کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ

January 24, 2022

وزیر اعظم عمران خان نے22 اکتوبر 2020ء کو اپنے ایک ٹویٹر بیان میں کہا تھا ’’پاکستان کیلئے عظیم خوش خبری، بالآخر ہم درست سمت میں چل نکلے ہیں،ماہ ستمبر میں 73ملین ڈالر کے سرپلس کیساتھ کرنٹ اکاؤنٹ پہلی سہ ماہی کیلئے792 ملین ڈالر سرپلس ہوگیا، جسے گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 1492ملین ڈالر خسارے کا سامنا تھا۔‘‘لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی، جلد ہی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ از سرنو بڑھنا شروع ہوگیا اور ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اعداد وشمارظاہر کرتے ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، جو اشیا، خدمات اور سرمایہ کاری کے ملک میں آنے جانے کی پیمائش کرتا ہے، موجودہ مالی سال کے لیے حکومت کے نظرثانی شدہ ہدف سے خاصا زیادہ ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ برس نومبر میں ایک ارب 89کروڑ ڈالر جبکہ دسمبر میںایک ارب 93کروڑ ڈالر تھا۔جولائی تا دسمبر موجودہ خسارہ ایک سال پہلے ایک ارب 24 کروڑ 70 لاکھ ڈالر (جی ڈی پی کا 0.9 فیصد) کے سرپلس کے بالکل برخلاف ہے۔تاہم مالی سال 21-2020 کے اختتام تک وہ چھ ماہ کا سرپلس بھی ایک ارب 91 کروڑ 60 لاکھ ڈالر یا جی ڈی پی کے 0.6 فیصد کے برابر خسارہ بن گیا تھا۔جولائی تا دسمبر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑی حد تک بڑھتے ہوئے درآمدی بل کی وجہ سے بڑھا جو اسی مدت کے دوران 53 فیصد بڑھ کر 41 ارب 66 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ‘ یہ اوسطاً 6 ارب 90 کروڑ ڈالر فی ماہ تجارتی خسارہ ہے جو ایک سال پہلے کی مدت میں 4ارب 49کروڑ 70لاکھ ڈالر تھا۔رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3ارب 56کروڑ ڈالر تھا جو دوسری سہ ماہی میں 5 ارب 57 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔حکومت اور اسٹیٹ بینک نے درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔تجارت اور صنعت کے ساتھ ساتھ حکومت کا یہ بھی ماننا ہے کہ اعلیٰ درآمدی بل ملک میں اقتصادی سرگرمیوں خاص طور پر برآمدات کے شعبے کو ظاہر کرتا ہے۔تاہم چھ ماہ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 41 ارب 66 کروڑ ڈالر کی درآمدات کے مقابلے میں اشیا اور خدمات کی برآمدات 18 ارب 65 کروڑ ڈالر ہیںجس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ تقریباً دگنا ہو کر 23 ارب ڈالر ہو گیا جو ایک سال پہلے کی اسی مدت میں 12 ارب 33 کروڑ ڈالر تھا۔گزشتہ دو مالی سال کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بالترتیب جی ڈی پی کے 17 فیصد اور 0.6 فیصد کے برابر رہا۔بیرونی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے زیادہ قرضے لینے کے ساتھ ایسا لگتا ہے کہ ملک قرضوں کے جال کی جانب بڑھ رہا ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی درآمدات کے برابر برآمدات بڑھانے میں ناکام رہا۔حکومت بڑھتے ہوئے درآمدی بل کو مشینری کی اعلیٰ درآمدات سے جوڑتی ہے، جو معیشت میں ترقی کی علامت ہے۔تاہم تجزیہ کاروں اور محققین کا خیال ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ متوقع اقتصادی ترقی سے کہیں زیادہ بڑے مسائل پیدا کر سکتا ہے ۔ملک کی موجودہ اقتصادی صورت حال کی جو کیفیت ان اعداد وشمار سے ظاہر ہوتی ہے،اس کے مقابلے میں وزیر اعظم کا موقف ہے کہ جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 5.37 فی صد تک پہنچ گئی ہے جو اقتصادی بحالی اور بہتری کی واضح علامت ہے۔انہوں نے اس کارنامے پر اپنی ٹیم کو مبارکباد بھی دی ہے۔ لیکن کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا مسلسل بڑھتے چلے جانا خطرے کی واضح علامت ہے جس سے ظاہر ہوتاہے کہ معیشت کے درست سمت میں گامزن ہوجانے کا دعویٰ خود اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ ان حالات میں ماہرین کا یہ موقف بلاشبہ حکومت کی فوری اور سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ متوقع اقتصادی ترقی کو بے معنی بناسکتا ہے ۔