سندھ کا مقدمہ

January 18, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

ضیاء الحق کا یہ خیال تھا کہ اگر طلبا تنظیموں پر پابندی لگا دی جائے تو ایم آر ڈی کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ سندھ کے بڑے شہر کراچی میں صرف کراچی یونیورسٹی میں جمعیت کی یونین تھی باقی جگہوں پر این ایس ایف اور ڈی ایس ایف کا زور تھا۔ کراچی یونیورسٹی کے علاوہ ہر جگہ این ایس ایف کاطوطی بولتا تھا۔ ڈائو میڈیکل کالج، سندھ میڈیکل کالج اور دائود انجینئرنگ کالج سمیت پورے سندھ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ضیاء الحق کی مخالف یونینز تھیں۔ اس لئے 1984میں یونینز پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کے خلاف طلبا نے پورے سو دن ہڑتال کی۔ اس اسٹرائیک میں این ایس ایف کے طلبا نے پرجوش انداز میں شرکت کی۔ ان کے کئی لیڈر گرفتار ہوئے، متعدد مرتبہ لاٹھی چارج ہوا۔ اس کے بعد ضیاء الحق نے اے پی ایم ایس کو سپورٹ کیا۔ آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس کی قیادت الطاف حسین کر رہے تھے اس تنظیم کو اسلحہ بانٹ دیا گیا، اس تنظیم کے ذریعے دہشت پھیلائی گئی اور بالآخر کراچی کے تمام اداروں میں اے پی ایم ایس اونظر آنے لگی۔ این ایس ایف ختم ہوگئی مگر پی ایس ایف پھر بھی زندہ رہی۔ ہنگاموں اور فسادات کے باعث کچھ لوگ انڈر گرائونڈ ہوگئے، کچھ نے کنارہ کشی اختیار کرلی اور کچھ بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ جب بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو کچھ چہرے پھر سے نظر آئے۔ جام ساقی بھی سامنے آئے پھر وہ پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئے۔ ایم آر ڈی کی تحریک نے پورےسندھ میں ضیاء الحق حکومت کو پریشان کر رکھا تھا۔ مخدوم خلیق الزماں اس وقت پیپلز پارٹی سندھ کے صدر تھے، اس تحریک کے دوران سندھیوں پربہت ظلم ہوا۔ سینکڑوں افراد مارے گئے، بہت سوں کی گرفتاریاں ہوئیں۔ ضیاء الحق نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے بنائی گئی اے پی ایم ایس اومیں بہت ہوا بھری اور آگے چل کر اسے سیاسی پارٹی کا روپ دے دیا۔ ایم کیو ایم بنانے کا مقصد یہ تھا کہ کراچی سے جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی کا صفایا کیا جائے اور پیپلز پارٹی کو بھی محدود کردیا جائے۔ 1985میں ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کے خوف سے غیر جماعتی الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا۔ پیپلز پارٹی نے اس غیر جماعتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا، یہی ضیاء الحق کی خواہش تھی۔ ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران جتنے بھی لوگوں نے پیپلز پارٹی کے مخالف ہو کر الیکشن لڑا وہ ہار گئے۔ بلدیاتی الیکشن میں تو آصف علی زرداری بھی ہار گئے تھے۔ 1983کے بلدیاتی الیکشن کا رزلٹ دیکھ کر ضیاء الحق کی پریشانی میں اضافہ ہوا تو اس نے 1985 کے غیر جماعتی الیکشن کیلئے سندھ سے پیر پگارو کو تیار کیا کہ پیر صاحب اپنےبندوں کو الیکشن میں اتاریں۔ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی صورت میں طاقت موجود تھی، دیہی سندھ میں پیر پگارو کی حمایت حاصل کرلی گئی۔پنجاب میں ضیاء الحق نوازشریف کی صورت میں اپنے سیاسی پیرو کار تیار کر رہا تھا۔ 1985کے الیکشن کے بعد سانگھڑ سے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جونیجو کو پیر پگارو کے کہنے پر وزیر اعظم بنایا گیا۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے جونیجو وزیر ریلوے رہ چکے تھے۔ پنجاب میں ملک اللہ یار سمیت کئی مضبوط امیدواروں کو نظر انداز کرکے میاں نواز شریف کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا۔ پنجاب میں صاحبزادہ حسن محمود اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتے رہے۔ سندھ میں سید غوث علی شاہ کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ قومی اسمبلی میں بڑی عجیب صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے چیئرمین خواجہ صفدر (خواجہ آصف کے والد) سید فخر امام سےا سپیکرشپ کا الیکشن ہار گئے۔ اس شکست کے بعد ضیاء الحق نے ملکی امور پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر جلد ہی انہوں نے حامد ناصر چٹھہ کو اسپیکربنوا لیا۔ قومی اسمبلی میں حکومت مخالف ایک آزاد گروپ بن گیا، یہ آزاد گروپ اگرچہ تھوڑے سے اراکین پر مشتمل تھا مگر اس نے حکومت کی ناک میں دم کر رکھاتھا۔ رحیم یار خان سےقومی اسمبلی کے رکن حاجی سیف اللہ اس کے سربراہ تھے۔ اس گروپ میں ڈاکٹر شیر افگن نیازی، شیخ رشید احمد، سید فخر امام، ڈاکٹر شفیق چودھری، سیدہ عابدہ حسین، الٰہی بخش سومرو، جاوید ہاشمی، لیاقت بلوچ، ممتازتارڑ، عبدالحمید جتوئی، سردار آصف احمدعلی اور ایئر مارشل (ر)نور خان سمیت کئی نامور لوگ شامل تھے۔ضیاء الحق نے 1985 میں غیر جماعتی الیکشن کروا کے جیسے تیسے حکومتیں کھڑی کرلیں مگر سیاست کے محاذ پر انہیں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جس وزیر اعظم کو وہ بہت کمزور سمجھتے تھے اس کمزور آدمی نے طاقتور لوگوں کو چھوٹی گاڑیوں پر بٹھا دیا۔ غیر جماعتی الیکشن بھی بہت سے لوگوں کا راستہ نہ روک سکے۔ محمد خان جونیجو کی کابینہ میں بھٹو دور کے وزراء بھی شامل تھے۔ میر ظفر اللہ جمالی اور انور عزیز چوہدری سمیت کئی لوگوں کا ماضی بھٹو کی محبت میںگزرا تھا۔

اس دوران ضیاء الحق نے سندھ میں لسانی تنظیموں اور مذہبی منافرت پھیلانے والے گروہوں کو ہوا دی۔ مذہبی فرقوں کے نام پر نفرت کا کھیل کراچی حیدر آباد سے آگے نہ بڑھ سکا مگر سندھ میں ڈاکو راج مشہور ہوتا رہا۔ انہی برسوں میں خیر پور یونیورسٹی کےطلبا کا ایک وفد پنجاب یونیورسٹی لاہور گیا تو وہاں ایک پروفیسر نے طلبا سے پوچھا کہ ’’سارے سندھی ڈاکو کیوںہیں؟...‘‘ اس سوال کا جواب بڑے احسن انداز میں ایک طالب علم نے دیا۔ اس نے پوچھا سر! پنجاب میں کتنی جیلیں ہیں؟ پروفیسر صاحب کہنے لگے 27 ہیں۔ طالب علم نے پوچھا ان 27 جیلوں میں کوئی سندھی قیدی ہے؟ پروفیسر صاحب کہنے لگے کوئی نہیں، اس کے بعد سندھی طالب علم نے کہا کہ سندھ کی پندرہ جیلیں ہیں اور ہر جیل میںپنجابی قیدی ہیں تو کیا اس کا مطلب ہے کہ پنجابی ڈاکو ہیں؟ پروفیسر صاحب نے کہا کہ آپ کو ایسے تو نہیں کہنا چاہیے۔ اس پرسندھی طالب علم نے کہا کہ پھر آپ کو بھی سندھ سے متعلق ایسا نہیں کہنا چاہیے۔

ان تمام حربوں کے باوجود ضیاء الحق پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت ختم کرنے میں ناکام ہوا۔ 1986ءمیں بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ بھٹو کی بیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اسی شہر میں اتریں گی جہاں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔(جاری ہے)