نمبرز بنانے کی جنگ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے زور پکڑ لیا

January 24, 2022

اسلام آباد (تبصرہ / طارق بٹ) نمبرز بنانے کی جنگ زور پکڑ گئی ہے جس میں اپوزیشن کی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کی پوزیشن جہاں مستحکم ہوئی وہیں حکمراں جماعت تحریک انصاف کو جدوجہد کا سامنا ہے۔

حکمراں جماعت اپنی صفوں میں دراڑیں پڑنے سے روکنے کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں کیونکہ حکمراں اتحاد کی صفوں میں دراڑیں پڑتی نظر آرہی ہیں یہ جماعتیں آپس میں مربوط ہونے کے بجائے دست گریباں دکھائی دیتی ہیں۔ وزیر دفاع پرویز خٹک، نور عالم، میجر (ریٹائرڈ) طاہر صادق اور سابق سیکریٹری احمد جواد جنہیں اب پارٹی سے خارج کردیا گیا ہے۔ کم از کم پی ٹی آئی کے دو ارکان اسمبلی کے آئندہ انتخابات میں کامیابی کا نظرنہیں آتا۔

نور عالم کو تو اظہار وجوہ کا نوٹس بھی دیا جاچکا ہے تاہم پرویز خٹک اور طاہر صادق کی تنقید کو نظرانداز کردیا گیا ہے حالانکہ پارلیمانی پارٹی اجلاس میں انہوں نے کھل کر اپنے حکومت مخالف خیالات کااظہار کیا تھا لیکن اسے نظرانداز کردیا گیا ۔

زبانی جھگڑے کے تین ہفتوں بعد ہی پرویز خٹک کو پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کا سربراہ بنادیا گیا۔ پشاور سے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ نور عالم آئندہ انتخاب پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر نہیں لڑیں گے۔

پیپلزپارٹی کی صفوں میں بھی گزشتہ انتخابات کے مقابل میں بہتری آئی ہے لیکن فیصلہ کن انتخابی نتائج دینے کی پیپلزپارٹی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ملک کی چوتھی بڑی سیاسی و انتخابی جماعت جے یو آئی ہے جس نے خیبرپختونخوا میں اپنی انتخابی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ اس کے برعکس دیگر سیاسی جماعتوں میں سے کوئی بھی ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی طرف بظاہر مائل نہیں۔

حکومت میں اس کی کارکردگی نے اس کے بیشتر قانون سازوں کو مایوس کیا ہے۔ خٹک، نور عالم اور طاہر صادق نے جو کچھ کہا وہ حکمران جماعت کے ایک بڑے طبقے کے جذبات کا عکاس تھا۔ گزشتہ چند برسوں میں انتہائی مشکل وقت کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) برقرار ہے اور کوئی بھی اس سے اگلے انتخابات کے لیے کسی دوسری سیاسی جماعت کی کفالت حاصل کرنے کی دوڑ میں نہیں ہے۔

یہ اس کے ماضی سے ایک واضح رخصتی ہے جب پرویز مشرف کے دور حکومت کے ابتدائی سالوں میں اس کے متعدد الیک ٹیبلز نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت بادشاہ کی پارٹی PMLQ کو PMLN سے الگ کر دیا گیا تھا جب شریف جلاوطنی میں سعودی عرب میں رہ رہے تھے۔

چوتھی اہم سیاسی جماعت، جمعیت علمائے اسلام ف (JUI-F) نے خاص طور پر کے پی میں اپنی مقبولیت کو نمایاں طور پر بڑھایا ہے۔ اس صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے نے اس بات کا ثبوت دیا ہے۔ اگر جے یو آئی (ف) سے کوئی رخصتی نہیں ہوئی ہے تو اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔

مولانا فضل الرحمان کی جانب سے چلائی جانے والی بے لگام اور نہ ختم ہونے والی حکومت مخالف مہم نے کے پی میں فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ جے یو آئی ایف کے ووٹرز اب زیادہ متحرک ہو گئے ہیں۔