میر خلیل الرحمٰن :چمنِ صحافت میں دیدہ ور

January 25, 2022

قارئین کرام! ابلاغ عامہ اور پاکستانی صحافتی تاریخ کے طالب علم اور عشروں پر محیط عملی و تدریسی صحافت کے اپنے وسیع تر تجربے کے بعد اب خاکسار کا یہ تحقیقی مفروضہ (HYPOTHESIS) پختہ ہوگیا ہے کہ سر سید کی عملی تحریک سے تیار ہونے والی مسلمانانِ ہند کے سیاسی دانشوروں کی کھیپ، ان کا تیار کیا گیا ’’دو قومی نظریے‘‘ کا تاریخ ساز بیانیہ، سیاسی جدوجہد میں اسے (بیانیے کو ) حاصل نتیجہ خیز صحافتی معاونت، حضرت قائد اعظم کی باکمال ذہین وراست قیادت اور اقبال کا مسلمانانِ ہند کیلئے علیحدہ مملکت کا خواب اور اسے عوام کے اذہان میں بسانے کی علمی و شاعرانہ پراثر ابلاغی صلاحیت، قیام پاکستان کے چار بے مثال محرکات ہیں۔ان پر الگ الگ سائنٹیفک تحقیق کرکے نتائج کو تابناک پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے مطلوب گورننس، متعلقہ ایڈوانس اسٹڈیز خصوصاً پالیسی و فیصلہ سازی سے جوڑنا ہماری بڑی قومی علمی ضرورت بن کر بالکل واضح ہو گئی ہے۔

آج کے ’’آئین نو‘‘ میں یونیورسٹیوں، تھنک ٹینکس اور موضوع سے متعلقہ حکام اور دیگر ذمے داران کی توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔ یہ کالم پاکستان کےسب سے بڑے اور ابلاغ عامہ کی قومی ضروریات کو پورا کرنے کے ارتقائی عمل کے سب سے بڑے ادارے جنگ/جیو گروپ کے بانی میر خلیل الرحمن کی برسی کے خصوصی حوالے سے ان کی یاد میں پاکستانی صحافت سے متعلق ناچیز کا علمی نوٹس ہے۔ پاکستان کے قیام میں برصغیر کی تیزی سے ارتقاء پذیر مسلم صحافت نے مسلم لیگ کے ’’دو قومی نظریے‘‘ کو عام کرنے، خصوصاً قائداعظم کے سیاسی ابلاغ اور اقبال کے ’’نظریہ پاکستان‘‘ کو عوام الناس پر واضح کرنے کیلئے جو تاریخ ساز خدمات انجام دیں، اس میں ہم نے پیشہ صحافت کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ اسے برقرار رکھتے ہوئے اس میں سے نظریاتی اور مشنری صحافت کی ایک نئی جہت نکالی، جو پاکستان کے چار بنیادی محرکات میں سے ایک اہم محرک کے طورپر تاریخ میں محفوظ ہو گئی۔ قیام پاکستان کے بعد مملکت کی تشکیل میں برصغیر کی مسلم صحافت کا کردار، دنیا بھر کے لیے نظریاتی صحافت یا مشنری جرنلزم کی بے مثال کیس سٹڈی بن گیا خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے لیے کہ ’’پاور آف پین‘‘ سے سیاسی عمل کو چلانے، بڑھانے اور اس سے عظیم تر سیاسی اہداف حاصل کرنے کیلئے یہ ابلاغی قوت (پاور آف پین) کس قدر معاون ہو سکتی ہے۔ پاکستان بن گیا تو نئی مملکت کے نئے قومی چیلنج سامنے آنےلگے۔ پارٹیشن آف انڈیا اور اس سے علیحدہ ہو کر ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قائم کرکے دنیائے صحافت کے ہمارے اکابرین کی ایک تاریخ ساز کھیپ اپنا کارِ عظیم انجام دے چکی تھی۔ سرسید احمد خان، حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان اور سب سے بڑھ کر اقبال جیسے علمی و صحافتی دنیا کے اکابرین نے پاکستانی قوم تشکیل ہونے اور اس کی مملکت کے قیام سے قبل آزاد وطن کی نسلوں کیلئے یہ زندہ قومی احساس و شعور ورثے میں دیا کہ وہ سمجھ پائیں (اور اس کے مطابق تعمیرِ وطن کا اگلا سفر شروع کریں ) کہ تبدیل ہوئے زمانے میں نیشن بلڈنگ کیلئے قومی صحافت کی کیا اہمیت ہے۔

ادارہ جنگ کے بانی میر خلیل الرحمن کا صحافتی شعور بےحد وسیع تھا، جسے انہوں نے قیام پاکستان سے قبل ہی عمل میں ڈھال دیا تھا۔ انہوں نے گوجرانوالہ / وزیر آباد سے کوچ کرکے دہلی جاکر نامساعد حالات میں کامرس کی جدید تعلیم حاصل کی، بی کام کیا، چونکہ قدرتاً ابلاغ عامہ کی خدمت اور فروغ کیلئے بنائے گئے تھے، سو انہوں نے قیام پاکستان سے پانچ سات سال پہلے ہی خارزار صحافت میں قدم رکھ دیا۔ خار زار اس طرح کہ نظریاتی اور بڑے سیاسی ایجنڈے کو عشروں سے لیکر چلنے والی سرگرم مسلم صحافت کے غلبے میں کوئی نیا تجربہ کرنا اپنی جگہ ایک بڑا چیلنج تھا۔ خود میر صاحب مسلم لیگ کی تحریک پاکستان سے مکمل متاثر ہی نہیں مختلف شکلوں میں اس کے عملی طور پر معاون بھی تھے۔ اندازہ اس سے لگائیں کہ اپنی صحافتی ذہانت سے انہوں نے انتہائی کم رقم (وہ بھی قرضہ حسنہ لے کر) سے روزنامہ جنگ کا جو اجرا دہلی سے کیا، اس میں اخبار کا نام جنگ رکھنے کا عقلی جواز میر صاحب کی صحافتی ذہانت کا عکاس تھا۔ وہ مسلم لیگ کے پیغام کو بیباکی سے عام کرنے کے جرم میں پابند سلاسل بھی ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی۔ ہندوستان برطانیہ کی سب سے بڑی کالونی تھا جہاں سے فرنگی حکومت نے ہزاروں فوجی بھرتی کرکے مختلف محاذوں پر بھیج دیے تھے۔ ایک تو عالمی جنگ کی اپنی اہمیت دوسرے برصغیر کے ملٹری پروڈیوسنگ ایریاز سے ہونے والی ہندوستانی بھرتی برطانوی کمان میں دیس سے باہر چلی گئی تھی۔ کھلی منڈی کے برعکس آٹا، چینی، چاول، مٹی کا تیل وغیرہ راشن کارڈ پر ملنے لگا تھا۔ اس ماحول نے صدر مقام دہلی میں خصوصاً اور تمام صوبائی صدر مقامات میں جنگ کی خبروں سے متعلق تجسس کی ڈگری بہت زیادہ بڑھا دی تھی۔ سست ٹیکنالوجی تھی اور فون ٹیلی گرام کی سہولتیں محدود تھیں، جنگی ماحول کی لپیٹ میں برطانیہ سے ہندوستان آنے والے بحری راستے ڈسٹرب ہو گئے تھے، تاخیر سے پہنچتے تو ان میں جنگ کی خبروں اور تجزیوں سے بھرے برطانوی اخبارات بہت تاخیر سے پہلے صدر مقام دہلی تک آتے، پھر ان ہی سے مقامی اخبارات مطلع ہوتے کہ کس کس عالمی محاذ پر کیا ہو رہا ہے ؟ذیلی خبروں کیلئےTwo Step Flow Of Communication شروع ہوا،ہندوستان کا انگریزی پریس اسے جلد سے جلد حاصل کرکے شائع کرتا۔ پھر یہ محدود انداز میں اردو اخبارات تک چھپتے چھپتے بہت تاخیر ہوجاتی۔ گویا جنگی محاذوں کی اطلاعات معلوم کرنے کیلئے عوام الناس میں خبروں تک رسائی کیلئے تجسس بڑھ رہا تھا اور نیوز ورک فلوسست تھا۔ ایسے میں اردو قارئین کو جنگ کی خبروں سے مفصل اور ممکنہ حد تک جلد آگاہی کیلئے کمیونیکیشن جینئس جواں سال میر خلیل الرحمن نے جنگ ہی کے نام سے روزنامہ جنگ کا آغاز کیا۔ یہ نیا اردو اخبار عالمی جنگ کی سب سے زیادہ خبریں دینے لگا۔

الحمد للہ :پاکستان کے قیام کے بعد نئی قومی ضرورتوں کے مطابق صحافت کے تحریک پاکستان میں تاریخی کردار کے پس منظر میں قومی صحافت کی اہمیت اور شعور واضح اور بلند تو تھا۔ میر صاحب نے اس چیلنج اور قومی ضرورت کو بھی کمال صحافتی ذہانت سے پورا کیا۔ (جاری ہے )