زمین تباہ ہو کر رہے گی

January 23, 2022

اگر کسی دور افتادہ سیارے میں بسنے والی مخلوق ہماری زمین کی فلم بنائے اور دیکھے کہ ہم انسان اکیسویں صدی میں کیسے/کیسی زندگی گزار رہے ہیں تو وہ فلم کس قسم کی ہوگی؟ اُس فلم کو دیکھ کر وہ مخلوق ہمارے بارے میں کیا اندازہ لگائے گی؟ کیا وہ مخلوق ہماری ترقی اور ذہانت سے متاثر ہوگی؟ کیا وہ یہ سمجھے گی کہ اخلاقی اعتبار سے ہم انسان اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں؟ یا پھر وہ ہمیں پست درجے کی کوئی مخلوق سمجھے گی جو اپنی بربادی کا سامان پیدا کرتے ہوئے تیزی سے تباہی جانب گامزن ہے؟ اِن سوالات کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ نہ تو میں کسی دور افتادہ سیارے پر رہتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس ایسی فلم بنانےکی صلاحیت اور ذرائع ہیں لیکن کچھ چیزیں فرض بھی تو کی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا ہم فرض کر لیتے ہیں کہ کسی دور افتادہ سیارے پر شعیب منصور جیسا کوئی تخلیقی فلمساز بیٹھا ہماری حرکتوں کی عکس بندی کر رہا تھا، اُس کے ذمے زمین کے باسیوں سے متعلق تین گھنٹے کی ایک دستاویزی فلم بنانے کا کام تھا جو اُس نے بڑی تندہی کے ساتھ مکمل کر لیا ہے اور اب وہ فلم ہم سب دیکھ سکتے ہیں۔ اس فلم میں دکھایا جائے گا کہ گزشتہ تین چار سو برس میں انسان نے کتنی ترقی کی، کس قدر محیر العقول کارنامے انجام دیے، انسان چاند پر پہنچ گیا، مریخ پر اپنا جہاز اتار دیا، خلا کی وسعتوں میں جیمز ٹیلی سکوپ بھیج دی، سرن میں کائنات کے آغاز سے متعلق تجربات شروع کر دیے، سماج میں رہنے کے لیے قوانین وضع کر لیے، اخلاقیات کی بحث سمیٹ دی، قانون کی عملداری کے نظام تشکیل دے دیے، انسانی حقوق کے منشور بنا دیے، نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کر دیے، بھوک اور قحط کا تقریباً خاتمہ کردیا، جنگ سے امن کا سفر طے کر لیا، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ مگر انسان کی یہ تمام کامیابیاں انٹرول تک دکھائی جائیں گی اور انٹرول کے بعد ہدایتکار حالات کا دوسرا رُخ دکھائے گا جو بےحد خوفناک ہوگا۔ اُس میں دکھایا جائے گا کہ انسان اکیسویں صدی میں بھی مہذب نہیں ہو سکا، وہ اب بھی جانوروں کو بےدردی سے کاٹ کر پھینک دیتا ہے، روزانہ پیدا ہونے والے کروڑوں چوزوں کی گردنوں پر چھری پھیر دیتا ہے اور اِس عمل پر اسے ذرا برابر بھی ندامت نہیں ہوتی۔ وہ عطر کے چند قطرے کشید کرنے کے لیے جانوروں پر بہیمانہ تشدد کرتا ہے اور بعض اوقات یہ تشدد اُن کی موت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ فلم میں انسان کے اِس دعوے کی بھی جانچ کی جائے گی کہ اُس نے بھوک اور افلاس میں کمی کی ہے یا نہیں اور دکھایا جائے گا کہ آج بھی دنیا میں کروڑوں بچے بھوکے سوتے ہیں اور دوسری طرف کروڑوں ٹن خوراک کوڑے کے ڈبوں میں پھینک دی جاتی ہے۔ یہ فلم ہمیں بتائے گی کہ انسانوں کی زمین میں اخلاقیات، سچائی اور اقدار کا کوئی مول نہیں جبکہ دوسری طرف دولت کمانے کو کامیابی کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ زمین پر جہالت کی پذیرائی کی جاتی ہے، کھوکھلی خوبصورتی کی پرستش کی جاتی ہے اور پیسہ کمانے کی دوڑ میں کمزور کو پیروں تلے روند دیا جاتا ہے۔ یہاں خرافات بکنے والے کو لیڈر سمجھا جاتا ہے اور ذہین شخص کو ناکامی کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ یہ فلم انسانوں کی نام نہاد اخلاقی برتری کا پول کھول دے گی اور دکھائے گی کہ اخلاقی اعتبار سے انسان کس قدر پست واقع ہوا ہے۔ انسان کی نظر میں اب راست بازی، دیانت داری اور وقار کی کوئی اہمیت نہیں، اہمیت ہے تو صرف دولت کی، کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہونے والی کتابوں میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ کامیابی صرف دولت کمانے سے مشروط ہے۔ اِس فلم میں ہماری زمین کے ماحول کو تباہ کرنے کے مناظر دکھائے جائیں گے اور بتایا جائے گا کہ کیسے انسان نےدرخت کاٹ کر، فضا میں زہریلی گیسوں کا اخراج کرکے اور جانوروں کی نسل کشی سے زمین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اِس فلم میں ہمارے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی جھلک بھی دکھائی جائے گی اور وہاں پڑھنے والوں کے کردار پر بھی تبصرہ کیا جائے گا کہ کیا حقیقت میں یہ بڑی بڑی درسگاہیں اعلی ٰ انسان پیدا کر رہی ہیں یا یہاں سے حاصل کی جانے والی ڈگریاں صرف سوشل میڈیا پروفائل یا اپنے تعارفی کارڈ پر لکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں تاکہ خود کو ایک برتر اور ممتاز انسان ثابت کیا جا سکے۔ کیا یہ عمل انسان کے وقار میں اضافے کا باعث بنتا ہے یا اس کےاخلاقی دیوالیہ پن کو آشکار کرتا ہے؟ اس فلم میں انسانوں کے بنائے ہوئے اس نظام کا پول بھی کھولا جائے گا جو خود غرضی کو جنم دیتا ہے اور جہاں بھوک سے بلکتے ہوئے بچے کو وہ توجہ نہیں ملتی جوایک نا معقول قسم کے گلوکار کو ملتی ہے جس کے پیچھے دیوانوں کا ایک ہجوم تالیاں پیٹ کر سمجھتا ہے کہ وہ اِس نظام سے مسرت کشید کر رہے ہیں۔

بظاہر اِس قسم کی فلم بنانا مشکل کام ہے کیونکہ یہ سطریں لکھنے تک توکوئی ایسا سیارہ دریافت نہیں ہو سکا جہاں انسانوں سے ملتی جلتی ذہین مخلوق رہتی ہو جو ہم سے چھپ چھپا کر یہ فلم بنا لے۔ تاہم قدرے ملتی جلتی ایک چھوٹی سی پانچ منٹ کی دستاویزی فلم میں نے کہیں دیکھی تھی جس میں اسی قسم کی باتوں پر ماتم کیا گیا تھا کہ انسان کی حرکتیں اِس زمین کو تباہ کردیں گی کیونکہ اِس زمین کے ذرائع محدود ہیں اور یہاں ترقی کے نام پر لامحدود اور ناپائیدار صنعتی پیداوار ممکن نہیں، یہ طریقہ کار بالآخر ہمیں تباہی کے دہانے تک لے جائے گا۔ ویسے عین ممکن ہے کسی سیارے پر ہمارے بارے میں پہلے ہی یہ تحقیق ہو رہی ہو جس کا ہمیں علم نہ ہو۔ وہ لوگ ہمیں دیکھ رہے ہوں اور ہماری جنگوں کی وجوہات جان کر ہم پر ہنستے ہوں کہ یہ کیسی مخلوق ہے جو زمین پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی خاطر لاکھوں جانیں ضائع کر دیتی ہے یا اپنے خود ساختہ نظریات کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش میں خون کی ندیاں بہا دیتی ہے۔ دوسرے سیارے والے لوگ مادی ترقی کے پرچے میں تو شایدہم انسانوں کو اضافی نمبر دے کر پاس کردیں مگر اخلاقی پرچے میں یقیناً وہ ہمیں فیل ہی کریں گے۔ اصل میں اِس معاملے میں ہم انسانوں کا اتنا قصور نہیں، ہم دو تین لاکھ سال کا سفر طے کرکے گزشتہ 30ہزار برس میں ہی ’انسانیت‘ کے درجے میں داخل ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے ہمارا رہنا سہنا، اٹھنا بیٹھنا بالکل جانوروں جیسا ہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اپنے تمام تر مہذب پن کے باوجود جب انسان کو اپنے وجود سے متعلق کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے تو اُس میں وہی حیوانی جبلت بیدار ہو جاتی ہے جو غار میں رہنے والے ’انسان‘ میں اُس وقت پیدا ہوتی تھی جب وہ کسی جانورکے حملے یا بیروبی خطرے کی بو سونگھ کر چوکنا ہو جاتا تھا اور اپنے وجود کی بقا کی خاطر سفاکی کی تمام حدیں پھلانگ کرسب کچھ کر گزرتا تھا۔ آج کا انسان بھی مختلف نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آئندہ دو تین لاکھ سال میں کیا انسان اپنی اِس حیوانی جبلت سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو جائے گا یا نہیں؟ اگر اِس کا جواب ناں میں ہے تو پھر خود غرضی پر مبنی ہماری حرکتیں مزید ملفوف تو ہو جائیں گے، ختم نہیں ہوں گی۔ زمین تباہ ہو کر رہے گی۔