لا علاج!

January 27, 2022

اس دنیا میں بے شمار لوگ ایسے ہیں، جو غموں تلے سسک رہے ہیں۔ آدھی انسانیت غربت تلے دبی ہوئی ہے۔ جن لوگوں کے کاروبا ر سیٹ ہیں، و ہ بھی سکھی تو نہیں۔ بھائی جائیداد پہ لڑ رہے ہیں۔ ماں باپ حیران بیٹھے ہیں۔ کھرب پتی گھرانوں میں بھی ساس اوربہو کی لڑائی اسی طرح چلتی ہے، جیسے غریب گھرانوں میں۔ اپنی اولاد اور اپنے بہن بھائیوں کی طرف سے انسان کو ایسے دکھ ملتے ہیں، جو کلیجہ چیر دیتے ہیں۔ ایک بے تحاشا امیر شخص کو لا علاج بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے معالج کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔ بیمار جسم و دماغ سے بڑی تکلیف اور کیا ہوسکتی ہے؟

خدا نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے تو اس آزمائش کی نوعیت کیا ہے؟ یہ آزمائش ہر فرد کے لیے مختلف ہے‘اس کی استطاعت کے مطابق۔ نرسری کے طالبِ علم سے ماسٹرز کا سوال پوچھا نہیں جا سکتا۔ قانون کی کتاب میں لکھا ہے: اللہ کسی شخص پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں ہر شخص کی Capacityدوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ انسانوں میں سے اکثر تو بہت چھوٹے چھوٹے سے مسائل پر بلکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ پھر آپ کو ایک عجیب و غریب شخص ملے گا، جو انتہائی خوفناک حالات میں بھی پرسکون ہوگا۔ جن والدین کے گھر ایب نارمل بچے پیدا ہوتے ہیں، ان کی زندگی کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ذاتی پروگرامز پر ایک انتہائی معصوم بچّہ حاوی ہو جاتا ہے‘ جسے ہر لمحہ اپنے ماں باپ کا ساتھ درکار ہوتاہے۔ایسے والدین کے دل میں اللہ اپنے بچے کے لیے رحم اور محبت کا ایک دریا بہا دیتاہے۔اس کے بعدوہ اس خوفناک آزمائش سے گزرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک آدھ دن میں نہیں ہوتا۔ انسان جلدی میں ہوتا ہے، جبکہ خدا کے سامنے ایک مکمل تصویر ہوتی ہے۔ اس شخص پر کتنے عرصے میں کتنا غم آئے گا۔ ٹراؤما سے نکلنے کے بعد اس کی حالت کیا ہوگی؟ اس دوران اس شخص کو راحت کس طرف سے ملے گی۔کچھ لوگ تو موت تک اپنی بیماری اور مصیبت کو صبر سے برداشت کرتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ معمولی جھگڑوں پر ہی بکھر جاتے ہیں۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اللہ نے آپ کے اندر کتنی استطاعت (Capacity)رکھی ہے توآپ اپنے مسائل اور غموں کا جائزہ لے لیں۔ آپ کی استطاعت ان پریشانیوں سے کچھ زیادہ ہے۔ گاڑی بنانے والی کمپنی سے زیادہ کون جانتا ہے کہ وہ کتنا وزن ڈھو سکتی ہے؟ ہاں، البتہ یہ الگ بات کہ انسان کو کم علمی کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ غم اس کی استطاعت سے زیادہ ہے۔ کچھ عرصے میں وہ پھر اسے اٹھانے اور حتیٰ کہ اٹھا کر مسکرانے کے قابل بھی ہوجاتا ہے۔

مسائل تو وہی ہیں۔ رشتے نہ ہونا‘ اولاد کا نافرمان ہونا‘ شوہر کی درشتی‘ بھابھی کی کام چوری‘ بچوں کا فیل ہونا‘ گھر والوں کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونا‘ کم آمدنی‘ جائیداد پہ قبضہ‘ ساس بہو کی کشمکش‘ بیٹی کے سسرال والوں کی زیادتی۔شکل و صورت‘ قد کاٹھ‘ رنگت اور نین نقش سے جڑے ہوئے احساسِ کمتری کی مختلف قسمیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آزمائش ہو کررہنی ہے، خواہ وہ کسی بھی ہیڈ سے آئے۔

انسانی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ بڑے انسانوں پر ہمیشہ خوفناک آزمائشیں آئیں۔ صلاحیت میں اضافے کیلئے تکلیف ناگزیر ہے۔ پیغمبروں پر تو جیسے یہ آزمائشیں ٹوٹ ہی پڑیںاور سب سے بڑھ کر تو سرکارؐ پر۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ جس ہستی کیلئے یہ کائنات تخلیق کی گئی‘اسے گلیوں میں پتھر مارے گئے اور مذاق اڑایا گیا۔ آپؐ یتیم پیدا ہوئے۔

ایک لڑکی کی اگر شادی نہ ہو رہی ہو تو یہ اس کے لیے دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن جاتاہے۔ دوسری طرف جب شادی ہو جائے توسسرال والوں کا رویہ سب سے بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ کہتی ہے، شادی نہ ہی ہوتی تو بہترتھا۔ ایک شدید بیمار شخص تمام نعمتوں کو اپنی صحت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ غربت زدہ شخص کے لیے پیسہ ہی سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ ایک بڑا غم چھوٹے غموں کو بے اثر کردیتا ہے۔

زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم

یہ غم ہو گا تو کتنے غم نہ ہوں گے

ایک بچّے کے نزدیک اس کا کھلونا ٹوٹنا ایک بہت بڑ اصدمہ ہوتاہے‘ جبکہ والدین کی نظر میں یہ معمولی بات ہے۔ اسی طرح ایک نوجوان کے لیے محبوب کا بچھڑنا ہی سب سے بڑا غم ہوتاہے‘ جبکہ ایک بوڑھے کے نزدیک یہ بے وقوفی ہے۔ اسی طرح مختلف درجات پر انسان کے Standardsبدلتے چلے جاتے ہیں۔ ایک دن آئے گا، جب ہمیں اس دنیا میں اپنے تمام دکھوں پہ ہنسی آئے گی۔

سوال تو صرف اتنا سا ہے کہ کون ہے وہ ذات‘ جس نے انسان کو آزمائش کیلئے تخلیق کیا؟ کسی دانا نے کہا تھا : اگر اس زمین پر آپ پیدا ہو چکے تو اب اس کا کوئیحل نہیں۔ 80سال اب آپ نے یہاں وقت گزارنا ہی گزارنا ہے۔ چاہے صبر سے گزاریں یا روتے ہوئے۔