میر خلیل الرحمٰن: چمنِ صحافت میں دیدہ ور

January 27, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

نومولود پاکستان میں قومی سیاست اور بحیثیت مجموعی نیشن بلڈنگ کے عمل کا جو آغاز ہوا اس میں نئی دہلی سے کراچی منتقل ہونے والے روزنامہ جنگ کے روایتی ایجنڈے (جنگِ عظیم، اس کے خاتمے اور تحریک و قیام پاکستان کی ترجیحی کوریج) کو تبدیل کرکے نئی مملکت کی ضرورتوں کے مطابق ایجنڈا سیٹنگ یقیناً ایک بڑا پیشہ ورانہ چیلنج تھا، خصوصاً جب نئی تبدیل ہوتی دنیا میں تیزی سے وسعت اختیار کرتی صحافت ظہور پذیر پیشہ ور اور صنعتی درجے پر آنے کے لیے مطلوب مالی وسائل پیدا کرنے کے چیلنجز سے دوچار ہو گئی تھی۔ اب دارالحکومت کراچی سے شروع ہونے والے روزنامہ جنگ کو ’’ملک کا سب سے کثیر الاشاعت قومی اخبار بنانا میر خلیل الرحمٰن کا پہلا چیلنج تھا۔میر صاحب نے نئی مملکت کے شروع ہوئے جمہوری و سیاسی عمل کو مطلوب ابلاغی معاونت کی VISUALIZATIONکرتے کمال کی ایجنڈا سیٹنگ کی۔ تحریک پاکستان کے برعکس اب انہوں نے کسی مخصوص سیاسی نظریے کی پروموشن کی بجائے سیاسی عمل میں اپنی اپنی جگہ بنانے والے مختلف نقطہ ہائے نظر کی کوریج حصہ بقدر جثہ کے اصول کو اپنی پالیسی بنایا اور انتہائی خوبصورتی اور توازن سے اس کو نبھانے میں بہت جلد بغیر کسی ابلاغی مشاورت کے خود ہی مہارت حاصل کرلی۔ روزنامہ جنگ کی یہ پالیسی اتنی SUSTAINABLE(برقرار رکھنے کی صلاحیت ) ثابت ہوئی کہ اس نے ناصرف جنگ کو چار چاند لگا دیئے بلکہ بڑے بڑے مخصوص و محدود نظریات کے حامل قومی اخبارات نے عشروں کے بعد ایجنڈا سیٹنگ کے اسی انداز کو اختیار کرنے کے لیے بہت پاپڑ بیلے لیکن وہ اپنی پرانی چھاپ اور میر صاحب کی مہارت کے باعث مقابلہ نہ کرسکے۔ یوں جنگ کو ملک کا سب سے کثیر الاشاعت اخبار ہی نہیں پوری ملکی صحافت کے لیے قابل رشک و تقلید بننے میں دیر نہ لگی۔ صحافتی اختراعات میں یہ میر خلیل الرحمٰن کی جلد سے جلد اختیاریت نے جنگ کو پاکستان ہی نہیں بلکہ برصغیر کا ٹرینڈ سیٹرمیڈیا گروپ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ الگ کہانی ہے کہ کس طرح سرحدوں سے باہر اس انداز صحافت کا رجحان ہندوستان خلیجی ریاستوں اور بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی جرنلزم تک اپنی اعلیٰ صحافتی اقدار کے ساتھ سرایت کر گیا۔

ناچیز پر تو بطور استاد میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اور ادارہ جنگ /جیو سے طویل وابستگی کے باعث مکمل واضح ہے کہ جنگ گروپ کس طرح پاکستان میں گورننس، جمہوری و سیاسی عمل، قومی معیشت اور سوشل سیکٹر کو مطلوب معاونت کے حوالے سے قومی میڈیا کے لیے ٹرینڈ سینٹر اور رزلٹ اوریئنٹڈ ثابت ہوا، لیکن شعبہ ہائے ابلاغیات کی توجہ درکار ہے کہ یہ کس طرح اور کتنا اہم ایک معیاری پی ایچ ڈی کا ایریا آف ریسرچ ہے۔ میر خلیل الرحمٰن نے اپنی اختراعی ایجنڈا سیٹنگ سے اور اس کے فالو اپ میں ان کے صاحبزادگان میر جاوید الرحمٰن اور میر شکیل الرحمٰن نے پاکستانی قومی صحافت کو ظہور پذیر ملکی عوامی ضروریات کے حوالےسے جو تازگی بخشی اس نے ہماری صحافت کے پیشہ ورانہ پہلو اور سیدھی سادی صحافت کو میڈیا انڈسٹری میں تبدیل کرنے میں شدید مطلوب اور آئیڈیل حد تک جو توازن پیدا کیا اس پر تنقید تو ہوتی ہے لیکن بہت محدود ذہن کےساتھ اور نیم حکیمانہ انداز میں اور تقلید کے ساتھ حالانکہ تحریک پاکستان کو مسلم قومی صحافت (بطور معاون قلمی کارواں) کی اثر انگیز اور نتیجہ خیز ابلاغی معاونت کا سبق ہییہ تھا کہ اب نیشن بلڈنگ کے عمل میں ’’قومی صحافت‘‘ پر ایک بڑی اور ترجیحی ریاست و قومی ضرورت کے طور اس پر نظررکھی جائے اور تعمیروطن کے لیے اس سے وہ ہی کام لیا جائے جو قیام پاکستان جیسے عظیم سیاسی مقصد کے لیے لیا گیا۔

میر خلیل الرحمٰن نے اپنی زندگی میں ہی ریاستی وقومی ابلاغی ضرورتوں کو بمطابق پوری کرنے کے لیے ملک کا سب سے بڑا میڈیا گروپ تشکیل دے دیا تھا جس میں مطلوب سماجی ضروریات کے لیے میگزین جرنلزم، شامیہ اخبار، کمزور اقتصادی خواندہ طبقے کے لیے مفید کم قیمت اخبارات، بین الاقوامی ابلاغی ضروریات پوری کرنے کے لیے انگلش اخبار سما گئے اور پورے پاکستان کے لیے تعمیرِ وطن اور قومی یکجہتی کامیاب اور مطلوب میڈیا گروپ کا ماڈل ملک و قوم کو دے کر رخصت ہوگئے۔ اس کو جیسے تیسے اپنانے کی کوششوں میں آج ملک میں کتنے ہی میڈیا گروپ قائم ہو گئے جو اپنے اپنے دائرے میں کامیاب بھی ہیں۔

جنگ گروپ کی پیشہ ورانہ سکت اور اس میں امتیاز و اختراع کو مسلسل بڑھانے کے لیے میر خلیل الرحمٰن نے ہیومن ریسورس حاصل کرنے کی جو پالیسی اختیار کی وہ ایجنڈے کو عمل میں ڈھالنے کے لیے ’’بیسٹ آف دی بیسٹ‘‘ کے علاوہ مختلف نظریاتی اور رائے کے شیڈز کے ساتھ متوازن تھی جس سے ملکی قومی یکجہتی کو بہت فروغ ملا یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں جنگ لندن اور اخبار جہاں کے ذریعے پاکستانیوں کی جملہ ابلاغی ضروریات دیار غیر میں بھی بغیر کسی رکاوٹ اور مشکل حالات کے باوجود عشروں سے پوری ہو رہی ہیں جن کے ای ایڈیشنز دنیا بھر میں آباد پاکستانی، پاکستان سے جڑے رہنے کے لیے دیکھتے پڑھتے ہیں۔

آج ملک میں رواں صدی کے آغاز پر الیکٹرانک میڈا کا جو انقلاب برپا ہوا میر خلیل الرحمٰن نجی شعبے کی براڈکاسٹنگ جرنلزم اور پھر ٹی وی چینل شروع کرنے کا آغاز کرنے کے بھی متمنی تھے۔ یہ ان کے اگلے اہداف تھے سو انہوں نے ایوبی دور میں اپنا ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے اور پھر ضیائی دور میں ٹی وی چینل شروع کرنے کے لیے حکومتوں سے رجوع کیا۔لیکن شنوائی نہ ہوئی حتیٰ کہ پی پی اور ن لیگی ادھوری جمہوریتوں کے ادوار میں بھی اس حوالے سے بھی جنگ گروپ کی مکمل حوصلہ شکنی کی گئی اور تو اور، کیا ملاوٹ شدہ آمریتیں اور کیا بیمار جمہوری ادوار میں، جنگ کے قومی جمہوری ایجنڈے پر بھی حکومتوں کے طیور ادارے پر وبال جان بنتے رہے لیکن عجب ہوا کہ دورانِ اقتدار وردی کو بھی اپنے بدن کی دوسری کھال کہنے والے صدر مشرف نے نہ جانے کس طرح اتنی فراخدلی دکھائی کہ نجی ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیو کے لائسنس کے اجرا کی قانون سازی کر دی اور اس پر عملدرآمد بھی جبکہ بھٹو دور کے اختتام تک نیشنل پریس ٹرسٹ انتخابی وعدوں کے برعکس قائم رہا۔ (جاری ہے)