900 ارب روپے کے مالیاتی استحکام سے اقتصادی نمو کی رفتار سست ہوگی

January 26, 2022

اسلام آباد (مہتاب حیدر) حکومت کی جانب سے 900 ارب روپے کے مالیاتی استحکام سے اقتصادی نمو کی رفتار سست ہوگی۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ سخت اقدامات کا مقصد نمو اور مہنگائی میں توازن کرکے کرنٹ اکائونٹ خسارہ قابو کرنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، معیشت کا استحکام مالیاتی سختی پر منتقل ہوگیا ہے جس پر منی بجٹ کے ذریعے عمل کیا گیا ہے اور 643 ارب روپے کی پٹرولیم لیوی کے حصول کے ساتھ ترقیاتی اخراجات 200 ارب روپے کم کردیئے گئے ہیں۔ ایف بی آر کے ٹیکس / نان ٹیکس اقدامات، بجلی شعبے کی سبسڈی کی واپسی اور ترقیاتی اخراجات کو قابو کرنے سے 900 ارب روپے کا مالیاتی استحکام ہوگا جس کے نتیجے میں اقتصادی نمو کی رفتار سست ہوجائے گی۔ 275 بیسز پوائنٹس کے اضافے سے زری سختی اپنا کام کرچکی ہے اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ مالیاتی سختی معیشت کی رفتار کم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ مطلوبہ سرمایہ اور بچت نہ ہونے سے پاکستان کی بلند نمو نے مالی اور بیرونی اکائونٹس پر عدم توازن پیدا کردیا تھا لیکن اب مالیاتی سختی سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور بجٹ خسارہ آنے والے دنوں میں کم ہوجائے گا۔ فیول پرائس توازن کی مد میں بجلی کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے اور اب سبسڈی ختم کرنے سے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ جب کہ 200 سے 400 یونٹس کا مجوزہ ٹیرف 12.62 روپے فی یونٹ سے بڑھ کر 15.73 روپے فی یونٹ تک پہنچ جائے گا۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت زری اور مالیاتی سختی کا مقصد پاکستان کی معیشت کی رفتار سست کرنا ہے کیوں کہ اسٹیٹ بینک پہلے ہی جی ڈی پی نمو کا تخمینہ 1 فیصد کم کرچکا ہے۔ تاہم، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ حکام نے اس حوالے سے متضاد دعوٰی کیے ہیں۔ جب کہ چیئرمین ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں 20 فیصد تک کمی ہوگی کیوں کہ فارما کمپنیوں کو ریفنڈز ملے گا۔ البتہ پیکج غذائی اشیاء کی قیمتیں منی بجٹ پر عمل درآمد کی وجہ سے بڑھ چکی ہیں اس کے علاوہ بیکری اشیاء بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھادی ہیں اور جلد ہی یہ 150 روپے فی لیٹر کی نفسیاتی حد عبور کرلے گی۔ حکومت رواں مالی سال کے دوران 300 ارب روپے جمع کرنے کے لیے پٹرولیم لیوی میں 4 روپے فی لیٹر اضافہ کررہی ہے۔ جب کہ ترقیاتی اخراجات بھی 900 ارب روپے سے کم کرکے 700 ارب روپے کردیئے گئے ہیں۔ قومی اقتصادی کونسل (نیک) ممکنہ طور پر وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ششماہی جائزہ فروری، 2022 کے پہلے ہفتے میں لے گی۔ اس کا مقصد یہ جاننا ہوگا کہ وزارت منصوبہ بندی نے زائد فنڈز جاری کیے۔ تاہم، وزارتیں / ڈویژنز اور عمل درآمدی ایجنسیوں کے پاس صلاحیتیں نہیں ہیں کہ وہ موجودہ وسائل کا بھی استعمال کرسکیں۔ نیب کا خوف بھی مسائل کا ایک سبب ہے۔