منی بجٹ۔ نئے سال کا تحفہ

January 16, 2022

سال 2021 اختتام کو پہنچا،جو کہ غریب پاکستانیوں کیلئے انتہائی مشکل سال رہا۔ پورے سال ہونے والی مہنگائی اور اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافے نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنائے رکھی۔ اور اب سال نو کے آغاز پر حکومت نے منی بجٹ کی صورت میں شہریوں پر مہنگائی بم گرادیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرط پر بنایا گیا منی بجٹ ملک کے لیے تباہی کا نسخہ ہے، کچن آئٹمز، ادویات، صنعتی و زرعی سامان، ہوٹلنگ، کمپیوٹرز، موبائل فون اور کاروں سمیت تقریباً 144 سے زائد اشیاء پر17 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرکے 360 ارب روپے حاصل کئے جائیں گے۔ غریب پاکستانی پہلے ہی معاشی بے یقینی کی صورتحال کی وجہ سے فکر مند ہیں۔ غریب و مزدور طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لوگ حالات سے مجبور ہوکر خود کشیاں کررہے ہیں، بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں۔ ان حالات میں منی بجٹ کے اثرات سے مہنگائی کا پہلے سے بلند گراف مزید بلند ہو جائے گا۔ کورونا کے اس دور میں جبکہ آمدنیوں میں اضافہ متوقع نہیں یہ اضافی بوجھ عوام کی مالی مشکلات کو دوچند کرنے کا باعث بنے گا اور اس کے نتیجے میں غربت کی شرح بڑھنے کے اندیشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اقتدار میں آنے سے قبل تحریک انصاف کے رہنما اپنے دھرنوں، جلسوں اور ریلیوں میں بلند و بانگ دعوے کرتے کہ ان سے بڑا عوام کا خیر خواہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ ملک سے مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کا خاتمہ کرنے کی بات کرتے، اور یہ بھی کہتے کہ ان کے دور حکومت میں غریبوں کو ریلیف ملے گا اور عوام خوشحال ہوں گے۔ ان کے یہ دعوے سن کر پاکستانی عوام کو یوں لگا جیسے یہی ان کے مسیحا اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے والے لوگ ہیں۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور تبدیلی کے دعویداروں نے سب سے زیادہ پاکستانی عوام کو مایوس کیا ہے۔ کیونکہ جس دن سے پاکستان تحریک انصاف برسر اقتدار آئی ہے عوام کو میسر تمام ریلیف اور سبسڈیاں ختم کردی گئی ہیں، اس کے علاوہ روز بروز بڑھتی مہنگائی کا سلسلہ رکنے کو نہیں آرہا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دکاندار کیلئے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کیلئے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کیلئے تجارت اور کسان کیلئے کاشتکاری مشکل ترین ہوگئی ہے۔

منی بجٹ کی صورت میں اب کپتان آسمان سے جوایک بہت بڑاتازہ تاراتوڑکرلائے ہیں،اس کے بعدبھی اب اگرکوئی ان ایماندارحکمرانوں سے کسی خیر اوربھلائی کی کوئی امیداورتمنارکھتاہے توان کوایک بار اپنے دماغ کااک چھوٹاسا ٹیسٹ ضرور کرنا چاہئے۔ جو کپتان 3 سال میں عوام کیلئے کچھ نہ کرسکے وہ اب کیا کرلیں گے؟ لوگ 3 سال سے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن کپتان اورکپتان کے نیک وپارسا وزیراورمشیربجائے اس آگ کوبجھانے کے اس پرتیل چھڑک کر ہوا پر ہوا دے رہے ہیں۔منی بجٹ یہ آگ پرتیل چھڑکنانہیں تو اور کیاہے؟لوگ پہلے سے مہنگائی،غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں بھوک وفاقوں سے مررہے ہیں اوریہ ظالم اوپرسے منی بجٹ اورنت نئے ٹیکسز کے ذریعے ان کے ناتواں کندھوں پرمزیدبوجھ لادتے اورڈالتے جارہے ہیں۔ان کو کیا پتہ کہ بھوک کی سختی اورغربت کی تختی کیاہوتی ہے؟ کیاموجودہ حکمرانوں کاعوام پرمہنگائی کے بم برسانے اورانہیں بھوک، افلاس اورفاقوں سے مارنے کے علاوہ اورکوئی کام نہیں۔حکمران رعایاکے منہ سے اس طرح بجٹ اور منی بجٹ کے ذریعے نوالے چھینتانہیں بلکہ وہ بھوک، افلاس،غربت اورفاقوں کے مارے عوام کے منہ میں نوالے ڈالتاہے۔اپنی ہرتقریرمیں ریاست مدینہ کا تصوراورخاکے پیش کرنے والے کپتان کیاحضرت عمرفاروقؓ کی حکمرانی اور اندازِ حکمرانی کوبھول گئے ہیں۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی نے ہمیشہ کراچی کے بلدیاتی اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھا۔ بلدیاتی الیکشن نہیں کروائے، ایڈمنسٹریٹر تعینات کر کے کراچی کے وسائل کو لوٹا، جماعت اسلامی نے اپنے میئر عبدالستار افغانی کے2 ٹرم میئر شپ میں اور نعمت اللہ خان کے سٹی ناظم کے دوران کرا چی کے عوام کے حقوق بحال کیے، شہر میں بے مثال ترقیاتی کام ہوئے، سڑکیں اور کئی فلائی اور اور انڈر پاس اورپارک بنے، شہر میں تعلیم کے لیے لاتعدادکالج قائم کیے،پانی کے لیے کے فور منصوبہ منظور کیا۔ صحت کے لیے کئی نئے اسپتال قائم کیے،سب سے بڑی بات کہ کرپشن کا نام نشان ختم کیا، پیپلز پارٹی کی طرح ایم کیوایم نے بھی کرپشن کی،پارک پر اپنے سیاسی دفاتر بنائے، نعمت اللہ خان نے عدالت میں ان دفاتر کو ختم کرنے کے لیے مقدمہ قائم کیااور سپریم کورٹ نے نعمت اللہ خان کے حق میں فیصلہ دیا۔ پارکوں سے ایم کیوایم کے سیاسی دفاتر ختم کرنے کے لیے انتظامہ کو حکم دیا۔ مگر انتظامیہ نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ عبدالستار افغانی کے میئر شپ کے دوران جب اس نے سندھ گورنمنٹ کے سامنے سوال رکھا کہ کراچی کی سڑکیں تو بلدیہ بنائے اور وہیکلزٹیکس سندھ حکومت عوام سے وصول کرے یہ زیادتی ہے۔ اسے بلدیہ کا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ مگر غوث علی شاہ جسے ڈکٹیٹر جنرل ضیا ء نے لگایا تھا نہیں مانا اور دفعہ144لگا دی۔ اس پر میئر کراچی عبدالستار افغانی نے قانون کا پاس رکھتے ہوئے 2، 2کی ٹولیوں میں اپنے101 بلدیاتی کونسلوں کے ساتھ مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے بلدیہ سے سندھ اسمبلی تک احتجاج کیا تھا۔مگر پولیس گردی کے ذریعے اس جائز مطالبہ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔میئر سمیت101بلدیانی کونسلروں کو جیل میں بند کر دیاگیا۔بعد میں عدالت نے ان کو رہا کیا۔قارئین یہ ساری کہانی بتانے کا مقصد یہ ہے کہ کراچی کے عوام کے نہ پیپلز پارٹی،نہ ایم کیوایم اور نہ ہی پی ٹی آئی ہمدرد ہے۔ کراچی کے عوام کی صرف جماعت اسلامی ہمدرد ہے۔ ایک بار پھر پیپلز پارٹی نے کالا قانون پاس کیا ہے جس سے کراچی کے عوام کے جائز حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔