مسائل کی دلدل۔ عوام کدھر جائیں؟

January 23, 2022

عوام اِس وقت مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ معاشی حالات روز بروز خراب ہوتے جارہے ہیں۔ موجودہ حکمران بھی ماضی کی حکومتوں کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ انہیں عوام کی پریشانیوں سے کوئی سرو کار نہیں۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں نے پاکستان کو دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بنا دیا ہے۔ حکومت کے پاس مہنگائی کا کوئی توڑ نہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وفاقی حکومت نے عوام کو مشکلات میں مبتلا کرنے اور معیشت تباہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ حکومت نے ملک کی معاشی خود مختاری آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی معاشی غلامی پر مبنی غلامانہ قانون سازی کو فی الفور واپس لیا جائے۔ موجودہ حکمراں جعلی پیکیج کا اعلان کرنے کی بجائے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کو 2018کی سطح پر واپس لائیں تاکہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔ مہنگائی، بےروزگاری اور حکومت کے دیگر ظالمانہ فیصلوں نے عوام کو نڈھال کرکے رکھ دیا ہے۔ عام آدمی خوفناک مہنگائی سے شدید پریشان ہے۔ ریاستِ مدینہ کے نام لیوا حکمرانوں نے سودی معیشت کے شکنجے کو پہلے سے زیادہ کس کر، عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سودی نظامِ معیشت کا خاتمہ کرکے عوام پر مسلط قرضوں سے نجات دلائی جائے۔ حکمران ہر محاذ پر بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ عوام کو جس تبدیلی کا خواب دکھایا گیا تھا وہ سب کچھ جھوٹ ثابت ہوا ہے۔ عوام میں اب مزید سکت باقی نہیں رہی کہ ان نا اہل حکمرانوں کو برداشت کر سکیں۔ تبدیلی حکومت نے ملک و قوم کا مستقبل تار یک کرکے رکھ دیا ہے۔

زراعت کے مسائل بھی روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ ڈی اے پی کھاد کی قیمت میں 400روپے فی بوری اضافے کے بعد بوری کی قیمت 10ہزار روپے ہو گئی ہے۔ اب تک کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں جو تحریک انصاف نے پورا کیا ہو۔ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام دھرنوں پر مجبور ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں عوام سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ حکمراں اگر عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر سکتے تو انہیں اقتدار میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ حکومت نے کاشتکاروں کے ساتھ جس طرح کا ناروا سلوک اختیار کر رکھا ہے اس سے زراعت تباہ و برباد ہو جائے گی۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ کسان ہر دور حکومت میں نظر انداز ہوتا رہا ہے اور یہ سلسلہ موجودہ دور حکومت میں بھی جاری ہے۔ جب تک کاشتکاروں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل نہیں ہوںگے اُس وقت تک ملکی زراعت کا شعبہ بہتر نہیں ہو سکتا۔ ڈی اے پی کھاد اب غریب کسان کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے، یوریا کھاد بھی مارکیٹ سے غائب ہے۔ شوگر ملز مالکان کی جانب سے کسانوں کا استحصال ہو رہا ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتِ پنجاب نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اربابِ اقتدار کی ساری کارکردگی اخباری بیانات تک محدود ہے۔ کسانوں کے ساتھ اب سوتیلی ماں جیسا سلوک بند ہونا چاہئے۔ زراعت پر جنرل سیلز ٹیکس کو مکمل طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔ کاشتکاروں کو سستی بجلی اور ڈیزل کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس پر ملکی معیشت کا دار و مدار ہے۔ دنیا بھر میں زراعت پر توجہ دی جاتی ہے اور کسانوں کو ریلیف دیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ملک کی کل آبادی کا 70فیصد کسی نہ کسی طور پر اس شعبہ سے وابستہ ہے۔ اس نازک مرحلے پر حکومت کو کسانوں کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کسان خوشحال ہوں گے تو ہی ملک و قوم خوشحال ہوں گے۔ یوریا کھاد کی عدم دستیابی سے کاشتکار سراپا احتجاج ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ قوم کا مستقبل اندھیروں میں ڈوب رہا ہے۔ منی بجٹ کے نام پر کچھ دن قبل عوام پر مہنگائی کا بم گرایا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط پر عمل در آمد کرکے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ وفاقی وزراء کی فوج ظفر موج سے بھی حکومتی کارکردگی بہتر نہیں ہو سکی، عوام اب حکومتی وزرا کی گمراہ کن تقریروں اور کھوکھلے نعروں کی اصل حقیقت جان چکے ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کے اشاروں پر چل رہی ہے اور اس کو غریب عوام کی مشکلات کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ سردی میں اضافے کے ساتھ ہی ملک میں گیس کی قلت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ تبدیلی کے خواب کی ملک و قوم نے بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت سے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص نالاں ہے۔ چند روز قبل عوام پر پھر پٹرول بم گرا دیا گیا۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرکے حکمرانوں نے عوام کے لئےمشکلات کے مزیدپہاڑ کھڑے کر دیے ہیں۔ نئی قیمتوں کے اطلاق سے پٹرول 147روپے، ہائی سپیڈ ڈیزل 144روپے، مٹی کا تیل 116روپے جبکہ لائٹ ڈیزل 114روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ پورا ملک ہی حکومت کی ناقص پالیسیوںکا خمیازہ بھگت رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)