سر رہ گزر

January 23, 2022

دہشت گردی اور دہشت

جہاں کسی نہ کسی انداز میں دہشت موجود ہو، دہشت گردی سر اٹھاتی ہے اور اس کا قلع قمع کرنے کے لیے پوری قوم کو کمر باندھنا پڑتی ہے، جب جرائم میں اضافہ ہو، سزا جزا کا عمل بےجان ہو تو ہر جان خطرے میں، جب لوگ ہر مصیبت کو حکومت پر ڈالتے ہیں اور حکومت پیشگی پیش بندی کا نظام ہی نہیں رکھتی تو دہشت گرد بھی میدان میں آ جاتے ہیں، اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت اور قوم شدت پسندی کا عملاً سخت نوٹس لیں، ہمارے معاشرے میں شدت پسندی کے ڈانڈے مذہب سے ملائے جاتے ہیں جبکہ اسلام امن و سلامتی کا ضابطہ حیات ہے، ایک شوہر جب اپنی بیوی کو طلاق کی دھمکی دیتا ہے وہ خوفزدہ ہو کر کچھ بھی کر سکتی ہے، ہر بات پر فوری ردعمل بالعموم خرابی کو جنم دیتا ہے، ہر شخص سخت گیری کو مسئلے کا حل سمجھے گا تو افراد میں دہشت اور ملک میں دہشت گردی پھیلے گی۔ کسی بھی مذہبی غیرمذہبی تنظیم کے پاس اسلحہ کہاں سے اور کیوں آتا ہے، کیا ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے رجحان کو ختم نہیں کیا جا سکتا؟ آج ہر مذہبی تحریک سیاسی قوت بھی رکھتی ہے اور سیاست کو جمہوریت نہیں، ایک اندھی طاقت مانا جاتا ہے جسے ناجائز عزت، شہرت، دولت اور دہشت گردی کا وسیلہ مانا جاتا ہے، تمام شدت پسند مذہبی، لسانی، قومیت پرستی کی حامل تنظیموں، تحریکوں کو کالعدم قرار دینا ہوگا اور مجرم کے ساتھ مذاکرات ترک کرنا ہوں گے۔

٭٭٭٭

مشیروں کے سگے اور سوتیلے حصے

ہمارے ہر بڑے شہر میں چند حصے سگے اور اکثر سوتیلے سمجھے جاتے ہیں، حکمران روزِ اول سے اچھی جگہوں میں اور عوام گرے پڑے علاقوں میں قیام پذیر ہوتے ہیں، پولیس کا رویہ عوام سے بیدردانہ اور خواص سے غلامانہ ہوتا ہے، ایک طبقہ عام آدمی کو رزق کے پیچھے دوڑائے رکھتا ہے اور مجبوری کی کھائی میں دھکا دیتا ہے جہاں وہ مجرم اور دہشت گرد بن کر نکلتا ہے، گویا انتقامی ذہنیت اوپر والے طبقے سے نچلے دھڑ میں منتقل ہوتی ہے، جس کے ہولناک نتائج سے اخبارات اور نیوز بلیٹن لبریز ہوتے ہیں، وہ تمام محکمے جو کسی بڑے شہر کو سہولیات فراہم کرتے ہیں اور نظم و نسق قائم رکھنے کے ذمہ دار امتیازی رویے رکھتے ہیں، امیر بااثر کے لیے الگ اور بےبس و مفلس کے لیے جدا گانہ قانون اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔

LOW LYING AREAS (نیچے گرے پڑے رہائشی حصوں) کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ کوئی مائی کا لال ’’ڈیفنس‘‘ میں بھینس رکھ کر دکھائے یہاں تک کہ ایلیٹ کے علاقوں میں پھیری والے بھی نہیں جاتے، بھکاری بھی بھکاریوں سے بھیک مانگتے ہیں، تھانے ہوائی فائرنگ کی آواز سن کر بھی سن رہتے ہیں۔ آخر مساوات پر قائم معاشرہ کب تشکیل پائے گا، عوام کی گلیوں میں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ بھی نظر آتے ہیں جو گھروں کے باہر خالی پلاٹوں اور پودوں کی کیاریوں کو چٹ کر جاتے ہیں، بعض پیسے والوں نے گھر کے باہر مسلح گارڈ بٹھایا ہوتا ہے، اس طرح چور ڈاکو تو کیا سارا محلہ دہشت زدہ رہتا ہے، اس کی اجازت کیوں ہے؟

٭٭٭٭

کانوں کو ہاتھ لگانے اور کان پکڑنے میں فرق

یہ بڑا لطیف فرق ہے، جسے ہم مرغا بننے اور اپنے کان پکڑنے کے جملے سے واضح کر سکتے ہیں، اب یہ فرق جو لطیف کے بجائے خاصا کثیف ہے اور موجودہ تبدیلی حکومت اور تبدیلی سے پاک حکومتوں میں دیکھا گیا ہے، اس کا اندازہ چلتے پھرتے اینکر کے مائیک سے چمٹے عام شہری کے فرمودات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، ایک شہری بابے نے زور شور سے پی ٹی آئی کی تعریف کے پل باندھے اور اینکر نے پوچھا ووٹ کس کو دینا ہے تو اونچی آواز میں کہا نواز شریف کو، شاید اسی کو عشق کہتے ہیں، آج کل جو بھی عشق پر گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو وہ خود کو صوفی سمجھتا ہے جبکہ قرآن میں کہیں لفظ عشق موجود نہیں، نہ ہی حدیث میں۔ شاعروں کے ہاں یہ لفظ نہ ہو تو شاعری آگے چلتی ہی نہیں، مگر کیا کریں کوئی کتنا بڑا شاعر ہو وہ ہمارے لیے دینی لحاظ سے حجت نہیں، حجت فقط قرآن و سنت ہے۔ غالب نے بھی مضر صحت عشق بارے ہی کہا ہوگا؎

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک

الغرض ؎

مرغا بنے ہوئے ہیں عوام آج کل

بکثرت انڈے دیتی ہیں ان کی مرغیاں

٭٭٭٭

پارلیمانی روٹی سے صدارتی ڈبل روٹی تک

...oوزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان خطبہ پڑھنے کے بعد فرماتے ہیں، پاکستان میں آج تک صحیح صدارتی نظام نافذ نہیں ہوا۔

بڑی مہربانی ہوگی اب ہمیں روٹی سے ڈبل روٹی پر نہ لائیں۔

...oامریکی مسافر کا ماسک پہننے سے انکار، امریکی جہاز آدھے راستے سے واپس۔

یہی لگ بھگ ہمارے ساتھ ہوا کہ 74برس گزرنے کے بعد ہم آدھے راستے سے واپس گھر آگئے۔

...oسینیٹر فیصل جاوید: مہنگائی میں کمی کے ساتھ تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوگا۔

بس اتنا مزید کہہ دیجیے کہ کیا پرائیویٹ ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوگا؟

...oگورنر پنجاب: تاریخ میں انسانیت کی خدمت کرنے والے ہی زندہ رہیں گے۔

تاریخ میں ایسا ہوتا ہوگا مگر ہمارے ہاں اس کے الٹ ہوتا ہے۔ گورنر صاحب کے اقوال زریں اب جمع کرکے کتابی شکل میں چھپوا دیے جائیں۔

٭٭٭٭