب رکھی ہوئی تھی یہ تقریب کرنل جمشید ترین کی یاد میں تھی جنکےبیٹا شوکت ترین اس وقت پاکستان کے وزیر خزانہ ہیں۔ شوکت ترین نے گفتگو تو اپنے والد گرامی کے حوالے سے کی مگر اس میں جو پاکستان کی ترقی کا یقین تھا اسے دیکھ کر مجھے لگا کہ پاکستان میں بھی بہت جلد اڑنے والی گاڑیوں کی ریل پیل ہو گی۔ مجھے پہلی بارکرنل جمشید ترین کے متعلق اتنی تفصیل سے معلومات ملیں۔ میں ان کے متعلق نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید کی گفتگو درج کررہا ہوں۔

کرنل(ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بے لوث سپاہی تھے۔ کارکنان تحریک پاکستان کی کہکشاں کے جگمگاتے ستارے، 18جنوری 2016کو جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ وہ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین رہے۔ لوگ ان کی خوش گفتاری اور خوش لباسی کو بطور مثال پیش کرتے تھے۔ وہ ایسی شخصیت تھے جن کی موجودگی آپ کو حوصلہ دیتی ہے۔ وہ ایک فرد نہیں‘ ادارہ تھے‘ اپنی ذات میں انجمن۔ انہوں نے ایک دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد ماجد خان دوست محمد خان ترین تحصیلدار تھے اور اپنے علاقے کے ایک دیانتدار افسر کے طور پر جانے اور مانے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عزت‘شہرت‘دولت غرضیکہ تمام دنیاوی نعمتوں سے مالامال فرمایا مگر اپنے جس وصف کی بدولت انہوں نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا،وہ ان کی غریب پروری تھی۔ وہ سر تا پا پاکستان کی محبت میں رنگے ہوئے تھے۔ ان کی گفتگو پاکستان کے اوصاف اور قیام پاکستان کے طفیل حاصل ہونے والی نعمتوں پر اظہارِ تشکر پر مبنی ہوتی تھی۔1941 میں جب انہوں نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور کچھ عرصہ بعداس کے صدر منتخب ہوئے۔ بعدازاں1943 میں آپ کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں اس تنظیم کا جنرل سیکرٹری چنا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر اگست1946 میں تحریک سول نا فرمانی کا آغاز ہوا تو آپ نے بڑی جرأت و پامردی سے اس میں حصہ لیا۔ نہ صرف پولیس کا تشدد سہا بلکہ حصول پاکستان کی اس جدوجہد میں جیل جانے کا شرف بھی حاصل کیا۔ 1946 کے تاریخ ساز انتخابات میں بھی آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدوار وں کے حق میں بھر پور انتخابی مہم چلائی۔ جب 14اگست1947کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت معرض وجود میں آ گئی اور مشرقی پنجاب و دیگر علاقوں سے لاکھوں مسلمانوں کو بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے خوابوں کی سرزمین کی جانب ہجرت کرنا پڑی تو آپ نے ان کی بحالی کے عمل میں دل وجان سے حصہ لیانیز مہاجر کیمپوں میں انہیں طبی امداد مہیا کی۔ انہیں متعدد بار قائداعظم کو ملنے کا شرف حاصل ہوا۔وہ قیامِ پاکستان کے بعد آرمی میں چلے گئے۔ یہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد گنگا رام اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ 1977میں مجلس کارکنانِ تحریکِ پاکستان کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ باہمی اشتراک سے کام کررہے ہیں۔ کرنل جمشید ترین وفات سے 2ماہ قبل تک ان اداروں کی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کرتے رہے۔28 نومبر 1998کو وہ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے ٹرسٹی بنے اور اگست2009 میں انہوں نے اس کے چیئرمین کا منصب سنبھالا۔ تب سے وہ ہر چند روز بعد باقاعدگی کے ساتھ ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور آیا کرتے۔ اس ادارے کا مقصد ہی چونکہ قائداعظم محمد علی جناح کے بے لوث سپاہیوں کی دیکھ بھال اور ان کا اعتراف خدمت ہے۔لہٰذا ان کی زیر نگرانی ٹرسٹ پہلے سے کہیں زیادہ متحرک ہو گیااور کارکنان تحریک پاکستان اسے اپنی جائے پناہ تصور کرنے لگے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کے رکن کی حیثیت سے بھی انہوں نے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ اس کے زیر اہتمام منعقدہ تقریبات میں بڑے اہتمام سے شریک ہوتے اور شرکاء کو اپنے علم اور تجربے سے مستفید کرتے۔ وہ انتہا ئی وسیع المطالعہ شخص تھے۔ رسماً نہیں صحیح معنوں میں مجلسی آدمی تھے۔ تاریخ پر انہیں مکمل عبور تھا۔ حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے ’’مجھے نبی کریمؐ کی زیارت ہوئی ہے۔ بتایا کہ خواب میں ایک صاحب نے نبی کریمؐ کو بتایا کہ یہ جمشید احمد ترین ہیں۔ آپؐ نے جواب میں فرمایا‘ یہ اچھا آدمی ہے‘‘۔ کرنل صاحب ایک عرصہ تک اس کیفیت اور سعادت کی سرشاری میں رہے۔ اپنے دفتر میں حافظ مرغوب احمد ہمدانی کو مدعو کیا اور نعتیں سنیں۔ مجید نظامی مرحوم بھی اس محفل میں شریک ہوئے۔ کرنل(ر) جمشید احمد ترین مرحوم کے مشن کو ان کے صاحبزادگان سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور معروف بینکر عظمت ترین آگے بڑھا رہے ہیں، یہ دونوں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتے ہیں، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید کامیابیاں عطا فرمائے۔