سیاچن سے فوجوں کی واپسی

January 23, 2022

سیاچن گلیشیر جہاں مئی جون میں بھی درجہ حرارت اوسطاً منفی دس تک رہتا ہے، پچھلے تین عشروں سے وہاں پاکستان اور بھارت کی فوجیں ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں۔ اس متنازع سرحدی چوٹی پر قبضے کے لیے 1984میں پاک بھارت جنگ ہوئی تھی جس کے بعد سے یہ صورت حال برقرار ہے۔ فریقین کے ہزاروں فوجی موسم کی سختی کے سبب جان سے ہاتھ دھوچکے جبکہ ان سے کہیں زیادہ لاعلاج بیماریوں کا شکار ہوئے ہیں اوریہ تنازع یوں ہی چلتا رہا تو فریقین کو نہ جانے مزید کتنا نقصان اٹھانا ہوگا۔ اس بنا پر دونوں جانب یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ ایک معاہدے کے تحت فریقین اپنی فوجوں کو اس برف زار سے واپس بلا لیں۔ ماضی میں کئی بار اس سلسلے میں بات چیت ہوئی لیکن امید افزا پیش رفت کے باوجود کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ سکی جس کا بنیادی سبب باہمی بےاعتمادی ہی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ پچھلے دنوں بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مُکُنڈ نروانے نے ایک بار پھر اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے سیاچن سے بھارتی فوج کی مشروط واپسی کا امکان ظاہر کیا ہے۔ جنرل نروانے کے بقول بھارت سیاچن سے اپنی فوج واپس بلانے کا مخالف نہیں لیکن اس کے لیے پاکستان کو دونوں ممالک کی پوزیشنوں کو الگ کرنے والی اصل زمینی پوزیشن کو قبول کرنا ہوگا۔ بھارتی آرمی چیف کا موقف تھا کہ بھارت سیاچن گلیشیر سے اس شرط پر اپنی فوج ہٹانے کو تیار ہے کہ پاکستان ایکچول گراؤنڈ پوزیشن لائن کو قبول کرلے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے جمعے کو اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں اس بارے میں بھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے سیاچن گلیشیرسے فوجیں واپس بلانے کی بھارتی تجویز پر محتاط ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان فوری طو ر پر بھارتی تجویز قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے صراحت کی کہ پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُرامن اور دوستانہ تعلقات چاہتا ہے، بھارت سے بامعنی، تعمیری اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے پرعزم ہیں،تاہم یہ ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ مذاکرات کیلئے سازگار ماحول پیدا کرے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بھارت سے مذاکرات کی بحالی کے لیے وزیراعظم پاکستان اور وزیر خارجہ کی پیش کشوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے جواب میں بھارت نے کسی مثبت ردعمل کے بجائے ماحول کو خراب کرنے والے اقدامات کیے جن میں 5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے اسے باضابطہ طور پر بھارت کا حصہ قرار دینے کی کارروائی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ نے کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے تناظر میں گاؤ کدل سری نگر میں بےگناہ کشمیریوں کے قتل عام کی برسی کے موقع پر کہا کہ آج سے تین دہائی قبل بھارتی قابض فورسز نے بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے پر امن احتجاج کرنے والے 52بے گناہ کشمیریوں کو گائو کدل سری نگر میں وحشیانہ طریقے سے قتل کیا تھا۔ ظلم و سفاکی کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ عالمی برادری، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر بھارت کا احتساب کریں، انہوں نے واضح کیا کہ بھارت غیرقانونی اقدامات سے مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب بدلنا چاہتا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے اس اظہار خیال سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع کشمیر کا ہے جسے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خوداختیاری دے کر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بغیر باہمی اعتماد کی بحالی ممکن ہے نہ سیاچن سے فوجیں واپس بلانے کے لیے سازگار حالات کی صورت گری۔ سیاچن کا مسئلہ بھی اسی صورت میں حل ہو سکتا ہے جب کشمیر کی متنازع حیثیت بحال کرکے منصفانہ تصفیے کے لیے مطلوبہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔