وزیراعظم جانسن مستعفی ہوں گے؟

January 23, 2022

بورس جانسن برطانیہ کے وزیراعظم ہیں۔ 23جولائی 2019سے برطانوی سیاسی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ ہیں۔ بورس 2008سے 2016تک لندن کے میئر اور 2016سے 2018تک وزیر خارجہ بھی رہے۔ بورس یک قومی قدامت پسند فلسفے کے مقلد سمجھے جاتے ہیں تاہم معاشی اور سماجی طور پر ماضی میں وہ آزاد خیال جماعتوں کے حامی بھی رہے ہیں۔

بورسن جانسن کے آباؤ اجداد مسلمان تھے، ان کے والد کا نام احمد آفندی تھا جو ترک سلطنتِ عثمانیہ کے آخری دور کی ایک شخصیت علی کمال کے بیٹے تھے، ان کے پڑدادا کا شمار سلطنتِ عثمانیہ کے آخری دور کی اہم شخصیات میں ہوتا تھا۔ وہ اُس وقت کے قسطنطنیہ اور آج کے استبول میں پیدا ہوئے۔ اُن کی والدہ حنیفہ فریدے سر کیشیائی نسل سے تھیں اور احمد آفندی کی دوسری اہلیہ تھیں۔

بورس جانسن گزشتہ تقریباً 14سال سے اپنے ذومعنی جملوں اور ناقدانہ بیانات کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں، بالخصوص 2018میں “ڈیلی ٹیلی گراف” میں برقعے کے بارے میں متنازع رائے پر مبنی کالم لکھنے کے بعد بورس جانسن پر اُن کی پارٹی کی جانب سے دباؤ شدید بڑھ گیا اور اُن کی اپنی جماعت کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی جن میں اُس وقت کی وزیراعظم تھریسامے بھی شامل ہیں۔ بورس جانسن نے اپنے کالم میں ڈنمارک کے اُس نئے قانون کا ذکر کیا تھا جس کے تحت ملک میں چہرہ چھپانے یا نقاب پہننے پر پابند ی عائد کر دی گئی تھی۔

اگرچہ انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ وہ ڈنمارک کے نئے قانون کے حامی نہیں ہیں لیکن اُس کے باوجود برقع پہننے والی مسلمان خواتین کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں ’’بینک ڈاکو‘‘ اور ’’ڈاک خانہ‘‘ قرار دیا تھا۔ اب دو ہفتے سے وہ ایک دفعہ پھر سخت تنقید کی زد میں ہیں اور اس بار نہ صرف حزبِ اختلاف بلکہ ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی ان کے سخت ناقد ہیں۔

اب یہ معاملہ اس گارڈن پارٹی کا ہے جو کووڈ کی سخت پابندیوں کے باوجود 10ڈاؤننگ اسٹریٹ میں منعقد ہوئی حتیٰ کہ ملکہ الزبتھ کے شوہر کی ابھی آخری رسومات بھی نہیں ہوئی تھیں، باوجود اس کے کہ وزیراعظم بورس جانسن کے دفتر نے پرنس فلپ کی آخری رسومات سے ایک رات پہلے وزیراعظم کی سرکاری رہائش پر منعقد کی جانے والی دو تقریبات پر ملکہ سے معذرت کر لی ہے لیکن پھر بھی وزیراعظم بورس جانسن کو شدید تنقید کا سامنا ہے کیونکہ ان پارٹیز کے انعقاد کو خفیہ رکھا گیا تھا اور وزیراعظم نے کھلے بندوں یہ اعتراف نہیں کیا تھا کہ جب باقی ملک میں کووڈ کی وجہ سے تقریبات پر پابندیاں عائد تھیں تو ان کی اپنی رہائش پر عملے کے لیے پارٹیز منعقد ہوتی رہی ہیں۔

بورس جانسن گو کہ خود ان تقریبات میں موجود نہیں تھے لیکن انہیں تنقید کا سامنا ہے کہ انہوں نے حکومتی پابندیوں کی خلاف ورزی کی۔ حکمران کنزرویٹو پارٹی کے اپنے ذرائع کی جانب سے ان تقریبات کے تازہ ترین اعتراف کے بعد اسے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ان جماعتوں نے ان تقریبات کا موازنہ ملکہ کی تصویر سے کیا جو کووِڈ کی پابندیوں کی وجہ سے اپنے شوہر کی میت کے سامنے اکیلی بیٹھی ہوئی تھیں۔

سینئر سرکاری افسر، سُوگرے اس تمام معاملے کی تفتیش کر رہی ہیں۔ اپریل کی پارٹیوں کے تازہ ترین انکشاف سے پہلے وزیراعظم نے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باغیچے میں مئی 2020میں ہونے والی پارٹی کے معاملے پر معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عوام کے غصے کو سمجھ سکتے ہیں۔

برطانوی کابینہ کے کئی ارکان جن میں معاون وزیراعظم ڈومینیک راب بھی شامل ہیں، نے وزیراعظم کے حق میں بیانات بھی دیے، تاہم کنزرویٹو پارٹی کے اسکاٹش لیڈر ڈگلس راس اور ایم پی ولیم وراگ، کیرولین نوکس اور راجر بورس جانسن کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 20مئی 2020کو وزیراعظم کی رہائش پر ہونے والی پارٹی کے دعوت نامے میں سماجی دوری کا ذکر تھا اور اس پارٹی میں 30لوگوں نے شرکت کی تھی۔

بورس جانسن نے پارلیمنٹ میں سوالات کے سیشن کے دوران اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اس دن انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ 25منٹ کا وقت گزارا، انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد ’’کووڈ کی وبا کے دوران محنت سے کام کرنے پر شکریہ ادا کرنا تھا‘‘ اور ان کے نزدیک یہ صرف کام کے سلسلے میں ایک تقریب تھی۔

انہوں نے یہ بھی کہا مجھے ان کا شکریہ ادا کرنے کا کوئی اور طریقہ نکالنا چاہیے تھا، حالانکہ یہ تقریب کووڈ کی ہدایات کے خلاف نہیں تھی لیکن مجھے اس بات کو سمجھنا چاہیے تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اسے اس نگاہ سے نہیں دیکھیں گے‘ لیکن بورس جانسن کے بہت سے ساتھیوں کا اُن پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ پارلیمانی ممبران کی بڑھتی ہوئی تعداد یہی چاہتی ہے کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں اور ساتھ ہی ان کے جانے کے وقت اور طریقہ کار کے بارے میں بحث جاری ہے۔

لیبر پارٹی کے سربراہ سر اسٹارمر نے کہا کہ وزِیراعظم جانسن کی اس پارٹی کے بارے میں دی گئی وجوہات اتنی مضحکہ خیز ہیں کہ یہ ایک طرح سے برطانوی عوام کی توہین ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ بورس جانسن سے کہیں گے کہ وہ مہذب طریقے سے استعفیٰ دے دیں۔ قوم پرست اسکاٹش جماعت اسکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) کے لیڈر این بلیکفرڈ نے کنزرویٹیو پارٹی کے اراکینِ پارلیمان پر زور دیا کہ وہ وزیراعظم کو زبردستی عہدے سے ہٹائیں جبکہ سر ایڈ ڈیوی نے کہا کہ اب انہیں جانا ہوگا۔

وزیر خارجہ لز ٹروس اور وزیر خزانہ رشی سونک دونوں ہی کنزرویٹو پارٹی کے اگلے سربراہ کے لیے اہم امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے بیان کے بعد برطانوی اخبار دی ٹائمز کے لیے پولنگ ادارے ’’یو گو‘‘ کی طرف سے کیے گئے ایک سروے سے یہ پتا چلا ہے کہ دسمبر 2013کے بعد پہلی مرتبہ لیبر پارٹی کنزرویٹو پارٹی سے دس پوائنٹ آگے ہے۔

لگتا یوں ہے کہ بورس جانسن کے لیے استعفی دینے کے سوا کوئی آپشن چھوڑا نہیں جائے گاکیونکہ برطانیہ ایک آئیڈیل ڈیموکریسی کی شہرت رکھنے والا ملک ہے۔

قبل ازیں بھی برطانیہ کے کئی وزرائے اعظم چھوٹے بڑے معاملات پر مستعفی ہو چکے ہیں جن میں ٹونی بلیئر، گورڈن براؤن، ڈیوڈ کیمرون اور ٹریزامے شامل ہیں اور ماضی بعید میں بھی ایسی کئی مثالیں برطانوی جمہوریت کی موجود ہیں، دیکھنا یہ ہے وزیر اعظم جانسن ان جمہوری روایات کی کس قدر پاسداری کرتے ہیں!