وزیراعظم :کچھ توجہ ادھر بھی

January 23, 2022

ان کے چہرے میں کافی جھریاں پڑ چکی تھیں، وزن کافی کم ہوچکا تھا، داڑھی مکمل سفید ہوچکی تھی لیکن آنکھوں میں چمک اور زندگی اب تک باقی تھی، غلام بنی احمد بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانی بھائیوں کے مسائل بیان کررہے تھے وہ بتارہے تھے کہ 1947 میں قیام پاکستان کے وقت لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جہاں ایک طرف مغربی پاکستان کی جانب ہجرت کی اسی دوران کئی لاکھ مسلمانوں نے بے سروسامانی کے عالم میں اس وقت کے مشرقی پاکستان یعنی آج کے بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کی کیونکہ وہ بھی ان کے لیے پاکستان ہی تھا جہاں مسلمان پوری مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کےلیے آزاد تھے لیکن پھر چند برسوں میں ہی محبتیں نفرتوں میں تبدیل ہوگئیں، ادھر ہم ادھر تم کے نعرے لگنے لگے، بنگلہ دیش کو صرف بنگالیوں کا ملک بنانے کی مہم شروع ہوگئی، أردو بولنے والے بہاریوں نے پاکستان کی حمایت کا نعرہ لگایا تو بنگالی علیحدگی پسندوں نے بھارتی فوج کے ساتھ ملک کر بہاری پاکستانی شہریوں کے قتل و غارتگری کا بازار گرم کردیا، مال ودولت لوٹ لیا گیا، اپنی ہی مسلمان خواتین کی عزتیں تار تار کی گئیں، غرض جو قوم1947میںلٹ کر مشرقی پاکستان پہنچی تھی اس کو دوبارہ اور پہلے سے زیادہ لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنایا گیا، اور ان لاکھوں بہاریوں کو چھیاسٹھ مہاجرین کیمپوں میں زندگی گزارنے کےلیے چھوڑ دیا گیا، جو آج تک پاکستانی حکمرانوں کی راہ تک رہے ہیں کہ کئی دفعہ پاکستانی حکمراں بنگلہ دیش بھی آئے، محصورین پاکستان سے ان کو واپس پاکستان بلوانے کے وعدے بھی کئے گئے لیکن کبھی وہ وعدے وفا نہیں ہوئے، غلام نبی احمد نے دوران گفتگو مجھے نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کی ڈاکٹریٹ کی طالبہ قاضی فہمیدہ فرزانہ کی وہ رپورٹ بھی دکھائی جس میں انھوں نے بے وطن قوم کے نام سے اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے جس میں انتہائی تفصیل کے ساتھ بہاری مہاجرین کے مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اب بنگلہ دیشی مہاجرین کیمپ کی حالت انتہائی ناگفتہ ہوچکی ہے، آٹھ بائی دس کے کمرے میں آٹھ سے دس افراد کا کنبہ رہائش پزیر ہے، پینے کے صاف پانی کی سہولت انتہائی ناگفتہ ہے، درجنوں خاندانوںکےلیے ایک بیت الخلاء موجود ہوتا ہے، جبکہ نہانے کے لیے بھی درجنوں افراد کےلیے ایک ہی غسل خانہ فراہم کیا جاتا ہے، آبادی میں بے ہنگم اضافے کے باعث تعلیمی سہولتوں کا شدید فقدان ہے جس کے باعث تین لاکھ سے زائد پنا ہ گزین شدید معاشی مسائل کا شکار ہیں، رپورٹ کے مطابق شدید مالی مسائل کے باعث ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزین بچیاں زیادتی کا شکار ہورہی ہیں جبکہ ہزاروں بزرگ افراد بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، رپورٹ کے مطابق یہ کیمپ حکومت کی سپورٹ نہ ہونے کے باعث اب کچی بستیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں جنھیں جرائم پیشہ افراد اپنی کمیں گاہوں کے طور پر استعمال کررہے ہیں جس کے باعث ان کیمپوں میں اب جرائم کے اڈے قائم ہوچکے ہیںاور اکثر پولیس حکام جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کےلیے یہاں چھاپے مارتے ہیں، اسی رپورٹ کے مطابق 1972-73 میں بنگلہ دیش کی حکومت نے بہاری مہاجرین کویہ آپشن دیا تھا کہ اگر وہ چاہیں تو پاکستان جاسکتے ہیں بصورت دیگر انھیں بنگلہ دیش کی شہریت بھی دی جاسکتی ہے تاہم اس وقت دو تہائی بہاریوں نے پاکستان جانے کو ترجیح دی تھی تاہم اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کی یہ تجویز ماننے سے انکار کردیا تھا اور دولاکھ مہاجرین کو واپس لینے سے انکار کردیا تھا، اسی وقت سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا ، اس مسئلے کے حل کے لیے بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان سمیت اقوام متحدہ کے زیلی ادارے کافی کوشش کرچکے ہیں تاہم یہ مسئلہ جوں کا توں اسی طرح موجود ہے، وزیر اعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ اپنے قومی لیڈر ہونے کا پاس رکھیں اور بنگلہ دیش میں پھنسے بے یار و مددگار محصورین پاکستانیوں کو واپس پاکستان لانے اور یہاں بسانے کے لیے اپنے اختیارات استعمال کرکے لاکھوں بے یار و مددگار محصورین کی دعائیں لیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)