کچھ احوال بنکاک کا...

January 23, 2022

2005ء میں جب ہم پہلی باربنکاک گئے، تو وہاں کی سڑکوں اور ٹریفک کی دگرگوں صورتِحال بالکل ویسی تھی، جیسی آج ہمارے ملک کے بیش تر شہروں کی ہے۔ تنگ سڑکیں، ٹریفک جام، سڑکوں پر بے ہنگم طریقے سے چلتی دھواں چھوڑتی بسیں، بے ترتیب پارکنگ، فٹ پاتھ پر ریڑھیوں کی بہتات اورمارکیٹس کے اندر چھوٹے چھوٹے اسٹالز پر گوشت مچھلی کی شدید بُو، جو ہر طرف پھیلی محسوس ہوتی تھی۔

ذرا سی بارش کے بعد سڑکوں پر گُھٹنوں گُھٹنوں پانی کا جمع ہوجانا، ہوٹل کے کمروں سے آنے والی ناگوار بُو کے بھبکوں سمیت ہر چیز ہی ناقابل برداشت حد تک اذیت ناک محسوس ہوتی، اس کے باوجود ہمارے پاکستانی بھائیوں کی کثیر تعداد وہاں مقیم تھی۔

اُن میں سے زیادہ تر کھیپ کا کام کرتے تھے کہ اس وقت تک ہمارے روپے کی اتنی بے توقیری نہیں تھی۔ تھائی کرنسی کے ایک سو بھات، ستّرپاکستانی روپوں کے برابر ہوتے تھے۔ پھر جب تقریباً پندرہ برس بعد وہاں جانا ہوا، توبہت کچھ بدل چُکا تھا، نمایاں تبدیلیاں نظر آرہی تھیں۔ جہاز سے اُترتے ہی ہوائی اڈّے کی عظیم الشّان، پُرشکوہ عمارت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔

قلیل عرصے میں تعمیر کیے گئے اس وسیع و عریض ’’سوورنا بھومی بین الاقوامی ائرپورٹ‘‘ کو جنوب مشرقی ایشیا کے سب سے بڑے ائرپورٹ کا اعزازحاصل ہوچُکا تھا۔ سوورنا بھومی ائرپورٹ کا افتتاح 2007ء میں کیا گیا۔ شہر کے مشرق میں 25کلومیٹر دُور واقع اس ہوائی اڈّے کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کووِڈ سے قبل2019ء میں یہاں ساڑھے چھے کروڑ مسافروں کی آمد و رفت رہی۔

امیگریشن سے فارغ ہو کرٹرمینل بلڈنگ سے باہر نکلے، تو ایک لمحےکے لیے محسوس ہوا کہ ہم کہیں غلطی سے ٹوکیو ائرپورٹ پر تو نہیں آگئے؟ ہر طرف بلند و بالا عمارتیں، ہر سُو فلائی اوورز کا جال، ایلیویٹڈ ایکسپریس ویز، انڈر پاسز، نئے نئے ماڈلز کی چمچماتی گاڑیاں، سب سے بڑھ کر لوگوں کے چہروں سے جھلکتے خوش حالی، آسودگی.....معاشی خوشحالی اور ملکی ترقّی کی غمازی کررہے تھے۔ بنکاک کی کُل آبادی میںخواتین کا حصّہ نصف سے زیادہ ہے، جب کہ تعلیم کا تناسب بھی مَردوں سے کہیںزیادہ یعنی ستّرفی صد ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میںخواتین کا عمل دخل نمایاں نظر آتا ہے۔ بڑے شاپنگ مالز میں سیلز گرلز سے لے کراسٹیل کی مصنوعات بنانے والے کارخانوں تک میں خواتین بڑی بڑی مشینیں آپریٹ کرتی نظر آتی ہیں۔ بنکاک میں ہول سیل مارکیٹس علی الصباح کُھل جاتی ہیں اور شام ڈھلتے ہی بند بھی ہوجاتی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح دوست احباب کی فرمایشوں کی ایک طویل فہرست ہمارے پاس تھی، لیکن کام کی نوعیت اور بے پناہ مصروفیت کے باعث ہمیںمارکیٹ جانے کا وقت بالکل نہیں مل پا رہا تھا۔

چند روز بعد کچھ فراغت ہوئی، تو اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مارکیٹ پہنچ گئے۔ صبح کا وقت ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں تقریباً سب ہی دکان داراپنی اپنی دکانوں کے اندر اگربتیاں جلائے، آنکھیں نیم بند کیے، مورتیوں کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھے گاہکوں کی آمد کی دُعا مانگ رہے تھے۔ ایک دکان کی طرف بڑھے، تو ہمیں آتا دیکھ کر دکان دار نے اپنی دونوں آنکھیں فوراً کھو ل کر ہمارا خیر مقدم کیا۔ ہم نے جیب سے فہرست نکال کر جلدی جلدی مطلوبہ سائز کی شرٹس اور ٹی شرٹس کا انتخاب کیا، قیمتیں بھی مناسب تھیں۔ فوراً ہی ادائیگی کی اور ٹک ٹک میں بیٹھ کر واپس ہوٹل پہنچ گئے۔

یہاں کی سب سے بلند ترین عمارت،`84منزلہ بائیوک ٹاور اب بنکاک کی پہچان بن گیا ہے، اکثر تصاویر اور پوسٹ کارڈز میں یہی ہوٹل نظر آتا ہے۔ اس بلند و بالا عمارت کی ریوالونگ چھت سے شہر کانظارہ ایک خُوب صُورت اور دل کش تجربہ لگا۔ ہوٹل کے قریب ہی ایک علاقے ’’پراتو‘‘ میں ایک بہت بڑا شاپنگ مال گویا خریداروں کی جنّت ہے، جہاں مردو خواتین کی اشیائے ضروریہ سمیت بچّوں کے کھلونے، پرفیومز، کپڑے، جوتے، گھڑیاں، چشمے، میک اپ کا سامان غرض یہ کہ ہر طرح کا سامان مناسب قیمت پر مل جاتا ہے۔

ویسے یہاں خواتین دکان داروں سے کس طرح اور کتنا بھائو تائو کرنا ہے، یہ خریدار کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ اس علاقے کے قریب ہی ایک پاکستانی ریسٹورنٹ تلاش کر کے کھانے کا آرڈردیا اور باتوں باتوں میں ریسٹورنٹ کے مالک سے کسی نزدیکی مسجد کا بھی دریافت کیا کہ دوسرے روزجمعہ تھا۔ اُس نے بتایا کہ ’’یہاں مساجد بہت کم اور خاصے فاصلے پر ہیں۔ قریب ترین مسجد بھی آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہے۔‘‘

خیر، اگلے روز ہم پیدل ہی مسجد جاپہنچے۔ وضو خانے سے متصل کھلی جگہ پر دیگوں میں بریانی پکتے دیکھی، جس کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ امام صاحب نے تھائی زبان کے بعد انگریزی زبان میں لکھی ہوئی ایک تقریر بھی کی۔ نماز کے بعدلوگ وہاں بچھی صفوں پر بیٹھنے لگے، تو ہم بھی یہ سوچ کر کہ کافی دنوں سے پھیکے کھانے کھارہے ہیں، بیٹھ گئے اور بلاشبہ اُس بریانی کا مزہ ہی الگ تھا۔ اوپر سے تیز مرچ کا دف مارنے کے لیے ڈسپوزایبل گلاسوں میں لال شربت بھی تھا، جو ہم رمضان المبارک میں بڑے شوق سے پیتے ہیں۔

بنکاک کچھ حوالوں سے عجیب و غریب شہر ہے۔ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ شہروں کی طرح یہاں کے لوگ بھی اپنے کام کاج کے لیے دفاتر اور کارخانوں میں پہنچنے کے لیے علی الصباح بے دار ہوکر بس اسٹاپس اور ریلوے اسٹیشنز کی طرف دوڑلگا دیتے ہیں اور رات دس بجے کے بعد سڑکوں پر ہُو کا عالم ہوتا ہے، سوائے چند ٹیکسیوں اور پولیس کی گاڑیوں کے کوئی نظر نہیں آتا۔ حکومتی اجازت سے صبح نو بجے تک، یعنی دفاتر اور دُکانوں کے کھلنے سے پہلے پہلے فٹ پاتھوں پر بڑی چھتریوں کے نیچے میز، کرسیاں لگا کر خواتین ناشتا بناتی نظر آتی ہیں، جو عموماً نوڈلز وغیرہ ہی ہوتے ہیں اور لوگ ان چھتریوں تلے جلدی جلدی ناشتا کرکے اپنے کام کاج پر روانہ ہوجاتے ہیں۔

چوںکہ دفاتر اور کارخانوں میں زیادہ تر خواتین ہی کام کرتی ہیں، اس لیے گھروں میں ناشتا بنانے کا رواج کم ہی ہے۔ شام ہوتے ہی اِن فٹ پاتھوں پر پورے پورے بازار آباد ہوجاتے ہیں۔ تقریباً تین تین فٹ کی میزیں ایک ترتیب سے قطار میں لگائی جاتی ہیں۔ پھر رات گئے تک کھلے رہنے والے اس بازار میں زیادہ تر غیر ملکی خریداروں کا جمگھٹا رہتا ہے، جہاں ضرورت کی ہر شئے بآسانی مل جاتی ہے۔

تھائی لینڈ میں چوںکہ سارا سال ہی ہر رنگ و نسل کے باشندوں اور سیّاحوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے، تو اس مناسبت سے یہاںکھانے پینے کے وہ مسائل نہیں، جن کا سامنا عموماً دیگر ممالک میں کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر یہاں عرب اور افریقا سے تعلق رکھنے والے سیّاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہاںعربی کھانوں کے زیادہ ہوٹلز ہیں اور انواع و اقسام کے حلال کھانوں کی وسیع رینج ہونے کی وجہ سے کھانوں کی تلاش کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔

تھائی لینڈ کا نیا سال، ماہ اپریل سےشروع ہوتا ہے۔سال کے آغاز کی خوشی میں ہر سال ’’سونگ کران‘‘ کا تہوار انتہائی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اتفاق سے اُن دنوں وہیں مقیم ہونے کی وجہ سے ہم نے بہ نفسِ نفیس اس تہوارکی سرگرمیاں ملاحظہ کیں۔ تہوار پر لوگ اپنے اپنے گھروں کو پانی سے دھوتے ہیں۔ اُن کے عقیدے کے مطابق اس طرح پچھلے سال کی تمام مصیبتیں اور نحوستیں گھروں سے باہر نکل جاتی ہیں۔ اس موقعے پر دوسرے ممالک میں مقیم تھائی باشندے بھی اپنے ملک آکر نئے سال کا جشن مناتے ہیں۔ خواتین روایتی لباس پہن کر ایک دوسرے پر پانی پھینکتی ہیں اور بچّےاور نوجوان رنگ برنگی واٹر گنز سے ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہیں۔

بعض مَن چلے برف ملے پانی کی بالٹیاں بھی ایک دوسرے پرانڈیلتے ہیں۔ چوں کہ یہ رسومات ان کی مذہبی روایات کا حصّہ ہیں، لہٰذا اُن کی ان حرکات کا کوئی بھی بُرا نہیں مناتا، بلکہ سب ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ خطّے کے اکثر ممالک کی طرح یہاں بھی ایک چائنا ٹائون موجود ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا چائنا ٹائون کہلاتا ہے، یہ صحیح معنوں میں دیکھنے کی جگہ ہے۔ یہاںپرانی طرز کی عمارات اور دکانوں پر چینی زبان کے بڑے بڑے بورڈز آویزاں نظر آتے ہیں۔

چائنا ٹائون طلائی زیورات کی خرید وفروخت کا بھی بہت بڑا مرکز ہے، جب کہ یہاں چینی جڑی بوٹیوں کی بھی بہت سی دکانیں ہیں۔ بنکاک کے دیگر علاقوں کی طرح چائناٹائون میںبھی سرِشام سڑکوں کے ساتھ ساتھ اور گلیوں کے اندر ہر طرح کا سامان بیچنے والوں کی ریڑھیاں سج جاتی ہیں، جہاں بیچنے والے بھی چینی باشندے ہوتے ہیں اور خریدار بھی چینی۔ ساتھ ہی چینی کھانوں کے اسٹالز بھی لگ جاتے ہیں، خصوصاً سی فوڈ کو باربی کیو کیا جارہا ہوتا ہے، جس کی مہک لوگوں کو دُور دُور سے کھینچ لاتی ہے۔

بنکاک شہر کے متعلق ایک دل چسپ بات معلوم ہوئی کہ لگ بھگ ایک کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی کا یہ شہر انتظامی طور پر پچاس اضلاع میں منقسم ہے، ان میں سے زیادہ تر کے نام بینگ سے شروع ہوتے ہیں، جیسے بینگنا، بینگ بون، بینگ کھائی وغیرہ۔ یوں تو بنکاک میں قیام و طعام کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک ہوٹل موجود ہے، تاہم ہمیں ’’سکھوم وٹ‘‘ کا علاقہ بہت پسند آیا۔ یہاں سے شہر کے دیگر علاقوں تک جانے کے کئی ذرائع ہیں اور یہاں نہ صرف بڑی تعداد میںشاپنگ مالز ہیں، بلکہ انواع و اقسام کے بہترین کھانوں کے ریسٹورینٹس بھی قدم قدم پر موجود ہیں۔

پاکستان کا سفارت خانہ بھی اسی علاقے میں ہے۔ بنکاک میں لوگوں کی سہولت کے لیے نقل و حرکت کے بہت سے ذرائع ہیں، جن کی وجہ سے اگرچہ بہت آسانیاں ہوگئی ہیں، لیکن اس کے باوجود ٹریفک جام یہاں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سفر کا مقبول ذریعہ تو بسیں ہیں، جو ایک ترتیب سے سڑک کے بائیں طرف چلتی ہیں، مگر ٹک ٹک رکشے اور رنگ برنگی جدید ماڈل کی ٹیکسیاں بھی کثیر تعداد میں چلتی ہیں، جن میں میٹر لگا ہونا لازم ہے، البتہ رکشوں میں میٹر نہیں ہوتے۔ سیّاح اس کا کرایہ کم ہونے کی غلط فہمی کے باعث بھی اس پر سوار ہوجاتے ہیں، لیکن میٹر نہ ہونے کی وجہ سے عموماً ڈرائیور کرایہ ٹیکسی یا دیگر ذرائعِ آمدو رفت سے زیادہ ہی لیتے ہیں۔

سڑک کے اوپر چلنے والی اسکائی ٹرین، شہر کے بیچوں بیچ چلتی ہے، جب کہ میٹرو ٹرین کا انڈر گرائونڈ نیٹ ورک، شہر کے دُوردراز علاقوں کو ملاتا ہے، جہاں اسکائی ٹرین نہیں جاتی۔ ایک اور دل چسپ ذریعہ شہر میں چلنے والی کشتیاں ہیں، چوں کہ یہاں بارشیں بہت ہوتی ہیں، اس لیے پانی کے نکاس کے لیے چاربڑی نہریں، جنہیں کلونگ کہا جاتاہے، شہر کے بیچوں بیچ بہتی ہیں۔ ان نہروں میں کشتیوں کے ذریعے وہ لوگ سفر کرتے ہیں، جو دُوردراز علاقوں میں رہتے ہیں۔

ہم خود ایک ایسی نہر یا کلونگ کے پُل پر کھڑ ے ہوکر فوٹو گرافی کررہے تھے کہ اچانک درمیانی سائزکی ایک کشتی آکر مخصوص پلیٹ فارم پر کھڑی ہوگئی اور کشتی کے دونوں طرف لکڑی کی بینچز سے کچھ مرد و خواتین اٹھ کر پلیٹ فارم سے ہوکر باہر آگئے۔ کچھ عرصے قبل تک یہ ذریعہ خاصا مقبول تھا، لیکن اب اس کا استعمال کم ہوگیا ہے۔ تاہم اب بھی ویک اینڈز پر یہ کشتیاں سیّاحوں کوخصوصی طور پر فلوٹنگ مارکیٹس لے کر جاتی ہیں۔ ان مارکیٹس میں دوردرازکے علاقوں سے لوگ تازہ سبزیاں، گوشت اور مچھلی لے کر اپنی اپنی کشتیوں میں بیچنے کے لیے آتے ہیں۔

تھائی لینڈ، جنوب مشرقی ایشیا کا واحد ملک ہے، جو علاقے کے دیگر ممالک کے برعکس کبھی بھی کسی یورپی ملک کے زیرِ تسلّط نہیں رہا۔ تھائی زبان میں اس کا مطلب ہی آزاد لوگوں کی سرزمین ہے۔ یہاں کے لوگوں کی اکثریت کامذہب بدھ مَت ہے، لیکن ان کے عقائد پر ہندو مذہب کی خاصی چھاپ ہے جب کہ یہ لوگ اپنے رہن سہن کے اعتبار سے جاپانی قوم سے خاصے متاثر ہیں۔ یہاں کی معاشی ترقی میں جاپانیوں کا کافی اہم کردار ہے، ان کی بہت زیادہ سرمایہ کاری بھی ہے، اسی لیے بڑے بڑے شاپنگ مالز میں جاپانی ریسٹورینٹس کی اچھی خاصی تعداد نظر آتی ہے، جہاں زیادہ تر نوجوانوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔ دراصل نئی نسل ان کھانوں کی ایسے ہی دیوانی ہے، جیسے ایک زمانے میں ہمارے ہاں چائنیز کھانوں کا بہت زیادہ فیشن تھا۔

سیّاحوں کے لیے بنکاک میں کشش کی کئی وجوہ ہیں کہ بادشاہوں کے قدیم محلّات ہوں یا بدھ مت کے ٹمپلز، سب اپنے خُوب صُورت طرزِ تعمیر، خصوصاً مندروں کی اندرونی دیواروں پر موجود پینٹنگز کی وجہ سے آج بھی اپنی علیٰحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ یہاں میوزیم، پارکس اور شاپنگ مالز شہر کے ہر ہر حصّے میں پھیلے ہوئے ہیں، جن کی گہماگہمی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یوں بنکاک کا سفر سیّاحوں اور تجارت کی غرض سے آنے والے مسافروں پر بہت گہرے نقوش ثبت کرتا ہے۔