مارگئی یہ منہگائی

January 23, 2022

میری پاکستان کے 20کروڑ عوام کی جانب سے جناب چیف جسٹس آف پاکستان، گلزار احمد سے ہم دردانہ اپیل ہے کہ خدارا! اب بہت ہوگیا،ہم غریبوں کے صبر کا پیمانہ اب لب ریز ہوچُکا ہے کہ یہ منہگائی کا طوفان تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔پہلے پہل تو یہ سوچ کر چُپ رہے اور برداشت کرتے رہے کہ چلو، نئی نئی حکومت ہے، سابقہ حکومت نے اتنی کرپشن کی ہے کہ خزانہ خالی ہو چُکا ہے، تو موجودہ حکومت کچھ عرصے یا ایک آدھ سال میں سب کنٹرول کر لے گی، حالات قابو میں آجائیں گے، لیکن اب تو حالات یہ ہیں کہ مہینوں کے نہیں، دِنوں کے حساب سے منہگائی میں اضافہ ہورہا ہے اور اب تو بات درسی کتب اور جان بچانے والی ادویہ تک آن پہنچی ہے۔

پھر بھی محترم وزیر اعظم اور ان کے ہرکارے فرماتے نہیں تھکتے کہ ’’پاکستان اس خطّے کا سستا ترین مُلک ہے۔‘‘ تو جنابِ والا! یقیناً یہ سَستا ترین مُلک ہوگا، لیکن ذرا اس خطّے کی دیگر اقوام اور ہماری معاشی حالت، تن خواہوں، اجرتوں کا بھی جائزہ لے لیں۔چلیں، آپ معاشی بحران پر قابو پانے میں ناکام ہوئے، سو ہوئے، یہ بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ مُلک میں منہگائی زیادہ ہے، عوام پریشان ہیں، ان کا جینا دوبھر ہو گیا ہے، یہاں تک کہ نوبت فاقوں تک آن پہنچی ہے۔

پھر وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات، فواد چوہدری اور وزیرِ خزانہ،شوکت ترین کےمعرکتہ لآرا بیانات سونے پہ سہاگے کا کام کرتے ہیں۔ متعلقہ حلقوں کی جانب سے بنیادی اشیائے ضروریہ کنٹرول کرنے کی ہدایات تو جاری کردی جاتی ہیں، لیکن عملاً کچھ ہوتا دِکھائی دیتا ہے، نہ کوئی اُمید نظر آتی ہے۔ وفاقی ادارۂ شماریات کی جانب سے جاری کردہ ہفتہ وار اعدادو شمار بھی کچھ اور ہی کہانی سُناتے ہیں۔

جب راتوں رات پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 4روپے اضافہ کیا جا سکتا ہے، تو باقی اور تو کیا ہی کہیے۔ مُلک واقعی سونامی کی زد میں ہے، ’’منہگائی کے سونامی‘‘کی۔ چیف جسٹس صاحب! خدارا! ہماری آپ سے التجا ہے کہ اس مسئلے کا فی الفور از خود نوٹس لیں، مداخلت کریں اور ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کے ریٹس کم کروائیں۔

آج کراچی سے خیبر تک ہر شخص سخت پریشانی، بدحالی کا شکار ہے، بے روزگار نوجوان خود کشیاں کر رہے ہیں، پوری قوم مایوسی و نااُمیدی کی زد میں آکر، ذہنی مریض بن چُکی ہے۔اب منہگائی، غربت، بھوک ، افلاس ، بےروزگاری کا خاتمہ اشد ضروری ہے کہ یہی عوامل جرائم میں اضافے کا بھی سبب بنتے ہیں۔ سر! مانا کہ خوش حال تو ہم کسی بھی دَورِ حکومت میں نہیں تھے، لیکن اس دَور میں تو حقیقتاً غربت، منہگائی اور بےروزگاری کے ہاتھوں بس بے موت مرنے کو ہیں۔ (شہناز سلطانہ، گلزارِ ہجری ، کراچی)