روس یوکرین سرد جنگ اور برطانیہ

January 16, 2022

دہائیوں سے چلی آ رہی روس امریکہ سرد جنگ کے بعد اب برطانیہ بھی براہِ راست اس جنگ میں کود چکا ہے، خصوصاً 2018میں برطانیہ کے علاقے سیلسبری میں مقیم ایک سابق روسی جاسوس جو ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کر رہا تھا اور اب روس سے بھاگ کر برطانیہ میں پناہ لیے ہوئے تھا، اُس کی بیٹی کو زہر دینے اور قاتلانہ حملے کے بعد برطانیہ نے 23روسی سفارتکاروں کو برطانیہ بدر کرنے کا فیصلہ کیا تو روس نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے 73برطانوی سفارتکاروں کو روس سے نکال دیا تھا۔ ابھی پچھلے مہینے روس یوکرین چپقلش دوبارہ شروع ہوئی تو برطانوی وزیر خارجہ الزبتھ ٹرس نے انتہائی جارحانہ انداز میں کہا کہ ہم یوکرین کے معاملے میں روس کو کسی قسم کی کارروائی سے روکیں گے۔ اُن دنوں برطانوی شہر لیور پول میں دُنیا کے امیر ترین ممالک کے وزراء خارجہ یعنی ’جی سیون‘ کی کانفرنس ہو رہی تھی، اس کانفرنس میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی، جرمنی اور جاپان کے وزراء خارجہ بھی شریک ہوئے۔ یوکرین جو اِس وقت مشرق و مغرب کے مابین کشیدگی کی بڑی وجہ بنا ہوا ہے، نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ہمارے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کیلئے بڑی تعداد میں اپنے فوجی ہماری سرحد پر اکٹھے کر لیے ہیں۔ دوسری طرف روس نے امریکہ، برطانیہ اور بعض یورپی ممالک پر الزام لگایا کہ یہ ممالک کیوں ہمارے علاقائی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں جبکہ برطانیہ و دیگر اتحادی ممالک اسے روس کی مطلق العنانیت سے تشبیہ دیتے ہیں اور علانیہ کہہ رہے ہیں کہ اگر روس نے جارحیت کی تو ہم یوکرین کی ہرممکن مدد کریں گے، اس ضمن میں یہ بات مدِنظر رکھی جانی ضروری ہے کہ یوکرین کی سرحد روس اور یورپی یونین سے جُڑی ہوئی ہے۔ ماضی میں جب روس سوویت یونین تھا تو اِن دونوں ممالک کے ثقافتی اور سماجی تعلقات بہترین تھے لیکن 2014میں روس نے یوکرین پر الزام لگایا کہ وہ اُسے غیرمستحکم کرنے کیلئے بعض ممالک کا آلۂ کار بن رہا ہے چنانچہ یہیں سے اس تنازع کا آغاز ہوا اور برطانیہ، امریکہ سمیت جی سیون ممالک اس تنازع کا حصہّ بن گئے۔ ابھی چار روز پہلے برسلز میں نیٹو اور روس کے درمیان یوکرین کے مسئلے پر منعقد ہونے والا اجلاس بےنتیجہ ختم ہو گیا، اس نیٹو، رشیا کونسل کے اجلاس میں دونوں فریقین نے اپنا سابقہ موقف ہی دہرایا۔

یاد رہے کہ 2014میں روس نے یوکرین کے مشرق میں واقع کریمیا کے علاقہ کو روس کا حصہّ بنا لیا تھا اور بڑی تعداد میں اپنی افواج بھی اُس علاقے میں تعینات کر دی تھیں لیکن روس ہمیشہ موقف اختیار کرتا ہے کہ اپنے علاقوں میں فوجی دستوں کی نقل و حرکت ہمارا اندرونی معاملہ ہے جو کسی کیلئے باعثِ تشویش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہاں ہماری فوجی مشقیں ہوتی رہتی ہیں۔ دوسری طرف یوکرین کا کہنا ہے کہ کریمیا اور ہماری سرحد پر روس کے تقریباً 80ہزار فوجی دستے موجود ہیں۔ اب مغربی ممالک خصوصاً جی سیون ممالک کیلئے یہ صورتحال باعث تشویش یوں بھی ہے کہ ان کے مطابق روس فوجی قوت کا مظاہرہ نہیں بلکہ جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ ان ممالک کی یہ تشویش قدرے درست بھی لگتی ہے کیونکہ روس کا روّیہ اس ضمن میں انتہائی سخت اور صاف ہے، اس کا کہنا ہے کہ یوکرین نے کشیدگی بڑھائی اور دوسرے ملکوں نے یہاں مداخلت کی تو یہ یوکرین کے خاتمے کا آغاز بھی ہو سکتا ہے اور پھر گولی ٹانگ پر نہیں چہرے پر ماری جائے گی۔

روس یوکرین تنازع کا آغاز 1991میں کمیونزم کے خاتمے کے بعد شروع ہوا جب روسی دستوں نے سابقہ سوویت یونین کے کئی علاقوں میں مداخلت کی کیونکہ اس سے پہلے مغربی ممالک کے حمایت یافتہ مظاہرین یوکرین کے دارالحکومت میں مظاہرے کروائے اور روسی حمایت یافتہ حکومت گرادی تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی سال سے جاری جھڑپیں گو کہ باقاعدہ جنگ نہیں لیکن اس کے باوجود 2014کی لڑائی میں 13ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ ابھی چند روز قبل یوکرین تنازع پر امریکہ نے روس کو کھلی دھمکی دی ہے کہ نیٹو فورسز روس کو بھرپور جواب دینے کیلئے تیار ہیں حالانکہ یوکرین نیٹو کا اتحادی ملک نہیں ہے لیکن اِس کے باوجود روس کو اِس قسم کی دھمکی مغربی ممالک کے روّیے اور ارادے کو آشکار کرتی ہے، یوکرین کے صدر ’’نیٹو‘‘ پر زور دے رہے ہیں کہ ہمیں بھی 30ملکوں کے اس اتحاد میں شامل کیا جائے لیکن ’’نیٹو‘‘ کے سیکرٹری جنرل کے مطابق فی الحال یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ہم نے یوکرین کی مدد کیلئے 40ہزار افواج اور ضروری ہتھیار بحیرہ اسود اور بالٹک کے علاقوں تک پہنچا دیے ہیں۔

برطانیہ امریکہ اور ’’نیٹو‘‘ اتحادیوں کی مذکورہ جھگڑے میں پوری طرح سے شمولیت کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ کشیدگی تیسری عالمی جنگ کے حالات پیدا کررہی ہے لیکن دوسری طرف انہی ممالک کی طرف سے دنیا کو امن و جمہوریت کے اسباق چہ معنی دارد؟ اِن عالمی قوتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی دُنیا جنگ و جدل کا میدان بنی رہی لیکن عالمی امن کے ٹھیکیدار یہ ممالک اور اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنا رہا۔ یہ ویت نام کی خوفناک جنگ ہو، پاک بھارت تین جنگیں اور کشمیر کے مسئلہ پر مسلسل چیقلش، ایران عراق اور خلیج کی جنگ، شام و یمن کے تنازعات یا پھر فلسطین اسرائیل کے درمیان مسلسل جنگ کی صورتحال، اقوامِ متحدہ کی کمزوری کے باعث دنیا متواتر ایک میدان جنگ بنا رہا لہٰذا اگر اب روس یوکرین تنازع شدت اختیار کر گیا اور برطانیہ امریکہ سمیت ’’نیٹو‘‘ فورسز اس میں کود پڑیں تو پھر اس جنگ اور اس کی ممکنہ تباہ کاریوں سے دنیا کا کوئی خطہ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ آج بظاہر کوئی عالمی جنگ نہیں ہو رہی لیکن اس کے باوجود افغانستان، شام، یمن، فلسطین، لیبیا، برما اور افریقہ کے کئی ممالک میں پراکسی جنگیں یا جھڑبیں انسانی خون پانی کی طرح بہانے کا سبب بن رہی ہیں کیونکہ نا انصافیوں ظلم اور اپنی طاقت منوانے کی لامحدود اور بےلگام خواہش نے دنیا بھر میں جنگ کا ایندھن فراہم کررکھا ہے، تاریخ گواہ ہے اور خصوصاً برطانیہ کو تو یہ حقیقت ذہین میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ عالمی جنگوں نے ہمیشہ سپر پاورز کی حیثیت کو تبدیل بلکہ کم کیا ہے، وہ برطانیہ جس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا آج یہ انگلینڈ، ویلز، اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے!