دھرنے کی سیاست اور قاضی حسین احمد

January 23, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ قاضی حسین احمد اعتدال پسند لیڈر تھے لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، وہ درحقیقت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سب کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے تھے۔ ان کی وفات سے پاکستان میں دائیں بازو کی سیاست کو بڑا نقصان پہنچا۔ جرأت و استقامت قاضی حسین احمد کا طرۂ امتیاز تھا۔ قاضی صاحب علمی دنیا کی شخصیت تھے۔ وہ جغرافیہ کے پروفیسر تھے اور سیدو شریف کالج سوات میں پڑھاتے رہے لیکن سیاست کی پُرخار وادی میں ایسا قدم رکھا کہ پھر سیاست کے ہی ہو کر رہ گئے۔ قاضی حسین احمد ایک روایتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ ایک کارکن کے طور پر ترقی کرکے امیر جماعت اسلامی منتخب ہوئے۔ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے واحد امیر رہے، جو پانچ مرتبہ امارت کے عہدے پر فائز ہوئے۔ قاضی حسین احمد 1985میں چھ سال کیلئے سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ 1992میں دوبارہ سینیٹر منتخب ہو گئے تاہم انہوں نے حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے سینیٹ کی نشست سے استعفٰی دے دیا۔ 2002کے عام انتخابات میں قاضی حسین احمد دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ قاضی حسین احمد 6جنوری 2013کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ انہوں نے 1987سے 2009تک جماعت اسلامی کی قیادت کی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو القاعدہ کے ارکان اور غیر ریاستی عناصر سے دور رکھا۔ نومبر 2012کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے ایک خاتون خود کش بمبار کے ذریعے قاضی حسین احمد پر قاتلانہ حملہ کرایا۔ قاضی حسین احمد کا نام جمعیت علما ہند کے امیر حسین احمد مدنی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ حسین احمد مدنی نے قیام پاکستان کے حوالے سے علامہ اقبال سے مباحثہ کیا تھا لیکن خود قاضی حسین احمد زندگی بھر اپنی تحریر و تقریر میں علامہ اقبال کے اردو اور فارسی اشعار کا استعمال کرتے تھے۔ انہیں علامہ اقبال کے بیشتر اشعار ازبر تھے، وہ علامہ اقبال کے شیدائی تھے، خاص طور پر انہیں فارسی کلام پر تو مکمل دسترس حاصل تھی، قاضی حسین احمد کا گھرانہ دینی پس منظر رکھتا تھا، وہ روایتی عالمِ دین تو نہیں تھے لیکن دینی حلقوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

قاضی حسین احمد نے جہاں روسی یلغار روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا وہیں انہوں نے جہادِ کشمیر کے لیے افرادی قوت بھی فراہم کی۔ قاضی حسین احمد ایک طلسماتی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ جلد لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ قاضی حسین احمد کا شمار پاکستان کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو افغانستان کے امور پر مکمل دسترس رکھتے تھے انہوں نے 1980کے عشرے میں پاسبان قائم کی جس کے ذریعے بنیادی حقوق اور سماجی انصاف کا پرچم بلند کیا گیا۔ قاضی حسین احمد کو اپنی جماعت کے اندر اس تنظیم کے طریقہ کار کے حوالے سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ انصاف کے حوالے سے اُن کے نعرے ’’ظالمو! قاضی آ رہا ہے!‘‘ کو جہاں عوام میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی وہیں ان کی اپنی جماعت کے اندر مخالفت بھی ہوئی، کچھ عرصہ بعد جماعت اسلامی نے پاسبان سے فاصلہ پیدا کر لیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاسبان غیر متحرک ہو گئی اور قصہ پارینہ بن گئی۔ 1994میں قاضی حسین احمد نے پاسبان ختم کرکے شبابِ ملی قائم کر دی۔ قاضی حسین احمد عالمی سطح کے لیڈر تھے۔ دنیا بھر کی اسلامی تحاریک کے روح رواں ان کی دعوت پر پاکستان آتے اور وہ خود ان کی دعوت پر ان ممالک کے دورے کرتے تھے۔ قاضی حسین دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے لیکن انہوں اپنی سیاست میں کبھی فرقہ بندی کو داخل نہیں ہونے دیا، انہوں نے فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے ملی یک جہتی کونسل کی بنیاد رکھی۔ قاضی حسین احمد کی کوششوں سے چند برسوں میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی تعداد میں کم و بیش 54لاکھ کا اضافہ ہوا لیکن ان کی وفات کے بعد اس تعداد میں کمی دیکھنے میں آتی گئی۔ قاضی صاحب اپنی سیاسی غلطیوں کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ وہ امتِ مسلمہ کے اتحاد کے بڑے داعی تھے، قاضی صاحب نے اسلامک فرنٹ بنایا لیکن دوبارہ جماعت کے نام اور جھنڈے سے انتخابات میں جانا ہی بہتر سمجھا۔

قاضی صاحب مذہبی جماعتوں کو متحد اور اکٹھا کرنے کے لیے ہمیشہ متحرک رہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے 2002میں متحدہ مجلس عمل بنائی، یہ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا کامیاب تجربہ تھا۔ ایم ایم اے کے 68اراکین قومی اسمبلی میں پہنچے اور ایم ایم اے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوئی۔ قاضی حسین احمد وفد لے کے چین گئے اور وہاں مسلمانوں کو درپیش مسائل پر بات کی، جماعت اسلامی نے چین کی کیمونسٹ پارٹی کے ساتھ تیرہ نکاتی یادداشت پر دستخط کیے۔ اس میمورنڈم میں مسئلہ کشمیر سرفہرست تھا۔ قاضی صاحب بیرون ملک دوروں میں مقبوضہ مسلم علاقوں خاص طور پر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتے۔ قاضی حسین احمد کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو، انگریزی، عربی اور فارسی پر بھی عبور حاصل تھا۔ 1999میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد پر جماعت اسلامی نے قاضی حسین احمد کی قیادت میں احتجاج کیا۔ احتجاج کی پاداش میں قاضی حسین احمد سمیت جماعت اسلامی کے درجنوں کارکن اور قیادت کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس احتجاج کے دوران پیش آنے بعض واقعات نے مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کے درمیان ایسی دوریاں پیدا کر دیں جو بعد میں تمام تر کوششوں کے باوجود ختم نہ ہو سکیں۔ قاضی حسین احمد نے 1993میں اسلامک فرنٹ اتحاد بنایا۔ 2002 میں دینی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں سابق صدر پرویز مشرف کی امریکہ نواز پالیسیوں کیخلاف وجود میں آیا تو اتحاد کا سیکرٹری جنرل قاضی حسین احمد کو بنایا گیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد قاضی حسین احمد کو اتفاقِ رائے سے اس کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ قاضی صاحب کی کوششوں کے نتیجے میں کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے 5فروری کو یومِ کشمیر منانے کا نواز شریف کے دورِ حکومت میں اعلان کیا گیا، آج بھی یومِ یکجہتی کشمیر جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ دورانِ گرفتاری انہوں نے متعدد اہم مقالہ جات لکھے، جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)