افغانستان پھر تباہی کے دہانے پر

January 24, 2022

شطرنج کے کھیل میں ایک عمل ہوتا ہے جسے ''سکائیور'' کہا جاتا ہے۔ اس اقدام میں، کھلاڑی ہر دو صورتوں میں ، کوئی انتخاب کرے یا نہ کرے ہار جاتا ہے۔ اس وقت افغانستان کی یہی حالت ہے۔ ہارنے والے فریق افغانستان کے غریب لوگ ہیںجو بین الاقوامی سازشوں، عسکریت پسندی، شورش، جنگ اور قحط کی لپیٹ میںہیں۔ 20سال کی جنگ کے بعد افغانستان پر ایسے لوگ حکومت کر رہے ہیں جو بھوک، موت، دیوالیہ پن، عالمی تنہائی اور آنے والے بدترین حالات کی قیمت پر برسرِ اقتدار آئے۔ طالبان کے اقتدار پر قبضے اور امریکی فوجیوں کے تباہ کن انخلا کے بعد واشنگٹن کے دباؤ پر عالمی برادری اور عالمی مالیاتی ادارے نے افغانستان کیلئے اپنے دروازے بند کر لیے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ مغربی ممالک بالخصوص نیٹو ممالک نے افغانستان میں غلطی کی اور غریب عوام کو اس غلطی کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا ۔ افغانستان اب تباہی کے دہانے پر ہے۔ قدیم زمانے کے ایک متعصب فلسفی کے مطابق ’’میرے استاد نے مجھے سکھایا کہ زیادہ تر لوگ اچھے اور مہربان ہوتے ہیں لیکن میرا تجربہ کچھ اور کہتا ہے'۔‘‘

طالبان ملک کی سنگین صورتحال کا اندازہ اسی دن کر سکتے تھے جس دن انہوں نے امریکہ کی قائم کی گئی سابق حکومت سے اقتداراپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ ملک مالی لحاظ سے ہچکولے کھا رہا تھا۔ جی ڈی پی کا چالیس فیصد فارن فنڈنگ پر مشتمل تھا۔ یہ دولت مند اور پڑوسی ممالک کی طرف سے دی جانے والی امداد کے علاوہ ہے۔ کچھ فنڈز براہِ راست واشنگٹن سے آرہے تھے۔ یہ تمام فنڈزامریکہ کے کابل سے نکلتے ہی رُک گئے۔یہاں تک کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے افغان حکومت کے غیر ملکی فنڈز ضبط کر لیے۔ دلیل یہ تھی کہ یہ فنڈز طالبان کے ساتھ مذاکرات، خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ ان کے سلوک کی بنیاد پر جاری کیے جائیں گے۔ چند مہینوں میںبینکنگ سیکٹر تباہ ہو گیا، دسمبر کے آخری ہفتے تک، نصف سے زیادہ آبادی کے پاس بنیادی ضروریات کے لیے نقد رقم نہیں تھی۔ طالبان حکومت نے بار بار اعلان کیا کہ ان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی اور طالبان اپنے طرزِ حکمرانی کو جدید خطوط پر بدلنے کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ سب رائیگاں گیا۔ کابل مکمل طور پر تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔اس کے بعد صحت اور خوراک کا شعبہ آتا ہے۔ افغانستان کو خوراک اور طبی سہولیات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ساٹھ فیصد سے زیادہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ افغان کمپنیاں اور حکومت بنیادی صحت کی اشیاء درآمدکرنے سے قاصر ہیں۔ بجلی کی قلت ہسپتالوں کی بنیادی خدمات کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ ڈاکٹروں کے پاس طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں اور کسی کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ سرجری کروا سکے۔ ہر روز بچے مر رہے ہیں۔ پاکستان بین الاقوامی ڈونر آرگنائزیشنز سے آنے والی امداد کی واحد سپلائی لائن ہے۔ افغانستان ایک سنگین انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے جبکہ دنیا اس کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ افغانستان شدید سردی اور بھوک کی شدت سے گزر رہا ہے۔کئی خاندان کھلے آسمان کے نیچے رہ رہے اور پودے تک کھا نے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ افغان حکومت کے پاس نقدادائیگی کا کوئی انتظام ہی موجود نہیں۔ مزدور ایک دن کے کام کے لیے چاول اور آٹے کے تھیلے وصول کر رہے ہیں۔ گندم اور چاول پاکستان فراہم کر رہا ہے۔امریکہ کی قیادت میں مغربی بلاک کے ممالک طالبان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر رہے ہیں ۔ چین اور روس امداد فراہم کرنے کے علاوہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے اقوام متحدہ میں آواز اٹھا رہے ہیں لیکن جواب میں تاحال خاموشی ہے۔ یہ کردار اب پاکستان پر چھوڑ دیا گیا ہے۔دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان تو ہوا ہی بلکہ اسّی ہزار کے قریب ہلاکتیں بھی ہوئیں۔دنیا یہ سمجھنے سے قاصر رہی ہے کہ پاکستان خود اس حوالے سے شدید متاثر رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو پچھلی افغان حکومت کی ناکامی اور کابل سے امریکی انخلاء کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔یہاں 30لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین موجود ہیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگا دی گئی لیکن وہ بھی مکمل طور پر موثر نہیں ۔ سرحد پر کشیدگی بڑھ رہی ہے اور خوراک و طبی سامان کی شدید قلت ہے ۔ موسم سرما زوروں پر ہے ، افغانستان کو وہ امداد نہیں مل رہی جس کی اسے ضرورت ہے۔

اپنے خصوصی اقدام میں وزیر اعظم عمران خان نے علاقائی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات سمیت دیگر کو ملا کر افغانستان کیلئے امداد اور تعاون کا ایک پروگرام شروع کیاہے۔ اس کوشش کا مثبت نتیجہ نکلا اور ضروری سامان کابل پہنچا دیا گیا۔ پاکستان یکطرفہ طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں، لیکن افغانستان کو عدم استحکام اورتباہی کے راستے پرڈالنے کیلئے بھی تیار نہیں۔ پاکستان طالبان حکومت کی حمایت کیلئے لابنگ بھی کر رہاہے اور انہیں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے سفارتی طور پر ان کی معاونت کر رہاہے۔ افغانستان میں افراتفری کسی بھی فریق کیلئے اچھی نہیں ہو گی۔حال ہی میں افغانستان سے پاکستان پر حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ افغانستان کے عوام پر رحم فرمائے اور انہیں پرامن کل کا راستہ دکھائے،کہ یہی نا صرف افغانستان بلکہ عالمی امن کیلئے انتہائی ضروری اور سود مند ہو گا۔