ہمیں شعر سنانے کا شوق نہیں، لیکن...

January 23, 2022

ہمیں دیگر شعراءکی طرح شعر سنانے کی کوئی ہڑک نہیں کہ اگر کبھی کوئی فرمائش کر بیٹھتا ہے، تو حافظہ ساتھ نہیں دیتا۔ یہ تو بس تمہید تھی، ہاں توقصّہ یہ ہے کہ ہمارے محکمے کی طرف سے ساحلِ سمندر پر ایک تقریب منعقد کی گئی، جس میں ہمارے سینئرز نے ازراہِ تلطّف مہمانوں کو مدعو کرنے کے دعوت نامے ہمیں بھی دیئے۔چناں چہ ہم نے مِن جملہ دوسرے احباب کے، اپنے ایک نہایت ہی محترم پروفیسر اور معروف سینئر شاعر کو مدعو کرلیا اور انہوں نے جھٹ شرکت کی ہامی بھی بھر لی۔

تقریب کے دن بادل آچلے تھے، فضا خوش گوار تھی۔میرے ممدوح حسبِ وعدہ پابندیٔ وقت کے ساتھ تشریف لے آئے۔ اس تقریب میں صرف ایک پروفیسر صاحب اور دوسرے بہ زعمِ خویش ہم خود، دو ہی لوگ قبیل و مسلکِ شاعری سے تعلق رکھتے تھے، لہٰذا ہم انہیں لے کرایک طرف بیٹھ گئے۔ سلام ، دُعا اور ٹھنڈے شربت سے اُن کی تواضع کے بعد ہم نے اُن سے غزل سنانے کی فرمائش کر ڈالی، تو پروفیسر صاحب بولے ’’ارے بر خوردار! آپ کچھ سنائیے۔ ‘‘ توہم نے ان سے یہی عرض کی کہ’’ حضور! حافظہ ساتھ نہیں دیتا، لہٰذا پہلے اپنا کلام عطا کریں، کچھ یاد آیا تو یہ خادم بھی سمع خراشی کرے گا۔‘‘یہ کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی ایک غزل مترنّم انداز میں سُنائی اور پھر حسبِ فرمائش مزید کچھ شعر گوش گزار کیے۔

اب پھر اُنھوں نے تکلّفاً کہا کہ’’ میاں! کچھ تو سناہی دو۔‘‘ پھرہم نے بھی تمام تکلّفات بالائے طاق رکھتےہوئے عرض کیا کہ’’جنابِ والا! حافظہ کچھ کچھ کام کرنے لگا ہے، لہٰذا ایک غزل کے کچھ اشعار نذرِ سماعت ہیں۔‘‘ دریں اثناء ایک غزل مکمل کرتے ہی انھیں دوسری غزل سُنا دی اور انھوں نے دونوں غزلوں کی بے حد اونچی آواز میں تعریف اور پذیرائی کی۔ تعریف سُننے کی دیر تھی کہ ہم نے مزید دو غزلیں ان کےگوش گزار کیں، تو انھوں نے گرچہ چہرے پر شگفتگی طاری کیے رکھی، لیکن تعریف و داد کی آواز بہت ہلکی ہو چلی تھی۔

اسی دوران انھوں نے دیکھا کہ اس شخض کا حا فظہ تو غضب کا چل رہا ہے اور وفورِ ذہانت سے آنکھیں چمک رہی ہیں، تو کچھ سہم سے گئے۔ چند اور اشعار سماعت کرنے کہ بعد تو مجذوبوں کی طرح عالمِ وجد میں آگئے اور اب محض ان الہامی اشعار کو اس انہماک کے ساتھ عالمِ سکرات میں داخلِ گوش کر رہے تھے کہ بقول پنڈت دَیا شنکر نسیم ’’کاٹو تو لہو نہ تھا بدن میں‘‘۔ان کا یہ ذوق دیکھ کر اور بھی حوصلہ افزائی ہوئی اور سچ تو یہ ہے کہ ایسی قدر دانی ہی شوقِ شعر گوئی بڑ ھا تی ہے۔

خیر، چند مزیدا شعار پڑھ کر اُن کی طرف دیکھا تو عجب عالم پایا ۔ سر کے بال بکھر چکے تھے، ایک آنکھ بند، ایک کُھلی تھی۔ چشمہ آدھا ماتھے پر، آدھا چہرے پر لٹکا ہوا ، گریبان کے بٹن کھول لیے تھے، ٹائی کی گرہ کب کی ڈھیلی ہو چُکی تھی۔ سر کو کرسی کی پشت پر گرائے چاروں ہاتھ پیر ڈالے کرسی پر پڑے ہوئے تھے۔ دریں اثنا، ایک واقف کار دخل در معقولات اوریک سر یہ بات نظر انداز کرتے ہوئے کہ ایک سینئر شاعر، جونیئر کو اس قدرانہماک سے سُن رہا ہے،آن موجود ہوئے اور لگے اِدھر اُدھر کی ہانکنے۔

خیر صاحب، اُ ن گھس بیٹھیے نُما صاحب سے نمٹ کر جو دیکھا تو ہمارے ممدو ح پروفیسر صاحب اپنی سیٹ سے غائب ۔ دیکھا تو پروفیسر صاحب ،جن کا حال یہ تھا کہ ہاتھ کہیں پڑ رہا ہے،پَیرکہیں۔کرسیوں کے درمیان سے لوگوں کو ہٹاتے ہوئے تیزی سے جلسہ گاہ کے خارجی راستے کی طرف رواں دواں تھے اور کبھی کبھی خوف زدہ نظروں سےپیچھے مُڑمُڑ کر بھی دیکھ رہے تھے، جیسے کسی سے چُھپ کر بھاگ رہے ہوں۔ ہم نے محسوس کیا کہ یہ تو وہیں دیکھ رہے ہیں، جہاں ہم بیٹھے ہوئے تھے۔

سو ،ہم نے دائیں بائیں ہر جگہ دیکھا کہ کون ہے، جس سے یہ ڈرے ہوئے ہیں، لیکن وہاں تو محض اسکولز کے کچھ معصوم بچّے بیٹھے ہوئے تھے۔ خیر، اتنے میں چائے آگئی اور ہم نے فوراً اُٹھ کر اُنھیں پکارا کہ’’ حضور !چائے تو پیتے جائیں ،تو ان کی آنکھیں خوف سے مزید پھیل گئیں اور وہ دروازے کی طرف اور زیادہ تیزی سے لپکتے ہوئے پنڈال سے باہر نکل گئے ۔

اور… ہم گرم چائے کےدو کپ تھامےمتعجب کھڑے رہ گئے۔ مگر دل سے بہت خوش تھے کہ آج حافظے نے بڑا ساتھ دیا ،حالاں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں شعر سنانے کی کوئی عادت یا ہڑک نہیں ہے۔

بذریعہ ڈاک موصول ہونے والی ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’متفرق‘‘

٭وقت کی قدر کریں،عظمیٰ عثمان، مقام نہیں لکھا٭مَیں ولی ہوں یا پاگل، نام و مقام نہیں لکھا٭اصلاحِ معاشرہ،20ویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ،خدمت، دیانت، امانت، کورونا وائرس،پاکستان کی شیر دل ، باصلاحیت بیٹی، ملالہ یوسف زئی، ڈاکٹر عبدالعزیز چشتی، جھنگ٭یو ایس بی کا روز مرّہ زندگی میں استعمال،آصف احمد، کھوکھرا پار، کراچی ٭محسنِ پاکستان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سانحۂ ارتحال ، پروفیسر محمّد فیاض خالد، آزاد کشمیر٭نوجوان ادیب، کمپیئر، اور سماجی کارکن، گلزار کلہوڑو، ارشد حُسین چنّا۔

بذریعہ ڈاک موصول ہونے والی ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کاربرائے صفحہ ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘

٭زیرِ زمین راستہ یا پھر اووَر ہیڈ پُل کی تعمیر،حکم ران، شری مُرلی چند، گوپی چند گھوکلیہ، پرانا صدر بازار، شکار پور٭جعلی نکاح ناموں کی روک تھام، شہزادہ بشیر محمّد نقشبندی ،میر پور خاص٭ جوانی اللہ کی عبادت میں گزارو، محمّد زید ریاض، محمود کوٹ٭کراچی خُوب صُورت شہر، لیکن مسائل سے دوچار، صغیر علی صدّیقی، کراچی٭ سکھ برادری پر بھارت کے ستم ،جمہوریت،ڈینگی، ایک خطرناک و مہلک مرض ،ڈاکٹر عبدالعزیز چشتی، جھنگ٭ اورنگی ٹاؤن کے مسائل، نام و مقام نہیں لکھا٭سابقہ اور موجودہ حکم رانوں کے نام، رحیم بخش، جٹ لنگاہ٭خاموش کالونی تا عیسیٰ نگری غلاظت ، گندگی، کچروں کا انبار، الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے 2023ء کے الیکشن اور 20 کروڑ غریب عوام، شہناز سلطانہ، کراچی۔